نام کتاب: استقرائی استدلال اورفکرِاقبال
(Inductive Reasoning
and Iqbal’s Thought)
مصنف : خالد الماس
صفحات: 444قیمت 600روپے،ۨ15امریکی ڈالر
ناشر: محمد بخش سانگی، ناظم اقبال اکادمی پاکستان
چھٹی منزل،ایوانِ اقبال،لاہور
ٹیلی فون: 36314510-42-92
فیکس: 92-42-36314496
ای میل: info@iap.gov.pk
ویب گاہ: www.allamaiqbal.com
جس کثرت سے کلام ِاقبال اور فکرِ اقبال پر لکھا گیا ہے وہ عدیم المثال ہے۔ اس کی وجہ کلامِ اقبال و فکرِ اقبال میں ٹھاٹھیں مارتا جہانِ نو ہے۔ اس کے متعلق آغا شورش کاشمیری تحریر فرماتے ہیں:
’’پروفیسر رشید احمد صدیقی نے علامہ اقبال کے متعلق لکھا ہے کہ ان کے کلام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہر شعر جتنی دفعہ پڑھیں کوئی نہ کوئی نیا نکتہ سامنے آ تا ہے۔ ایک نئی تازگی کے ساتھ ایک نیا معنی ابھرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ گویا تخیل کا ایک ناپیدا کنار سمندر ٹھاٹھیں ماررہا ہے… باَلفاظِ دیگر ایک اچھا شعر کھلا ہوا پھول اور کھلا ہوا نافہ ہے۔
نثر میں بھی علامہ اقبال نے جو کہا خواہ مدراس کے خطبات ہوں، خواہ سیاسی خطبات، خواہ خطوط ہوں، خواہ عمومی بیانات… جو نکتہ بھی قلم سے اَدا ہوگیا انگوٹھی میں نگینہ ہے۔ قوس قزح کی طرح مربوط۔ خالی خولی انشاء پردازی نہیں، تصنع نہیں، مینا کاری نہیں۔ الفاظ اتنے سادہ کہ لغت کے سنگھار سے بے نیاز، معانی اتنے گہرے کہ ہر تہ میں موتی چھپا ہواہے۔‘‘
زیرنظر کتاب فکرِ اقبال کا برنگِ دیگر مطالعہ ہے۔ فلسفیانہ زاویے سے فکرِ اقبال کی معنویت کو اُجاگر کرنے میں مصنف نے پوری کوشش کی ہے۔ا ستقرائی استدلال کی وضاحت کرتے ہوئے وہ تحریر فرماتے ہیں:
’’استقرائی استدلال درحقیقت ایسا ذہنی عمل ہے جس میں معلوم سے نامعلوم حقائق کا کھوج لگایا جاتا ہے اور جس کے باعث طبیعی سے مابعدالطبیعی علائق کی کڑیاں باہم دگر پیوست ہوجاتی ہیں۔ فکرِ اقبال میں یہی استدلال مضمر ہے جسے بروئے کار لاتے ہوئے اس نے مسلمانوں کو جھنجھوڑا کہ عہدِ جدید کے مسلمانوں کو مغربی دانش کی مادی ترقی اور مشرقی حکمت کی روحانی آسودگی، دونوں کے تجربات سے بیک وقت فیض یاب ہونے کی ضرورت ہے تاکہ عظمتِ اسلام کا یہ احساس جاگزیں ہوکہ انسان کو اپنے مادّی اور روحانی وسائل کے سہارے اپنے شعورِ حیات کی تکمیل خود کرنا ہے۔ ختم نبوت کے بعد انسان کی فکر و بصیرت اس نہج کو پہنچ چکی ہے جہاں وہ اپنی عقلِ خداداد اور میزانِ شرع کی مدد سے ان اُمور کو جان سکے جن کی رہنمائی کی خاطر کبھی پیغمبر مبعوث ہوا کرتے تھے۔ اقبال کے نزدیک یہ خوبی صرف استقرائی استدلال کو حاصل ہے جس کی بدولت انسان اپنے داخلی محسوسات اور خارجی تحسسات کی مدد سے ایسے تعمیمات اور تعصلات وضع کرتا ہے جن سے چھپی ہوئی صداقتوں کو دریافت کرنا چنداں مشکل نہیں رہتا۔ اس اعتبار سے اقبال کے خیال میں اسلام کا ظہور دراصل استقرائی عقل کا ظہور ہے۔‘‘
