ایک تاریخ مغرب کی ہے، جسے گھوڑے کی اندھیاری (Blinders) سے ہی پڑھا جاتا ہے، دیکھا جاتا ہے، سمجھا جاتا ہے، اور سراہا جاتا ہے۔ یہ افریقا کے بندروں سے یورپ کے نئینڈرتھل (Neanderthals) تک پہنچتی ہے۔ یہاں سے نامبارک زرعی دور شروع ہوتا ہے، جو مبارک صنعتی انقلاب سے سائنسی انقلاب کے لازوال دور میں قدم رکھ دیتا ہے، اور زمین کا مقدر بدل دیتا ہے۔ یہی اب دنیا کا مقدر ہے، جس میں فرد، خاندان، معاشرہ، تہذیب، اور احباب کی کمیونٹی کا وجود ختم ہوجائے گا۔ سرمایہ دار ریاست، سرمایہ دار منڈی حاکم ہوں گے۔ ایٹم کی طرح بکھرے میکانکی انسانوں کا منتظم ہجوم ہوگا۔ یہ ہے کُل نقشہ، جسے آج کے مغرب میں بطور ’تاریخ کا اختتام‘ پیش کیا جارہا ہے۔ اس کے سوا جو کچھ ہے، وہ کچھ نہیں ہے۔ نہ کہیں مشرق ہے، نہ مشرق میں صدیوں پر محیط شاندار تہذیبیں ہیں۔
مغرب اور مغرب زدہ معاشروں میں جب تاریخ کا طالب علم آنکھ کھولتا ہے، وہ کیا دیکھتا ہے؟ مذکورہ خطوط پر کھنچا نقشہ اُس کے سامنے کردیا جاتا ہے، جس کے بعد اُس کے تعلیمی مستقبل کا انحصار اندھیارے تصورِ تاریخ پرتعمیر ہوتا ہے۔ The Silk Roads: A New History of the Worldکے مصنف Peter Frankopan پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
’’جب میں بچہ تھا، میری قیمتی متاع میں دنیا کا ایک بہت بڑا نقشہ شامل تھا جو بسترکے ساتھ دیوار پرچسپاں تھا۔ روزانہ سونے سے پہلے میں یہ نقشہ غور سے دیکھا کرتا تھا۔ مجھے تمام ملکوں، شہروں، دریاؤں اور سمندروں کے نام ازبر ہوچکے تھے۔ سارے پہاڑوں اور صحراؤں سے باخبر ہوچکا تھا۔ وقت کے ساتھ میرا تجسس بڑھتا چلا گیا۔ میری بے چینی بڑھتی چلی گئی کہ اسکول کلاسز میں پڑھایا جانے والا جغرافیہ بہت تنگ اور مغرب مرکز تھا۔ اس کا مرکز و محور مغربی یورپ اور امریکہ تھا، جبکہ باقی دنیا کا کہیں ذکرنہ تھا… نقشے پر پھیلے بڑے حصے پر خاموشی طاری تھی۔ میں نے واضح طور پر محسوس کیا کہ یہ سب مغرب کے سیاسی و ثقافتی عروج کا منترا تھا۔ مگر مطالعہ تاریخ کا یہ زاویہ گمراہ کن تھا۔ میں روس اور وسطی ایشیا کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔ فارس اور میسو پوٹیمیا کی تاریخ سمجھنا چاہتا تھا۔ عیسائیت کے ماخذ ایشیا کی نظر سے دیکھنا چاہتا تھا۔ صلیبی جنگوں کو قرون وسطیٰ کے عظیم شہروں قسطنطنیہ، بغداد، یروشلم، اور قاہرہ کی تواریخ میں جاننا چاہتا تھا۔‘‘
یہ وہ اغلاط شدہ اور تعصب زدہ تاریخ ہے، جس نے پیٹر فرینکوپین کی تحقیق کا زاویہ بدل دیا۔ گوکہ یہ تحقیق بھی تحقیق طلب ہے، منفی اثرات سے یکسر پاک نہیں۔
رخ کرتے ہیں مغرب کی اندھیاری تاریخ کی جانب۔ Sapiens میں اسرائیلی پروفیسر یوول نوح ہراری نے بائیولوجیکل اور سائنٹفک تصورِ تاریخ کی نفسیات کھول کر رکھ دی ہے۔ اس کا لب لباب یہ ہے کہ:
