ورزش کے فائدے ہر کوئی جانتا ہے لیکن ورزش کے بارے میں ایک خبر یہ آئی ہے کہ صرف ایک دفعہ کی ورزش بھی اگلے چند روز تک جسم پر مثبت اثرات مرتب کرتی رہتی ہے۔ نئی تحقیق کے مطابق ایک دن کی ورزش سے اگلے دو دن تک خون میں گلوکوز کی سطح برقرار رہتی ہے، جسم میں میٹابولزم (استحالے) کا عمل اچھا ہوتا ہے اور دماغی سرکٹ سرگرم رہتا ہے۔ اگر ورزش کرنے والے ذیابیطس کے مریض ہیں تو ایک مرتبہ ورزش بھی ان پر اچھے اثرات مرتب کرتی ہے۔ ڈیلاس میں واقع ٹیکساس ساؤتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے اعصابی ماہر ڈاکٹر کیون ولیمز نے اس کے لیے چوہوں پر تحقیق کی ہے اور ایک مرتبہ کی ورزش سے ان کے دماغ میں دو اقسام کے نیورونز کا جائزہ لیا ہے۔ اگرچہ ماہرین اس سے قبل فاقے اور ڈائٹنگ کے دماغ پر اثرات نوٹ کرتے رہے ہیں لیکن جسمانی ورزش کے نیورون پر اثر کا مطالعہ پہلی مرتبہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے چوہوں کو ایک ہی روز تین مرتبہ مسلسل 20 منٹ تک دوڑایا۔ اس کے بعد معلوم ہوا کہ اس سے بھوک بڑھانے والے نیورون کم ہوئے اور اس کا اثر دو روز تک برقرار رہا۔ اسی طرح نوٹ کیا گیا کہ اگر زیادہ دیر ورزش کی جائے تو اس کے اثرات اتنے ہی روز تک جاری رہتے ہیں۔ دوسری جانب چوہوں کی بھوک میں کمی ہوئی اور ان کے خون میں شکر کی مقدار بھی کم دیکھی گئی۔ یہ حیرت انگیز اثرات دو دن تک برقرار رہے جو ورزش کرنے والوں کے لیے ایک اچھی خبر ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری پرانی معلومات کے مقابلے میں ورزش انسانی دماغ پر قدرے زیادہ مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ اسی لیے ذیابیطس کے مریضوں کے لیے ورزش کئی روز تک مفید ثابت ہوسکتی ہے اور اس کے بہتر طبی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ اسی لیے سائنس دان ورزش کو صحت کے لیے عمدہ ترین عمل قرار دیتے ہیں۔
عالمی موسمیاتی کانفرنس میں اہم ترین رپورٹ کی شمولیت روک دی گئی
گزشتہ ایک ہفتے سے زائد جاری رہنے والی آب و ہوا (کلائمٹ چینج) میں تبدیلی پر ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں اس وقت عجیب و غریب موڑ دیکھا گیا جب چند بااثر ممالک نے اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے کی ایک اہم رپورٹ کو کانفرنس کا حصہ بننے سے روک دیا۔ موسمیاتی ماہرین، سائنس دان اور دیگر تنظیموں سے وابستہ افراد اُس وقت شدید حیرانی اور صدمے سے دوچار ہوئے جب پولینڈ کے شہرکیتو ویتسے میں منعقدہ اس سیارے کی بقا کے لیے منعقدہ سب سے اہم ’’کانفرنس آف پارٹیز 24‘‘ یا سی او پی 24 میں امریکہ، روس، سعودی عرب اور کویت نے سال 2015ء میں تیار کی جانے والی اس رپورٹ کو کانفرنس کا حصہ بنانے سے انکار کردیا اور بعض ممالک نے اس کے متن کو تبدیل کرنے پر بھی زور دیا۔ یہ رپورٹ اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے ’’بین الحکومتی پینل برائے آب و ہوا میں تبدیلی‘‘ یعنی IPCC سے وابستہ سینکڑوں اداروں کے ہزاروں ماہرین نے دن رات کی محنت سے تیار کی تھی۔ اس رپورٹ میں یہ کہا گیا تھا کہ گرین ہاؤس گیسوں کا اندھا دھند اخراج سیارہ زمین میں گرمی کی وجہ بن رہا ہے، اور اگر عالمی اوسط درجہ حرارت 1.5 درجے سینٹی گریڈ بھی بڑھ جاتا ہے تو اس کرۂ ارض کے کم و بیش ہر نظام پر سنگین منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن پھر بھی اس صدی کے اختتام تک ڈیڑھ درجے سینٹی گریڈ میں اضافے پر ہی روک لگانے پر زور دیا گیا تھا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ دنیا اپنی ڈگر سے ہٹ چکی ہے اور اس صدی کے اختتام تک ڈیڑھ سینٹی گریڈ کے بجائے ہم تین درجے سینٹی گریڈ اضافے کی جانب بڑھ رہے ہیں، اور اگر اسے نہ روکا گیا تو انسانی تہذیب کے ہر شعبے پر اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ اس رپورٹ میں تجویز دی گئی تھی کہ اس صدی تک عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو اگر ڈیڑھ سینٹی گریڈ تک ہی رکھنا ہے تو 2030ء تک کاربن ڈائی آکسائیڈ کے عالمی اخراج میں 45 فیصد تک کمی کرنا ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ اس رپورٹ کی مخالفت اُن ممالک نے کی ہے جو خود ان گیسوں کے اخراج کے بڑے ذمے دار ہیں۔ بااثر ممالک کے اس رویّے سے ماہرین بہت مایوس ہوئے ہیں کیونکہ اسی رپورٹ کی بنا پر کانفرنس کے اختتام پر قابلِ حصول اہداف کا تعین ہوگا اور ہر ملک اپنی اپنی ذمے داریوں کا اعلان بھی کرے گا۔ لیکن اس واقعے کے بعد یہ کانفرنس کسی نتیجے کے بغیر ناکام ہوتی نظر آرہی ہے۔ سعودی عرب نے رپورٹ کے متن پر اعتراض کیا تو دیگر ممالک اور مندوبین نے اسے قابلِِ قبول جملوں کا مشورہ بھی دیا ہے۔ تاہم اس ضمن میں مزید مشاورت اور گفت و شنید جاری ہے۔ تاہم بعض ماہرین نے اس کیفیت کو ممکنہ تاریخی ناکامی سے بھی تعبیرکیا ہے۔
فیس بک کا ایک اور پرائیویسی اسکینڈل
فیس بُک کی جانب سے ایک بلاگ پوسٹ میں ایک بار پھر لاکھوں صارفین کی پرائیویسی متاثر ہونے کا اعتراف کیا گیا جس کی وجہ فوٹو سافٹ وئیر میں ایک بَگ کی موجودگی بنی۔ فیس بُک کے مطابق اس بَگ کی وجہ سے ڈیڑھ ہزار سے زائد تھرڈ پارٹی ایپس کو ان تصاویر تک رسائی مل گئی جو لوگوں نے فیس بُک پر اَپ لوڈ تو کیں مگر انہیں پبلک نہیں کیا، جبکہ فیس بُک اسٹوریز اور مارکیٹ پلیس میں شائع تصاویر بھی ان ایپس ڈویلپرز تک پہنچ گئیں۔ فیس بُک کے مطابق اس بَگ کی وجہ سے ایسی تصاویر تک بھی ان ایپس کو رسائی مل گئی جو کسی نے اَپ لوڈ تو کیں مگر شیئر نہیں کیں۔ فیس بُک کے بیان میں بتایا گیا کہ ’’مثال کے طور پر کسی نے فیس بُک پر فوٹو اپ لوڈ کی مگر اسے پوسٹ نہیں کیا، اب اس کی وجہ جو بھی ہو مگر اس فوٹو کی ایک نقل ہمارے پاس اسٹور ہوجاتی ہے‘‘۔ اس بَگ کے نتیجے میں 68 لاکھ افراد متاثر ہوئے جنھوں نے ان ڈیڑھ ہزار ایپس کو فوٹوز اے پی آئی تک رسائی کی اجازت دے رکھی تھی۔ فیس بُک کا کہنا ہے کہ نئے بَگ سے جو صارف متاثر ہوا ہوگا، اسے کمپنی کی جانب سے الرٹ کیا جائے گا۔