امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے ’’میٹ دی پریس‘‘ کے موقع پر لاہور پریس کلب کے لیے 20 عدد کمپیوٹرز پر مشتمل ’’کمپیوٹر لیب‘‘ کا تحفہ دیا اور ساتھ ہی وضاحت کی کہ جماعت میں کوئی سرمایہ دار اور جاگیردار شامل نہیں، یہ عام لوگوں کی جماعت ہے اور اس کا بیت المال کارکنوں کے عطیات سے چلتا ہے…!!!میٹ دی پریس کے اختتام پر سیکریٹری عبدالمجید ساجد نے کلب کی مجلسِ عاملہ کی جانب سے سینیٹر سراج الحق کو لاہور پریس کلب کی اعزازی رکنیت کی دستاویز پیش کی جسے انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کرلیا…!!!
سانحہ مشرقِ پاکستان پر ایک سابق فوجی کی کتاب
کرنل (ر) زید آئی فرخ جسے سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے اپنی تجزیاتی خودنوشت قرار دیتے ہیں… ’’بچھڑ گئے‘‘ کسی رومانوی ناول یا افسانوں کے مجموعے کا نام لگتا ہے، لیکن کرنل فرخ نے یہ نام اس لیے رکھا کہ ’’بچھڑنے‘‘ کا عمل کسی باقاعدہ ارادے یا منصوبے کا نتیجہ نہیں بلکہ ’’حادثاتی‘‘ ہوتا ہے، اور جدائی کے اس عمل میں دوبارہ ملاپ کا امکان بھی موجود رہتا ہے۔
نوجوان فرخ 30 ستمبر 1970ء کو ڈھاکہ اترا۔ وطنِ عزیز کے پہلے عام انتخابات سے 9 ہفتے قبل… تب وہ کپتان تھا۔ اس نے مشرقی پاکستان میں انتخابی مہم کے طور اطوار اپنی آنکھوں سے دیکھے، پھر 7 دسمبر کے انتخابات کے بعد پیدا ہونے والا سیاسی بحران، اس دوران جنم لینے والی پسِ پردہ کہانیاں، کچھ کھلے، کچھ چھپے واقعات۔ انٹیلی جنس رپورٹوں کا مطالعہ بھی اس کی ڈیوٹی کا اہم حصہ تھا… بھارت کی عریاں جارحیت، 16 دسمبر1971ء کا سانحہ، اور اس کے بعد مارچ 1975ء تک دشمن کی قید میں بیتے ماہ وسال کی روداد۔
کرنل فرخ کے بقول: الیکشن جیتنے کے بعد بنگالیوں کو یقین تھا کہ اب حکمرانی انہی کی ہوگی، مگر انہیں بہت بڑا خدشہ تھا کہ مغربی پاکستان کے سیاست دان اور فوج، اتنی آسانی سے حکمرانی ان کے حوالے نہیں کریں گے… اور پھر وہ واقعہ جب شاہ ایران کٹھمنڈو جاتے ہوئے ڈھاکہ ایئرپورٹ پر رکے۔ جنرل یحییٰ بھی وہیں تھے۔ انہوں نے ائرپورٹ پر مجیب الرحمن کا تعارف ’’پاکستان کا مستقبل کا وزیراعظم‘‘ کہہ کر کروایا۔ یہ بات بنگالیوں کے لیے امید اور اطمینان کا باعث تھی، لیکن ڈھاکہ سے واپسی پر جنرل یحییٰ، بھٹو کے پاس لاڑکانہ پہنچ گئے تو افواہوں کا ایک طوفان امڈ آیا کہ آرمی اور مغربی پاکستان کے سیاست دان اقتدار کبھی بنگالیوں کو نہیں دیں گے۔ اس دوران مجیب الرحمن اپنی طاقت مجتمع کرتے رہے، اسٹوڈنٹس جس کا ہراول دستہ تھے۔ ان کے نزدیک بھٹو ہی سازش کررہا تھا۔ 30 جنوری کو دوکشمیری نوجوانوں اشرف اور ہاشم قریشی کے ہاتھوں سری نگر سے پرواز کرنے والے ہندوستان کے فوکر طیارے کے اغوا، لاہور ائرپورٹ پر بھٹو صاحب کی ہائی جیکروں سے ملاقات اور طیارے کو نذرِ آتش کردینے کا واقعہ رونما ہوا، جس کے بعد ہندوستان نے پاکستانی طیاروں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کردیں اور مشرقی و مغربی پاکستان کے درمیان دو گھنٹے کی پرواز اور ایک ہزار میل کا فاصلہ، سری لنکا کے راستے ساڑھے پانچ گھنٹے کی پرواز اور پانچ ہزار میل کے فاصلے میں تبدیل ہوگیا۔ کرنل فرخ کے بقول یہ انڈین سازش تھی جس کا بروقت کوئی اندازہ نہ کرسکا (بعد کی تحقیقات سے بھی انڈین سازش کی تصدیق ہوئی۔ ہمارے مجاہدِ اوّل سردار عبدالقیوم خان اور شیخ مجیب الرحمن نے بھی اسے سازش ہی قرار دیا تھا جس کا مقصد پاکستان میں انتخابات کے بعد آئین سازی اور انتقالِ اقتدار کے عمل سے توجہ ہٹانا تھا)۔