’’13.5 ارب سال پہلے Big Bang کے سبب توانائی، مادہ، اور زمان و مکاں وجود میںآئے، اس سارے عمل کو طبیعات کا نام دیا گیا۔ تین لاکھ سال بعد ان اشیا کے تعامل سے کیمیا وجود میں آیا۔ 3.8 ارب سال پہلے یہ اجزا زمین نامی سیارے پر جمع ہوئے، حیاتیاتی اجسام پیدا کیے جو بائیولوجی کہلائے۔ ستر ہزار سال پہلے یہ اجسام انسان نما مخلوق میں ڈھلے، اور ثقافتیں وجود میں آئیں۔ یہ سب فطرت کے چناؤ کا ارتقا تھا۔ انسان بندروں، مکھیوں اور جیلی فش کی طرح کوئی قابل ذکر شے نہ تھے۔ یہ ساری معلومات ہزاروں سال پرانی بوسیدہ ہڈیوں سے ملنے والے ڈی این اے کے مطالعے سے سمجھی گئیں۔ ڈی این اے میپ کی نوعیتیں واضح کرتی ہیں کہ ہمارا تعلق چمپینزی کی برادری سے ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ افریقا میں جنم لینے والے یہ چمپینزی کس وقت انسان بنے، مگر قیاس ہے کہ ڈیڑھ لاکھ سال قبل ایسا ہوا ہوگا۔ دس ہزار سال پہلے، یہ انسان نما مخلوق مختلف صورتوں سے گزر کرHomo Sapiens تک پہنچی، یعنی ایک عقل مند انسان وجود میں آیا، گوکہ یہ بھی ایک معاشرتی حیوان ہی تھا، ہے، اور رہے گا۔ ستر سے تیس ہزار سال قبل کسی وقت انسان نما یہ اجسام سوچنے اور بولنے کے قابل ہوچکے تھے… اس عہد کو Coginitive Revolution کہتے ہیں۔ یہ انقلاب کیسے آیا؟ ہم نہیں جانتے۔ قبولِ عام کلیہ یہ ہے کہ انسان کے دماغ کی وائرنگ میں حادثاتی جینیاتی تبدیلی ہوئی، جس نے اسے ذہین اور گفتگو کے قابل بنادیا۔ اسے Tree of Knowledgeکا نام دیا گیا۔ دیومالائی داستانیں، خدا، اور مذاہب اسی دور میں پہلی بار سامنے آئے۔ انفرادی سطح پر یہ تاریخ کے سب سے ہنرمند اور باصلاحیت لوگ تھے۔ پینتالیس ہزار سال قبل انڈونیشیا، آسٹریلیا، اور دیگر جگہوں پر ان کے آثار ملتے ہیں۔ پچیس لاکھ سال تک یہ جنگلی زندگی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ یہ ہومو اریکٹس، ہوموارسگیٹر، اور نئینڈرتھل کہلائے۔ مشرقی افریقا سے مشرق وسطیٰ، وہاں سے یورپ اور ایشیا، اور آخر میں آسٹریلیا اور امریکہ پہنچے۔ مگر یہ سب دس ہزار سال پہلے یکایک بدل گیا جب Homo Sapiensنے مویشی پالنے شروع کردیے، اور کاشت کاری شروع کردی۔ یہ زرعی دور کہلاتا ہے۔ یہ تاریخ کا سب سے بڑا دھوکا ثابت ہوا۔ کیونکہ یہ اچھی خاصی جنگلی زندگی سے ایسی مشقت بھری زندگی میں داخل ہوگئے جس میں یہ اپنی حیوانی جبلتوں کے برخلاف ثقافت وتہذیب تشکیل دینے لگے، انہوں نے تخیلاتی احکامات اور وضع کردہ صحیفوں پر فلسفہِ زندگی گھڑلیا۔ یہ تاثر غلط ہے کہ اس عہد میں انسان کی دماغی قوت میں حیرت انگیز اضافہ ہوا… اصل بات یہ ہے کہ یہ طرزِزندگی حیوانی انسان کی طبیعت کے برخلاف تھی۔ زرعی زندگی مشقت اور اجتماعیت کا عہد تھا، یہ انسان کی مادی ترقی کے لیے بہت سست رو تھا۔ اس عہد میں انسانوں کی آبادی میں پہلی بار تیزی سے لاکھوں کا اضافہ ہوا۔ اس دور کی تعریف اور انقلابیت پر بہت کچھ کہا گیا ہے، مگر یہ ایک نامبارک عہد تھا… تہذیبوں کی تشکیل کا عہد تھا… مذاہب کے ظہور اور عروج کا عہد تھا۔ آبادیاں بڑھیں، لین دین کے لیے سکّوں کا رواج ہوا۔ سونے چاندی کی چمک دمک نے تعلقات کی نئی صورتیں پیدا کیں۔ بادشاہتیں اور سلطنتیں وجود میں آئیں۔ یہ سلطنتوں کے فیض سے ہی ممکن ہوا کہ مختلف غیر فطری ثقافتیں ایک سیاسی ایجنڈے تلے ساتھ زندگی گزارنے پر آمادہ ہوئیں (یہ سلطنتوں کے نہیں بلکہ مذہبی تہذیبوں کے سبب ممکن ہوا کہ آج بھی اسلام، عیسائیت، بدھ مت، ہندومت، اور یہودیت تلے سینکڑوں ثقافتیں یکجا ہیں)۔ یہ سب مال وزر کا کمال تھا۔ ڈھائی ہزار سال سے ریاست و سلطنت ہی وہ سیاسی انتظام ہے جس نے دنیا کو کامیابی سے چلایا ہے۔ انسانوں کو متحد کرنے میں سرمائے اور سلطنت کے بعد مذہب کا کردار اہم ترین رہا ہے۔ مذہب نے تصوراتی احکامات کے ذریعے معاشرتی ڈھانچوں کو مستحکم کیا۔۔ اب آجاتے ہیں مبارک عہد میں، جس نے یہ آشکارکیا کہ اب تک انسانی تاریخ جہالت میں ڈوبی ہوئی تھی۔ یہ ہمارے آخری پانچ سو سال کا عرصہ ہے، جس نے تجربی و مشاہداتی علم کی بنیاد رکھی، انسان کو ترقی کی معراج پر پہنچادیا۔ اس دور میں یورپی استعماریت، سائنس اور سرمایہ دارانہ معاشی نظام کا اتحاد بنا۔ انسانی ترقی کی گاڑی چل پڑی۔ زمین پر ٹرینیں دوڑنے لگیں۔ انسان ہواؤں میں پروازیں بھرنے لگا۔ نظریات سے تجربات کی جانب آگیا۔ انسان نے ایٹم بم بنالیے۔ بیماریوں سے نمٹنا آسان ہوگیا۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی نے کمیونیکیشن کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔ ماہرینِ حیاتیات نے موت کو اٹل سمجھنا چھوڑدیا۔ موت صرف ایک تکنیکی مسئلہ ہے، جسے شکست دینے کی کوششیں جاری ہیں۔ ڈی این اے ڈیزائن کیے جارہے ہیں۔ مذہبی توہمات کا سحر توڑ دیا۔ آدمی خودمختار ہوگیا۔ برطانیہ عظمیٰ نے سائنس کی مدد سے دنیا بھرمیں صنعتی انقلاب برپا کیا۔ دنیا کی تقدیر بدل دی۔ کولمبس اسپین سے امریکہ کی منڈی ڈھونڈنے نکلا۔ یہ تاریخ کی بہت بڑی منافع بخش سرمایہ کاری تھی۔ امریکہ نے جدید دنیا کی قیادت سنبھالی۔ پروفیسر ہراری ’تاریخ کے اختتام‘ کی ابتدا In the name of Capital (مال وزر کے نام سے) کرتے ہیں۔ وہ دعویٰ فرماتے ہیں کہ جدید سرمایہ دار دنیا کے دور میں دنیا بے مثال وسائل کی فراوانی دیکھ رہی ہے۔ سرمائے نے انسان کی سہولیات اور تعیشات کو کمال پر پہنچادیا ہے۔ یہی ہے حتمی انقلاب۔ انسان اب خاندان اور رشتوں کی غیر فطری ضرورتوں سے نجات پارہا ہے۔ اب سب کچھ ریاست اور منڈی کی ذمے داری ہوگی۔ ریاست روایتی معاشروں پر عدالتی احکامات کے ذریعے دھاوا بول رہی ہے، اور منڈی فیشن اور شوبزنس کے ذریعے مقامی روایتوں پر حملہ آور ہے۔ انسانوں کی خوشی کا دارومدار جسمانی خواہشات کی تکمیل میں ہے۔ کیمیائی اور حیاتیاتی ضروریات ہی مسرت و اطمینان کی واحد وجہ ہیں۔ اکیسویں صدی کی ٹیکنالوجی کے بعد انسان فطرت کے چناؤ کا بھی محتاج نہیں رہا۔ وہ اب خود مصنوعی ذہانت ڈیزائن کررہا ہے۔ حیاتیاتی انجینئرنگ، سائی بورگ انجینئرنگ، اور ان آرگینک انجینئرنگ فطرت کے چناؤ کی جگہ سنبھال رہے ہیں۔ حیاتیاتی انجینئرنگ میں ڈی این اے ڈیزائن کرکے زندہ خلیات میں شامل کیے جارہے ہیں، اور رحم مادر میں داخل کیے جارہے ہیں۔ سائی بورگ انجینئرنگ میں انسانی جسم میں بایونک آلات کی تنصیب وغیرہ ہے۔ In organic انجینئرنگ میں کمپیوٹرز اور دیگر جدید ٹیکنالوجی شامل ہے، جو انسان کی جگہ لے رہی ہے۔ غرض صورت حال معروف ادبی کردار فرینکنسٹائین (Frankenstein) کی کہانی یاد دلاتی ہے، جو ایک سائنس دان تھا۔ وہ کوئی سپرہیومن بنانا چاہتا تھا، مگر ایک شیطان پیدا کردیتا ہے۔ دوصدیوں کے دوران سائنسی دنیا میں یہ کہانی متواتر دہرائی گئی ہے۔ ممکن ہے مستقبل قریب میں سائنس ایسی مخلوق بنادے جو ہمیں مٹادے، اور خود دنیا پر قابض ہوجائے۔ جس طرح ہم خود کو نئینڈرتھل سے بالاتر سمجھتے ہیں، وہ ہمیں خود سے کمتر سمجھے۔ پروفیسر ہراری آخری باب The animal that became a God میں خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ ایک معاشرتی حیوان زمین کا خدا بننے کے قریب ہے۔ مگرحقیقت یہ ہے کہ اب تک زمین پر انسان کی حکومت میں بہت کم ہی ایسا ہوا ہے کہ جس پرفخر کیا جاسکے۔ کیا ہم نے انسانوں کی زندگی سے دکھ درد کم کردیے؟ ہم نے دیگرجانوروں کے لیے زندگی انتہائی تنگ کردی ہے۔ ماحولیات تباہ کردی ہے۔ ہم ہمیشہ کی مانند آج بھی زندگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ ہم جتنے طاقتور ہوئے ہیں، اتنے ہی غیر ذمے دار ہوئے ہیں۔ ایسے خداؤں سے زیادہ خطرناک کیا ہوسکتا ہے؟ جو غیر مطمئن بھی ہوں اور غیر ذمے دار بھی؟ اور یہ تک نہ جانتے ہوں کہ وہ چاہتے کیا ہیں؟‘‘
اس انتہائی ہولناک تصورِ تاریخ سے تین سنگین ترین مسائل سامنے آتے ہیں۔ پہلا مسئلہ نظریہِ ارتقا ہے، یہ انسان کی حیوانی حیثیت متعین کرتا ہے، یوں تصورِ تاریخ کی سمت ہی پستیوں میں گم ہوجاتی ہے۔ دوسرا مسئلہ یورپ امریکہ مرکزیت ہے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ مغرب کے مؤرخین نے قرآن حکیم کا مطالعہ براہِ راست کیا ہی نہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ سائنس دان تحقیق کی صاف نیت سے قرآن حکیم پر مکمل نگاہ ڈالے، اور یوں ہی گزر جائے۔ اس مسئلے میں واضح ہوتا ہے کہ مؤرخ صریح بددیانتی سے کام لے رہا ہے، یا باقی دنیا کی تاریخ سے لاعلم ہے۔ تیسرا مسئلہ تاریخ کے بارے میں وہ فیصلہ ہے، جو مذکورہ دونوں مسائل سے پیدا ہوتا ہے۔ اب مذکورہ تاریخ کی درست سمت کا جائزہ لیتے ہیں۔
سب سے پہلے Big Bang… نزولِ قرآن کے بعد، عرب کے صحرا نشیں اس حقیقت سے واقف ہوچکے تھے کہ ’’اور کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے، پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کردیا اور ہم نے پانی سے ہر جان دار چیز کو پیدا کیا ہے۔ کیا (ان باتوں کو سن کر) بھی یہ ایمان نہیں لاتے۔‘‘
(سورۃ الانبیاء۔30)
’’اور ہم نے ہی آسمان کو اپنے دستِ قدرت سے پید ا کیا اور ہم ہی اسے پھیلا رہے ہیں۔‘‘
(الذاریات۔ سورۃ 51 : آیت 47)
اونٹ چرانے والے یہ اہلِ اسلام جان چکے تھے کہ انسان کسی زمانے میں کوئی قابلِ ذکر شے نہ تھا’’کیا انسان پر وہ زمانہ نہیں گزر چکا، جب یہ قابلِ ذکر شے نہ تھا۔‘‘
(الدھر76:1)