جناب خالد الماس کتاب کے پیش لفظ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’استقرائی استدلال، انسان کے ذہن کا فطری عمل ہے جس میں وہ اپنے خارجی تجربات اور باطنی واردات کے زور پر معاملاتِ زندگی کو بہتر طریقے سے نپٹانے کے لیے پختہ خیالات و نظریات کی تشکیل کرتا ہے۔ یونانی دور کی روایت ہے کہ رواقیوں (Stoics) کے زمانے میں یونان کا بادشاہ بطلیموس (Ptolemy)، افلاطون (Plato)کے مابعدالطبیعی افکار سے متاثر تھا جو عالمِ رنگ و بو کو حواس و ادراکات کا دلنشین فریب خیال کرتا تھا۔ اسے معلوم ہوا کہ حکیم زینو، رواقی (Zeno,the Stoic) کا شاگرد، سفائرس(Sphaerus) حواس و ادراکات کو واہمہ نہیں سمجھتا۔ وہ حسی التباسات کو اندازوں کی محض ایسی بھول چوک خیال کرتا ہے جن سے بچا جاسکتا ہے بشرطیکہ ذرا سی احتیاط سے کام لیا جائے۔ بادشاہ نے اس کے خیال کو آزمانے کی خاطر اسے شاہی عشائیہ میں مدعو کیا۔ وہاں اسے موم کا بنا ہوا ایک ایسا انار کھانے کے لیے پیش کیا جس کی نقل پر اصل کا گمان گزرتا تھا۔ طعام کے دوران جونہی سفائرس نے اس انار کی طرف ہاتھ بڑھایا، بادشاہ بہت ہنسا اور اس کا خوب مذاق اڑایا۔ اس صورت حال میں سفائرس نے اپنی صفائی میں فی البدیہہ کہا: میں نے انار کی طرف اس لیے ہاتھ نہیں بڑھایا کہ مجھے وہ سچ مچ کا حقیقی انار لگا، میں نے اسے اس لیے کھانا چاہا کہ شاہی دستر خوان میں عام طور پریسی شے کھانے کے لیے پیش نہیں کی جاتی جو اصلی نہ ہو۔ یہاں سفائرس کے خیال میں استقرائی استدلال کی کارگزاری ملتی ہے، کیونکہ تجربہ بتاتا ہے کہ شاہی دسترخوان میں زیادہ امکان اس امرکا ہوتا ہے کہ پیش کردہ اشیاء کھانے کے لائق ہوں گی۔ لہٰذا انسان کو دھوکا اس کے حواس نہیں، تجربات دیتے ہیں، اور تلخ تجربوں ہی سے تازہ تجربوں کی مزید راہیں کھلتی ہیں، خواہ وہ تجربے کتنے ہی معمولی کیوں نہ ہوں، اپنی علمی اور عملی حیثیت میں بہت دوررس نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔
