شوگر ملوں کے خلاف گنے کے کاشتکاروں کا احتجاج

معروف سندھی نیوز چینل پر گنے کے آبادگاروں کے احتجاجی مظاہرے کا یہ منظر بڑا ہی دل فگار اور تڑپا دینے والا تھا۔ سیکڑوں آبادگار گنے کی مناسب قیمتیں نہ ملنے کے خلاف شوگر مل مالکان اور حکومتِ سندھ کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ ان کی خستہ حالی اور حالتِ زار ان کے چہروں اور لباس سے بہ خوبی عیاں تھی۔ رپورٹر نے اس مظاہرے میں شامل ایک ضعیف العمر آبادگار سے اس کی رائے جاننا چاہی تو وہ اپنے مخصوص سندھی لہجے میں جب گویا ہوا تو اس کی آنکھیں نم اور آواز بھرّائی ہوئی تھی۔ آبادگار پر ٹی وی کا کیمرہ مرتکز تھا اور وہ بتا رہا تھا کہ ’’ہر سال کی طرح اِس سال بھی شوگر ملوں کے مالکان ہمیں گنے کی فصل کے مناسب نرخ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حکومتِ سندھ ہے تو اس نے بھی بالکل چپ سادھ رکھی ہے۔ ہماری گنے کی تیار فصل خریدار نہ ہونے کی وجہ سے کھیتوں ہی میں خشک ہوتی جارہی ہے۔ ہمارے بیوی بچے اپنے گھروں میں فاقہ کشی پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ہم ہر سال پانی کی کمی کے باوجود بڑے زمینداروں یا بنیے سے قرض لے کر بڑی محنت اور مشقت کے بعد یہ فصل کاشت کرتے ہیں۔ بیج، کھاد، زرعی کیڑے مار دوائوں اور ڈیزل پر خرچہ کرکے دن رات کی محنت سے جب ہماری یہ فصل تیار ہوتی ہے تو شوگر ملوں کے مالکان ہم سے مناسب قیمت پر گنے کی خریداری کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ارے! کوئی ظلم سا ظلم ہے؟ اس وقت مارکیٹ میں گھروں میں جلائی جانے والی لکڑی بھی 400 روپے من بک رہی ہے اور ہمیں شوگر ملوں کے یہ ظالم مالکان فی من گنے کی قیمت 130 تا 140 روپے دے رہے ہیں جس سے ہمارا خرچہ بھی پورا نہیں ہوسکتا۔‘‘ بوڑھا آبادگار جوشِ جذبات میں اپنے دل کی باتیں بہ آوازِ بلند بیان کررہا تھا، دفعتاً وہ بولا ’’کہاں گیا ہے امبران (عمران) خان؟ بڑے دعوے کیا کرتا تھا وہ تو تبدیلی کے!!! ہمارا تو جو حال پہلے تھا اب بھی ویسے کا ویسا ہی ہے۔ آخر وہ ان لٹیرے مل مالکوں کو کیوں نہیں پوچھتا؟‘‘ بے چارے ٹی وی رپورٹر کے پاس کیوں کہ اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا لہٰذا اب اُس نے احتجاجی مظاہرے کے دیگر مناظر دکھانا شروع کردیے تھے، جس کے شرکاء حکومت کو بے محابہ کوس رہے تھے اور نعرہ زنی میں مصروف تھے۔
امسال بھی سندھ کی شوگر ملوں نے وقتِ مقررہ پر کرشنگ سیزن کا حسب سابق آغاز کیا ہے اور نہ ہی ان کے مالکان گنے کے آبادگاروں کو ان کی محنت کا مناسب معاوضہ دینے کے لیے ہی تیار ہیں، جس کی وجہ سے سندھ بھر میں آبادگار سڑکوں اور مقامی پریس کلبوں کے سامنے احتجاج کرنے میں مصروف ہیں، تاہم ان کے اس شور و فغاں اور احتجاج پر ہماری عدلیہ سمیت کوئی بھی کان دھرنے کے لیے آمادہ دکھائی نہیں دیتا۔
شوگر کین بورڈ کے گزشتہ اجلاس میں آبادگاروں اور شوگر مل مالکان کے مابین گنے کے نرخ پر اتفاقِ رائے نہ ہونے کے سبب صوبائی وزیر زراعت سندھ اسماعیل راہو نے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ اور متعلقہ ذمے داران سے مشاورت کے بعد نوٹیفکیشن جاری کرنے کا اعلان کیا تھا اورشوگر مل مالکان کو 30 نومبر سے قبل اپنی ملیں چلانے کی ہدایات جاری کی تھیں، لیکن حسبِ سابق و روایت مل مالکان نے امسال بھی اس حکم اور ہدایت کو ایک خندۂ استہزا کے ساتھ ٹھکرا دیا ہے، اور تادم تحریر اس پر عمل درآمد ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ آبادگاروں کے مطابق انہیں گنے کی قیمت 200 روپے فی من دی جائے تو اسی صورت میں وہ اپنا گنا فروخت کریں گے، جب کہ مل مالکان انہیں فی من قیمت 130 تا 140 روپے دے رہے ہیں۔ اس صورت میں وہ اپنی گنے کی فصل کو جلانے کو ترجیح دیں گے۔ اہم بات یہ ہے کہ جس زرعی زمین پر گنے کی فصل تیار کھڑی ہے اس کے نصف پر گندم کاشت کی جاتی ہے۔ اس طرح سے آبادگاروں کو دوگنا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ ایک طرف تو گنے کی فصل خشک ہونے سے اس کا وزن کم ہوجائے گا، اور دوسری جانب گندم کی فصل بھی وقتِ مقررہ پر کاشت نہیں ہوسکے گی۔ امسال 7 لاکھ ایکڑ سے زائد زمین پر گنے کی فصل کاشت کی گئی ہے جو ہنوز خریداری نہ ہونے کی وجہ سے سوکھنے لگ گئی، جبکہ گندم کی فصل کے لیے دو لاکھ ایکڑ زرعی زمین دستیاب نہ ہوسکی تو کسانوں کو تین ارب روپے سے زائد کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ ایسی صورتِ حال میں صوبہ سندھ کے آبادگاروں اور ہاریوں کی ذہنی اذیت کا اندازہ بہ خوبی کیا جا سکتا ہے۔
گزشتہ برس حکومتِ سندھ نے گنے کی قیمت خریداری فی من 182 روپے مقرر کی تھی لیکن مل مالکان نے اسے درخورِ اعتنا گرداننے کے بجائے اپنی من پسندکم قیمت پر گنا خریدا تھا۔ آبادگاروں کا مطالبہ ہے کہ امسال ان کی گنے کی فصل پر زیادہ لاگت آنے کی وجہ سے 200 روپے فی من قیمت دی جائے، جسے ماننے کے لیے شوگر مل مالکان کسی طور پر بھی تیار نہیں، اور وہ 130 تا 140 روپے فی من قیمت دینے کے لیے بضد ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس وقت سندھ بھر میں کُل 38 شوگر ملوں میں سے 34 فعال اور برسرِکار ہیں، جن میں سے مبینہ طور پر نصف سابق صدر زرداری اور اُن کے دوستوں یا اقرباء وغیرہ کی ہیں۔ ان سب نے آپس میں گٹھ جوڑ کررکھا ہے کہ وہ کسی بھی طور پر آبادگاروں کو اُن کی فی من مطلوبہ رقم نہیں دیں گے، اور ان کا یہ ظالمانہ رویہ گزشتہ کئی برس سے چلا آرہا ہے۔ اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ مل مالکان ہر سال ہی خود کو خسارے سے دوچار دکھا کر حکومتِ سندھ اور وفاق سے اربوں روپے زرتلافی (سبسڈی) وصول کرلیتے ہیں، حالانکہ واقفانِ حال کے مطابق زرِ تلافی کے اصل حق دار گنے کے آبادگار ہوتے ہیں، لیکن ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ آج کل بھی آبادگار اپنے ساتھ روا رکھی گئی ناانصافی اور زیادتی کے خلاف سندھ بھر میں سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں، لیکن ان کی اس صدائے احتجاج پر کوئی بھی کان دھرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ سندھ ایک زراعت پیشہ صوبہ ہے جس کی تقریباً70 فیصد آبادی کا دارو مدار اس پیشے پر ہے، لیکن نہ تو وفاقی اور نہ ہی صوبائی حکومت کو سندھ کے ہاریوں اور آبادگاروں کی بہتری سے کوئی دلچسپی ہے۔ ہر سال ہی سندھ کے کسان کبھی گندم، کبھی چاول، کبھی کپاس اور کبھی گنے کی مناسب قیمت نہ ملنے کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے دیگر مسائل میں پانی کی کمی، بار دانہ (جوٹ کی بوریاں گندم وغیرہ رکھنے کے لیے) کی عدم دستیابی بھی شامل ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہمارے ہاری جب حد درجہ شبانہ روز محنت و مشقت اور بیج، کھاد، زرعی ادویہ پر خرچ برداشت کرنے کے بعد موسم کے مطابق کاشت کردہ فصل کی کٹائی کریں تو حکومت کی جانب سے وضع کردہ معقول نظام اور انتظام و انصرام کے تحت ان کا اناج مقامی منڈیوں اور حکومت کے قائم کردہ خریداری مراکز تک بآسانی پہنچ کر فروخت ہوسکے۔ لیکن ہمارے ہاں پہلے تو روڈ راستوں کی حالت ہی خراب و ابتر ہے۔ کسان جب اپنی فصل کی کٹائی کے بعد بھاری رقم پر مبنی کرایہ خرچ کرکے بذریعہ مال بردار گاڑی اناج منڈی یا مراکزِ خریداری پر پہنچتا ہے تو اسے وہاں دل شکن صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے وہاں پر موجود عملے اور خریداروں کا برا سلوک دیکھ کر وہ اپنی محنت سے کاشت کردہ فصل کو اونے پونے داموں پر بیچنے پر مجبور ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے اس کی جانب سے فصل پر کیے گئے اخراجات بھی اسے نہیں مل پاتے۔ ان وجوہات کی بنا پر ہی اب بیشتر کسان اپنے آبائی پیشے سے دست بردار ہوتے جا رہے ہیں، اور وہ حصولِ روزگار کے لیے بڑے شہروں کا رُخ کرنے لگے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی مخلص قیادت پر مبنی حکومتیں اپنے ہاں کے کسانوں کو زیادہ سے زیادہ مراعات اور سہولیات فراہم کرتی ہیں تاکہ اس طرح سے ملک کی معیشت اور زراعت کو ترقی دے کر کسانوں اور عام افراد کو خوشحال اور ان کے معیارِ زندگی کو بہتر بنایا جا سکے، لیکن ہمارے ملک بہ شمول صوبہ سندھ میں صورت حال اس کے یکسر برعکس ہے۔ سندھ کے ہاری گزشتہ ایک عرصے سے قلتِ آب، کھاد، اصلی بیج اور زرعی کیڑے مار ادویہ کے جعلی اور گراں قیمت پر دستیاب ہونے جیسے مسائل سے دوچار ہیں، لیکن ان کے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہے، جس کی وجہ سے سندھ کی زراعت آج شدید بحران سے دوچار ہے۔ گنے کی خریداری کا سرکاری نوٹیفکیشن دو ماہ پیشتر جاری ہوجانا چاہیے تھا جو حکومتِ سندھ کی نااہلی سے تاحال جاری نہیں ہوا ہے۔ شوگر ملوں نے بھی تاحال کرشنگ شروع نہیں کی ہے، حالانکہ ماہ اکتوبر سے کرشنگ سیزن شروع ہوجاتا ہے۔ تاحال صرف رانی پور، مٹیاری، باندھی، سانگھڑ اور خیرپور کی 5 شوگر ملوں نے ہی کام شروع کیا ہے۔ کرشنگ نہ کرنے والے شوگر مل مالکان کے خلاف سخت کارروائی ناگزیر ہوچکی ہے۔

ایوان علم و ادب سندھ کی ایک علمی و فکری تنظیم

درویش صفت، خوش طبع، خوش اخلاق اور خوش فکر پروفیسر عبدالخالق سریانی بلوچ بلاشبہ ایک منفرد اور یگانہ شخصیت کے مالک ہیں۔ موصوف بزبان اردو اور سندھی مختلف علمی، ادبی اور تعلیمی موضوعات پر متعدد وقیع کتب کے خالق ہیں۔ سندھ کے ایک پسماندہ ضلع کندھ کوٹ کے خواجہ محلہ میں رہائش پذیر اس فردِ فریدے اپنی حیات مستعار کے آٹھ عشرے گزارنے کے باوجود آج بھی ’’کیے جائو تم کام میرے دوستو‘‘ کے اصول پر اپنی زندگی بسر کرنے کا غالباً تہیہ کر رکھا ہے۔ پروفیسر عبدالخالق سریانی بلوچ نے تنظیم ’’ایوان علم و ادب پاکستان‘‘ کے نام سے قائم کی ہے۔ تنظیم کے شائع شدہ تعارفی کتابچہ میں اس تنظیم کے قیام اور تشکیل کے مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ صوبہ سندھ، جسے باب الاسلام ہونے کا شرف بھی حاصل ہے، مگر آج اس خطہ میں علم و ادب کے محاذ پر لادین اور ترقی پسند طبقے کا تسلط ہونے کے باعث سندھ میں قوم پرست، سوشلسٹ اور سیکولر تحاریک کے اثرات نمایاں رہے ہیں جس کے اثرات اسلامی ادبی تحاریک پر بھی پڑتے رہتے ہیں۔ اس نازک صورتحال میں اسلامی فکر کے حامل ادباء، شعرائے کرام اور اہل قلم و دانشور حضرات میں بھی حد درجہ اضطراب پایا جاتا تھا۔ ان میں باہمی روابط پیدا کرنے اور متحد کرنے کے لیے باہمی مشورے کے بعد 12 ربیع الاوّل 1428ھ (یکم اپریل 2017ء) کو حیدر آباد میں اہل قلم، ادباء و شعراء کا ایک بہت بڑا کنونشن سیرتؐ کانفرنس کے حوالے سے منعقد ہوا۔ جس میں سندھ بھر سے 40 سے زائد اسلامی فکر سے وابستہ اہل قلم حضرات نے شرکت کی۔ تمام شرکائے اجلاس نے اس سعید موقع پر باہمی اتفاق سے ملکی سطح پر بھی اسلامی فکر و نظر کے حامل ادباء و شعراء اور دانشور حضرات، نیز ہم خیال ادبی تنظیموں کا ایک متحدہ فورم یا وفاق قائم کرنے کی تجویز دی۔ جس کا نام ایوان علم و ادب سندھ رکھا گیا۔ بعد 14 اگست 2007ء کو حیدر آباد ہی میں ’’اسلام اور استحکام پاکستان کے موضوع پر ایک علمی مذاکرہ منعقد ہوا جس کے تمام شرکاء نے علمی و ادبی متحدہ فورم کے قیام کی تجویز کی توثیق کی۔
ایوانِ علم و ادب پاکستان کے اغراض و مقاصد:
-1 اُمت مسلمہ کے اجتماعی امور کے بارے میں دردِ دل رکھنے والے اہل قلم و دانش، علمی و ادبی تنظیموں اور مدیران جرائد اور حضرات سے مسلسل رابطہ رکھنا اور ان کے درمیان دیگر روابط قائم کرنے کا اہتمام کرنا۔
-2 اُمت وسط کی حیثیت سے عالمی مذاہب اور اقوام عالم کے درمیان مصالحت، مفاہمت اور اعتدال کی فضا قائم رکھنے کے لیے رائے عامہ تیار کرنا۔
-3 عصر حاضر کی طاغوتی طاقتوں کی جانب سے انسانیت اور اُمت مسلمہ کے خلاف سازشوں، معاندانہ کارروائیوں اور استحصالی حربوں کے خلاف عوامی شعور بیدار کرنا۔
-4 قلم و قرطاس کے ذریعے شہادتِ حق کے فریضہ کو فکری و عملی طور پر ادا کرنے کے لیے جدوجہد کرنا اور اس سلسلے میں عصر حاضر میں جاری اسلامی، علمی و ادبی تحاریک سے استفادہ کرنا۔
’’ایوان علم و ادب‘‘ کے تحت تاحال ملک بھر کے مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں بہت سارے پروگرامات کا انعقاد کیا جاچکا ہے جن میں سیرت النبیؐ کانفرنس حیدر آباد اہل قلم قومی کنونشن لاہور یکم مئی 2008ء۔سیرت النبیؐ کانفرنس سکھر استحکام پاکستان کانفرنس منعقدہ کسان ہال لاہور، مجلس مذاکرہ بعنوان ’’عالم اسلام اور اُمت مسلمہ‘‘۔ لاہور،ذکر حبیبؐ کانفرنس۔لاڑکانہ سندھ ،پیغام قرآن کانفرنس، حیدر آباد ،اتحاد اُمت کانفرنس ڈی جی خان ،سیرت النبیؐ کانفرنس بمقام مسجد قبا ہیر آباد حیدر آباد شامل ہیں عبدالخالق سریانی بلوچ کی دعوت پر 9 دسمبر 2018ء کو حیدر آباد میں اہلِ دانش کی خصوصی نشست منعقد ہوئی، جس میں سندھ کی نظریاتی صورت حال کی پس منظر میں دعوت دین کی حکمت عملی پر تبادلۂ خیال کیا گیا، اس کے علاوہ صادق آباد، رحیم یار خان، شکارپور سمیت کئی شہروں میں پروگرامات منعقد کیے جاچکے ہیں۔
پروفیسر عبدالخالق سریانی بلوچ کی چند اہم تصانیف کے نام یہ ہیں۔
(1) مسلم اُمت پر قوم پرستی کے اثرات (بزبان اردو اور سندھی)
(2) اسلامی ریاست میں علاقائی حقوق کا تصور (بزبان اردو اور سندھی)
(3) خدائِ مذہب (سندھی)
(4) فرقہ واریت ئِ اسلام (سندھی)
(5) فرقہ واریت اور انتہا پسندی کے رجحانات
(6) سیکولر ازم چھا آھی؟
(7) قرآن سمجھن جا آسان طریقا (سندھی)
علاوہ ازیں ان کی جانب سے سندھی ماہنامہ ’’وینجھار‘‘ سمیت دیگر اخبارات اور رسائل و جرائد میں علمی اور ادبی موضوعات پر لکھنے کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے۔