وہ اس حقیقت سے واقف ہوچکے تھے کہ ’’اور یہ واقعہ ہے کہ ہم نے انسان کو بہترین ہیئت (پیکر) میں پیدا کیا جس میں توازن و تناسب حسین ترین مقام تک پہنچ گیا۔‘‘
(التین 95:4)
احسن کا مطلب بہترین تخلیق، یعنی دیگر مخلوقات کی خصوصیات واجبی یا بہتر تھیں۔ کسی کا بہترین ہونا اس بات پر دلالت ہے کہ کوئی اس سے کمتر مخلوق موجود رہی ہے۔ کائنات اور دنیا، اور ان کی تواریخ سے یہ مومنین آگاہ تھے، کیونکہ خالقِ کائنات نے خود ساری حقیقت اتمام حجت کے طور پر قرآن حکیم میں کھول کر بیان کردی تھی۔ تہذیب یافتہ انسانی رویہ عین فطری رجحان تھا۔ خاندان کی تشکیل، معاشرہ بندی، تہذیب و تمدن عین فطری اعمال تھے، اور وقوع پذیر ہوکر رہے۔ انبیا و صالحین نے ایسی تہذیبیں تشکیل دیں، جنہوں نے انسانی تاریخ ترتیب دی۔ یہی وہ دور تھا جس نے انسانی آبادی اور تہذیب کی آبیاری کی۔ انسانی تاریخ آج بھی ان ہی تہذیبی اقدار پر استوار ہے۔ اسلامی تہذیب کا عروج ہی وہ عہد ہے جب جدید سائنس کی بنیادیں رکھی گئیں۔ پروفیسر یوول نوح ہراری سمیت سائنس کے اکثر مغربی مؤرخین متواتر تعصب اورغلط بیانی سے کام لیتے رہے ہیں۔ یہاں برطانوی ریاضی داں اور اسٹینفورڈ کے سینئر ریسرچ فیلو Kieth Devlin کے مضمون How Islam kick started science کا خلاصہ برمحل ہوگا۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ہم سب جو علم ریاضی سے تعلق رکھتے ہیں، بخوبی سمجھتے ہیں کہ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی بنیاد مسلم عباسی عہد میں رکھی گئی۔ آج کے ریاضی دان اسلامی ریاضی کے شاگرد ہیں۔ آٹھویں صدی عیسوی میں اسلام شمالی افریقا، مشرق وسطیٰ اور مغربی یورپ کے کچھ حصوں میں پھیل چکا تھا۔ بغداد تہذیبی وعلمی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ سائنس اور ریاضی کے علوم پڑھائے جارہے تھے۔ بیت الحکمت (House of Wisdom) قائم کیا گیا تھا۔ یہاں یونانی علوم کے وسیع پیمانے پر تراجم کیے گئے۔ دنیا بھر سے علوم کے ماہرین یہاں جمع کردیے گئے تھے۔ یونانی ریاضی داں Euclid کی کتاب Elements کا عربی ترجمہ اسی عہد میں ہوا۔ معروف مسلمان سائنس دان ابوجعفر محمد بن موسیٰ الخوارزمی… جو ماہر فلکیات بھی تھے… کے جدید سائنس پر بڑے احسانات ہیں۔ الخوارزمی کی تصنیفات نے جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی راہیں متعین کیں۔ تین سو سال بعد جب یہ کتابیں لاطینی میں ترجمہ ہوئیں، تو یورپ کے سائنس دانوں کے لیے سائنسی علوم کا مرکزی ماخذ ثابت ہوئیں۔ algorithm، ریاضی کے وہ بنیادی اصول جن پرآج کی کمپیوٹر سائنس کھڑی ہے، لاطینی کے algorism یعنی عرب کے Al khwarizm سے ماخوذ ہے۔ الجبرا کی بنیاد مسلمان سائنس دانوں نے ہی رکھی (کہنے والے کہتے ہیں Past Glorification سے آگے بڑھنا چاہیے۔ یقینا بڑھنا چاہیے، مگر تاریخ کی ان سچائیوں کومتواتر واضح کرنا چاہیے، جنہیں دانستہ چھپایا جاتا رہا ہے۔ یہ تاریخ کی درستی کے لیے لازم ہے۔ جب نیوٹن اور گلیلیوکی مدح سرائی ماضی کا قصہ نہ بن سکی، تو الخوارزمی، کندی، فارابی، غزالی، اور طوسی کے کارہائے نمایاں کیوں قالین تلے چھپائے جائیں؟)۔ برطانوی مترجم Robert of Chester نے 1145ء میں الجبرا کی عربی کتاب کا لاطینی میں ترجمہ کیا تھا۔ آج کا الجبرا وہی عربی سے لیا گیا ہے۔ نویں سے چودھویں صدی تک مسلمان علما و سائنس دانوں کی علمی کاوشیں تھیں، جن پر جدید سائنس کی تعمیر ممکن ہوسکی۔