ویسے بھی سنجیدہ فکر کبھی بے سروپا نہیں ہوتی۔ اس کے پیچھے کہیں نہ کہیں استقرائی استدلال ضرور کارفرما ہوتا ہے جو درحقیقت ایسا ذہنی عمل ہے جس میں معلوم سے نامعلوم حقائق کا کھوج لگایا جاتا ہے، اور جس کے باعث طبیعی سے مابعدالطبیعی علائق کی کڑیاں باہم دگر پیوستہ ہوجاتی ہیں۔ اسی کے بل بوتے پر انسانی فکر کو وہ رِفعت نصیب ہوجاتی ہے جہاں الوہیت سے مستفاد کرنیں اِنسانیت سے چھوکر گزرتی ہیں۔ فکرِاقبال میں یہی استدلال مستور ہے جسے بروئے کار لاتے ہوئے اس نے مسلمانوں کو جھنجھوڑا کہ عہدِ جدید کے مسلمانوں کو مغربی دانش کی مادی ترقی اور مشرقی حکمت کی روحانی آسودگی، دونوںکے تجربات سے بیک وقت فیض یاب ہونے کی ضرورت ہے، تاکہ عظمت ِاسلام کا یہ احساس جاگزیں ہو کہ انسان کو اپنے مادی اور روحانی وسائل کے سہارے اپنے شعورِ ِحیات کی تکمیل خودکرنا ہے۔ ختمِ نبوتؐ کے بعد انسان کی فکرو بصیرت اس نہج کو پہنچ چکی ہے جہاں وہ اپنی جستجو اور لگن سے ان حقیقتوں کو جان سکے جن کی رہنمائی کی خاطرکبھی پیغمبر مبعوث ہوا کرتے تھے۔ اقبال کے نزدیک یہ خوبی صرف استقرائی استدلال کو حاصل ہے، جس کی بدولت انسان اپنے داخلی محسوسات اور خارجی تحسسات کی مدد سے ایسے تعمیمات اور تعقلات وضع کرتا ہے جن سے چھپی ہوئی صداقتوں کو دریافت کرنے اور ماننے کی مشکلات چنداں مشکل نہیں رہتیں،گو ایسا کرنا آسان نہیں، مگر حضرتِ انسان کا امتیاز ہی یہ ہے کہ جو آ سان نہیں، اسے آسان بنا ڈالے۔ اس اعتبار سے اقبال کے خیال میں اسلام کا ظہور دراصل استقرائی عقل کا ظہور ہے۔ فکر ِانسانی کے تاریخی شواہد کو پیش ِنظر رکھا جائے تو ایک سوالیہ نشان چسپاں ہوتا ہے کہ کس زمانے سے انسان نے صحیح معنی میں استقرائی استدلال کے مصرف کا گر سیکھا؟ اس کی وجہ سے ایک طرف غیر مسلم تو مادی و طبیعی ترقی کی دوڑ میں بتدریج اتنا آگے نکل گئے کہ روحانی و مابعدالطبیعی حقائق کو بہت پیچھے چھوڑ گئے، جب کہ دوسری طرف مسلم، جو مادی اور روحانی، طبیعی اورمابعدالطبیعی حقائق و علائق میں تمیز اور توازن قائم کرنے کا قرینہ جانتے تھے، ہر دو اعتبار سے فکری افلاس اور تنزل سے دوچار ہوئے اور استقرائی استدلال کی اُس صراطِ مستقیم ہی سے بھٹک گئے جو کبھی ان کا سرمایۂ افتخار تھا۔ آ خر کیوں؟ یہ وہ سوال ہے جوفکر ِاقبال کے شناور کو پریشان کرتا ہے، یعنی اسلام کا ظہور اگر فی الواقع استقراء کا ظہور ہے تو پھر مسلم اُمہ ہی بالخصوص فکری پسماندگی اور ذہنی پستی کا شکار کیوں ہے؟
اس سوال کا جواب معلوم کرنے کی خاطر اس مقالے کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے باب میں استقرائی استدلال کے بارے میں اہم معلومات بیان کی گئی ہیں اور اس سے متعلق فکرِاقبال کے حوالے سے چند ضروری وضاحتیں پیش کی گئی ہیں۔ دوسرے باب میں چینی، ہندوستانی اوربالخصوص یونانی ادوار کے کلاسیکی استدلال کا تاریخی جائزہ پیش کیاگیا ہے، اور آخر میں صرف یونانی استدلال کا اقبال کی انفرادی اور عمومی فکر کے ہر دو زاویوںسے تجزیہ کیا گیا ہے۔ تیسرے باب میں مسلمانوں کے استدلال کا علم الکلام، حکمت وفلسفہ اور تصوف کی روسے تاریخی جائزہ لیا گیا ہے، اور آخر میں ان تینوں مکاتب کے بارے میں بالترتیب اور علیحدہ علیحدہ اقبال کا فکری تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ چوتھے باب میں یونانیوں، مسلمانوں اور یورپین کے سائنسی استدلال کا تاریخی جائزہ بیان کیا گیا، اور آ خر میں ان سبھی کے استدلال کے بارے میں ترتیب وار اور الگ الگ اقبال کا فکری تجزیہ پیش کیاگیا ہے۔ آخری باب میں گزشتہ ابواب کی تلخیص اور ان سے اخذ کردہ ماحصل کو پیش کیا گیا، تاکہ استقرائی استدلال کے متعلق فکر ِاقبال کی گیرائی اورگہرائی سے شناسائی ہوسکے۔‘‘
’’آخر میں یہ اعتراف نہ کرنا بے انصافی ہوگی کہ صدر شعبۂ اقبالیات، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد، پروفیسر ڈاکٹر رحیم بخش شاہین (مرحوم) نے اقبالیات کی تحقیق کے میدان میں جو اُڑان بھرنا سکھایا تھا، یہ اس سلسلے کی ایک اور کاوش ہے۔ یہ ایم فل اقبالیات کی اُن تدریسی مشقوں کا فیضان ہے جو انہوں نے بڑی عمیق نظر سے دیکھیں اورجانچیں۔ اللہ تعالیٰ انہیںجوارِ ِرحمت میں جگہ عطافرمائے۔آمین ‘‘
کتاب مجلّد ہے۔ سفید کاغذ پر عمدہ طبع ہوئی ہے۔ سادہ سرورق سے مزین ہے۔ یہ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ہے جو 2018ء میں شائع کیا گیا ہے۔ طبع اوّل 2007ء میں منصہ شہود پر آئی تھی۔
طاہر مسعود کی مرتبہ کتاب”الطاف صحافت“کی اشاعت
استاد صحافت اور شعبۂ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی کے سابق سربراہ ڈاکٹر طاہر مسعود کی مرتب کردہ کتاب ”الطاف صحافت“شائع ہوگئی ہے۔ الطاف حسن قریشی کو رجحان ساز ایڈیٹر کہا جاتا ہے۔ ان کا جاری کردہ ماہنامہ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ تاریخ پاکستان کا رجحان ساز جریدہ ہے۔ آج پاکستان کی چوتھی نسل اس جریدے کو پڑھ رہی ہے۔ صاحب طرزنثر نگار،بلند پایہ ادیب وشاعر،اعلیٰ پائے کے صحافی ان کے جریدے کے قاری اور لکھاری رہے ہیں۔ الطاف حسن قریشی پاکستان کی صحافتی وسیاسی تاریخ کا ایک اہم حوالہ ہیں۔ الطاف حسن قریشی پر طاہر مسعود نے کتاب مرتب کرکے شائع کی ہے۔ طاہر مسعود اپنی بلند پایہ تصانیف کی بدولت تاریخ صحافت پر ایک سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ کتاب کراچی کے وسیع اشاعتی ادارے’’قرطاس‘‘کے سلسلہ مطبوعات کے تحت شائع کی گئی ہے۔ قیمت 1600/=روپے رابطے کا پتا:قرطاس،فلیٹ نمبر A-15گلشن امین ٹاور،گلستان جوہر ،بلاک 15کراچی۔ فون نمبر 0321-3899909ای میلsaudzaheer@gmailویب گاہ www.qirtas.co.nr