سالِ نو کا آغاز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی سے ہوا تھا۔ عالمی سیاست اور سفارت کاری میں ’’ٹویٹ‘‘ کے استعمال کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نئی طرح دی ہے۔ وہ اپنے پیغامات روایتی اور باضابطہ ذرائع کے علاوہ ٹویٹ کے ذریعے بھی دیتے ہیں۔ انہوں نے ٹویٹ کے ذریعے پاکستان پر ’’فردِ جرم‘‘ عاید کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ نے 15 سال میں پاکستان کو 33 ارب ڈالر دے کر بے وقوفی کی، اربوں ڈالر کی امداد کے بدلے اسلام آباد نے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اسلام آباد ہمارے رہنمائوں کو احمق سمجھتا رہا۔ اس نے اُن دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کیے ہیں جنہیں ہم افغانستان میں تلاش کرتے رہے ہیں اور انہیں ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ پاکستان ہم سے معمولی تعاون کرتا رہا ہے۔ مگر اب ایسا نہیں چلے گا۔
سال کے اختتام پر منظرنامہ یہ ہے کہ اسی امریکی صدر نے جو صرف حکم دینے کا عادی ہے، وزیراعظم پاکستان عمران خان کو خط لکھ کر افغانستان میں آزادی کی جنگ لڑنے والے امارتِ اسلامیہ افغانستان یعنی افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے کی درخواست کی۔ اس بات کا سب سے پہلے انکشاف خود وزیراعظم پاکستان نے کیا تھا، جس کی بعد میں امریکی حکومت نے بھی تصدیق کردی۔ اور اب مجاہدینِ آزادی دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر مذاکرات کررہے ہیں۔ ان مذاکرات کا نتیجہ کیا نکلے گا، یہ ابھی واضح نہیں ہے۔ یہ اس عالمی جنگ کا نتیجہ ہے جسے ’’وار آن ٹیرر‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ مغربی مدبرین اس جنگ کو چوتھی عالمی جنگ قرار دیتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے امام امریکہ اور کمیونسٹ سوویت یونین کے درمیان نصف صدی پر مشتمل سرد جنگ کو تیسری عالمی جنگ قرار دیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ وار آن ٹیرر کو عالمی جنگ قرار دیتے ہوئے دنیا کے چالیس ملکوں کی افواج ایک ایسے پسماندہ ملک پر حملہ آور ہوئیں جو گزشتہ تین عشروں سے جنگ زدہ تھا۔ امریکی فوج انسانی تاریخ کی سب سے بڑی جنگی مشین ہے۔ ان کو ٹیکنالوجی کی وہ طاقت حاصل تھی جس کے تحت کرۂ زمین کا ذرّہ ذرّہ ان کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں، اس کے باوجود یہ جنگ امریکی تاریخ کی مہنگی ترین اور طویل ترین جنگ بن گئی۔ مقابلے پر کوئی باضابطہ فوج بھی نہیں تھی، بلکہ وسائل سے محروم پسماندہ افغان تھے جن کا پوری دنیا تمسخر اڑاتی تھی۔ امریکہ کو افغانستان کے تمام پڑوسی ممالک کی کمک حاصل تھی، اس کے باوجود دنیا کی سب سے بڑی جنگی مشین اپنی فتح کا جھنڈا نہیں گاڑ سکی۔ یہی افغانستان تھا جہاں دنیا کی دوسری سپر پاور کمیونسٹ روس ناکام ہوچکا تھا۔ وہ روس جس کا آدھی دنیا پر قبضہ تھا، افغانستان سے پسپائی کی وجہ سے نہ صرف آدھی دنیا پر تسلط سے محروم ہوا بلکہ سوویت یونین بھی منہدم ہوگیا۔ اس واقعے کو امریکہ اور مغرب نے سرمایہ دارانہ نظام اور مغربی تہذیب کی فتح قرار دیا۔ پوری دنیا یک قطبی سامراجیت میں بدل گئی۔ امریکی تکبر نے پوری دنیا کو فساد اور خون ریزی سے بھر دیا۔ وار آن ٹیرر کے نام پر عالم اسلام، اسلام اور امتِ مسلمہ کے خلاف نئی جنگ چھیڑدی گئی۔ جبر و استبداد، ظلم و استحصال اور انسانیت کُشی کی وہ مثالیں قائم کی گئیں کہ چنگیز و ہلاکو اور ہٹلر و مسولینی کی روحیں بھی شرمندہ ہوجائیں۔ لیکن اپنی تاریخ کو دہراتے ہوئے افغانستان کے فقیروں نے عالمی سامراجیت سے پوری دنیائے انسانیت کو آزاد کرانے کے لیے بھی اپنا فرض ادا کیا۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر امریکہ کا بیٹھ جانا امریکہ کی شکست کی علامت ہے۔ اب تک امن کے نام پر امریکہ سب کو مذاکرات کا حکم دیتا تھا، وہ یہ چاہتا تھا کہ پاکستان آزادی کی جنگ لڑنے والے مجاہدین کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردے۔ لیکن مجاہدینِ افغانستان کی استقامت نے افغانستان کو سوویت روس کے بعد امریکی فوجوں کا قبرستان بھی بنا دیا ہے۔ افغانستان نے عالمی منظرنامے کو تبدیل کردیا ہے۔ اسی طرح کابل میں چین، پاکستان اور افغانستان کے درمیان سہ فریقی مذاکرات ہوئے ہیں جس میں خطے میں قیام امن کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا گیا۔ اس منظرنامے کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ نے ’’وار آن ٹیرر‘‘ کے نام پر جو عالمی جنگ چھیڑی ہوئی ہے اس کی بنیاد اسی طرح جھوٹ پر رکھی گئی ہے، جس طرح وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی عراق میں موجودگی ایک جھوٹ تھا، جس کا اعتراف کرلیا گیا۔ اسی طرح امریکہ نے الزام عاید کیا تھا کہ نیویارک کے ٹوئن ٹاور پر جہازوں کے حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی، اس الزام کے آج تک کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے، صرف یہ کیا گیا کہ اسامہ بن لادن جو القاعدہ کا سربراہ ہے جس نے امریکہ پر دہشت گردانہ حملہ کیا ہے وہ افغانستان میں پناہ گزین ہے۔ امارتِ اسلامیہ افغانستان کے امیر ملّا عمر نے شواہد کے بغیر اس الزام کو تسلیم نہیں کیا اور محض ایک سپرپاور کے احکامات ماننے سے انکار کردیا، اور اپنی حکومت کی قربانی دے کر نئی تاریخ رقم کردی۔ امریکہ نے اپنے دعوے کے مطابق پاکستان میں چھپے ہوئے اسامہ بن لادن کو موت کے گھاٹ اتار دیا، ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موت کی بھی کوئی شہادت نہیں دی گئی۔ اس طرح اسامہ کی موت کے اعلان کے بعد ’’وار آن ٹیرر‘‘ ختم ہوجانی چاہیے تھی کہ بقول امریکہ نائن الیون کے ذمے دار کو انجام تک پہنچا دیا گیا، لیکن چونکہ یہ جنگ ایک جھوٹ کی بنیاد پر تھی اس لیے آج تک جاری ہے، لیکن اس جنگ نے ’’یونی پولر ورلڈ‘‘ کو ’’ملٹی پولر ورلڈ‘‘ میں تبدیل کردیا ہے۔ دنیا میں نئی سرد جنگ شروع ہوگئی ہے۔ بدلتا عالمی منظرنامہ افغانستان میں امریکی فوج کی شکست سے ابھرا ہے۔ اس تبدیل شدہ منظرنامے میں پاکستان کے لیے نئی مشکلات پیدا ہوں گی، اس لیے کہ پاکستان میں مغرب زدہ غلاموں کی قیادت ہے۔ یہ وہ حکمران طبقہ ہے جو دشمن کے آگے ہتھیار ڈالتا ہے اور اپنی قوم کو فتح کرتا ہے۔ پاکستان کے داخلی سیاسی عدم استحکام اور اقتصادی بحران کے خارجی اسباب ہیں۔ غلامانہ ذہنیت رکھنے والی دولت و طاقت پرست بدعنوان اشرافیہ جو پاکستان پر حکمران ہے، اپنے ضمیر فروخت کرنے پر تیار ہے۔