درحقیقت تجربی اور مشاہداتی سائنس کے نام نہاد پانچ سو برسوں میں بھی ملحد ارتقا پرست اقلیت ہی رہے۔ سائنسی انقلاب اور جدیدیت کے اکثر پیروکار کبھی بھی مذہبی وابستگی سے بیزار نہیں ہوئے۔ نیوٹن نے کہا کہ کائنات کا بہترین انتظام کسی طاقتور اور حکیم ہستی کے حکم سے ہی جاری رہ سکتا ہے۔ آئن اسٹائن نے بھی واضح کیا کہ وہ دہریے نہیں ہیں، بس ان کا خدا وہی ہے جو اسپائنوزا کا تھا۔
اصل قصہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کے اعمال اور عمال دونوں کمزور ہوئے۔ علوم میں جمود آگیا۔ دوسری جانب پاپائیت سے نجات پانے والے اور صدیوں کی تاریکیوں سے بیدار ہونے والے یورپ نے مسلمان اندلس کی علمی روایتیں اپنالیں۔ سائنسی علوم کی بنیادوں پر اپنی نئی عمارت اٹھائی، ساتھ ساتھ مذہب دشمنی پروان چڑھائی۔ یوں جدید مغربی سائنس لادینیت کی گود میں پلی بڑھی۔ جدید مغرب کا سارا بچپن مذہب سے نفرت میں گزرا۔ یہ کیسے ممکن ہوسکتا تھا کہ جوانی میں ایمان و انکسار آجاتا؟ نتیجہ یہ ہوا کہ تحقیق کا رخ مذہب مخالف، خدا مخالف ہی رہا۔ اب اگر سائنس دان لادین ہوگا، توکس طرح تحقیق کی تعبیر میں روحِ خدا پائے گا؟ لٰہٰذا یہاں سے مغرب کا تصورِ تاریخ تباہ کن ہوتا چلا گیا، اور مذکورہ تاریخ Sapiens میں بھی یہی سامنے آیا کہ پروفیسرنوح ہراری کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا پوزیشن اختیار کریں۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام، استعماریت، ریاستی آمریت، منڈی کی من مانیوں، اور جسمانی عیش وطرب کے قصیدے پڑھتے پڑھتے وہاں پہنچ گئے، جہاں فرعون نے خدائی کا دعویٰ کردیا تھا، کیونکہ اس کا فہم یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ کوئی بالاتر ہستی بھی ہوسکتی ہے، جو نظام عالم چلا رہی ہے۔ مگر آخری باب کی آخری سطروں میں مسٹر ہراری کی انسانی روح معاشی حیوانیت پر غالب آگئی۔ اس مقام پر وہ فرشتوں والا سوال دہرا رہے ہیں کہ یہ انسان تو زمین پر فساد مچائے گا؟ یہ بندر جو خود کو خدا سمجھنے لگا ہے، جتنا طاقتور ہوچکا ہے، اتنا غیرذمے دار ہوچکا ہے، یہ کیا کرے گا، جبکہ یہ جانتا بھی نہیں کہ اسے کرنا کیا ہے؟ جواب اس کا بھی قرآن حکیم سے ہی سامنے آتا ہے کہ ’’اور یاد کرو جب کہ تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں، انھوں نے کہا کیا تُو اس میں اس کو خلیفہ مقرر کرے گا جو اس میں فساد مچائے اور خونریزی کرے، اور ہم تو تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح کرتے ہی ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہی ہیں؟ ان کے رب نے کہا میں وہ جانتا ہوں جوکچھ تم نہیں جانتے۔‘‘ (البقرہ 2:30)