فروری1971ء میں بقرعید کے بعد مجیب، بھٹو اور یحییٰ، تینوں کی طرف سے یہی خبر آرہی تھی کہ وہ صورتِ حال کا سیاسی حل چاہتے ہیں۔ یحییٰ نے ’’اپنے رفقائے کار‘‘ اور بھٹو سے مشورے کیے اور ’’حالات بگڑنے کی صورت‘‘ میں آرمی ایکشن کا پلان بھی فائنل کرلیا۔ 13 فروری کو صدر یحییٰ کی طرف سے 3 مارچ کو ڈھاکا میں آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس کے اعلان (مگر اس کے ساتھ اپنی جنگی فورس کی تیاری میں کوئی کمی نہ آنے دی) اور بھٹو کی طرف سے اجلاس کے بائیکاٹ اور ڈھاکہ جانے والوں کی ٹانگیں توڑ دینے کے اعلان کے بعد دونوں بازوئوں کے درمیان کشیدگی بہت بڑھ گئی تھی۔ ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ جنرل یعقوب علی خاں نے جنرل یحییٰ کو ڈھاکہ آنے کے لیے لکھا۔ وہ تو نہ آئے البتہ سول کپڑوں میں فوجیوں کے جہاز بھر بھر کے ڈھاکا آنا شروع ہوگئے۔ مجیب نے اس پر شدید احتجاج کے ساتھ ائرپورٹ کے عملے کو حکم دیا کہ وہ ان جہازوں کو ’’ان لوڈ‘‘ کرنے میں تعاون نہ کریں۔
صدر یحییٰ نے22 فروری1971ء کو راولپنڈی میں صوبائی گورنروں اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹروں کی کانفرنس کی، جس پر شیخ مجیب نے بیان دیا کہ ایک طرف راولپنڈی میں ہماری قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے اجلاس ہورہے ہیں اور دوسری طرف دھڑادھڑ فوج ڈھاکہ میں اتاری جا رہی ہے۔ 27 فروری کی رات مجیب نے اپنے قریبی سیاست دانوں اور اسٹوڈنٹس لیڈروں سے میٹنگ کی اور بتایا کہ یحییٰ نے بھٹو کے دبائو پر 3 مارچ کا اجلاس ملتوی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ جس پر سیاست دانوں کی رائے تھی کہ اگر اجلاس ہفتہ دس دن کے لیے ملتوی ہوتا ہے تو ہم ’’پُرامن‘‘ احتجاج کریں گے، اور اگر تاریخ لمبی دی جاتی ہے تو اس کا مطلب ہمیں ہمارے آئینی حق سے محروم کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوگا، جس پر ہم راست اقدام (ڈائریکٹ ایکشن) پر مجبور ہوں گے۔ اگلے روز گورنر مشرقی پاکستان ایڈمرل ایس ایم احسن سے ملاقات میں شیخ مجیب کا کہنا تھا کہ اجلاس ملتوی کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا گیا ہے تو اس کے ساتھ نئی تاریخ کا اعلان بھی کردیا جائے، بصورتِ دیگر حالات ان (شیخ مجیب)کے قابو میں نہیں رہیں گے۔ لیکن اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا۔ ’’حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے‘‘ مغربی پاکستان سے دھڑادھڑ فوجی دستے ڈھاکہ پہنچ رہے تھے۔ 7 مارچ کے یوم احتجاج پر چند سرکاری عمارتوں کے سوا ہر جگہ بنگلہ دیش کا پرچم لہرا رہا تھا۔ دس، پندرہ لاکھ پُرجوش انسانوں سے خطاب میں مجیب فوری طور پر مارشل لا اٹھانے، فوج کو واپس بیرکوں میں بھیجنے، اقتدار منتخب نمائندوں کو منتقل کرنے اور اس ہفتے کے دوران ہونے والے قتل و غارت کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کررہا تھا (یہاں کرنل فرخ یہ لکھنا بھول گئے کہ سنگین ترین دبائو کے بدترین ماحول میں بھی شیخ مجیب نے اپنی تقریر کا اختتام جَے بنگلہ کے بعد ’’جَے پاکستان‘‘ کے نعرے پر کیا تھا)۔ اس سے ایک رات قبل گورنر مشرقی پاکستان ایڈمرل ایس ایم احسن کو معزول کرکے مغربی پاکستان بلا لیا گیا۔ اس پر جنرل یعقوب علی خان، ایسٹرن کمانڈ سے احتجاجاً مستعفی ہوگئے (کہ یہ دونوں فوجی ایکشن کے بجائے مسئلے کے سیاسی حل پر زور دے رہے تھے)۔ جنرل ٹکا خان نئے گورنر کے طور پر ڈھاکہ اترے، لیکن ڈھاکہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اُن سے حلف لینے سے انکار کردیا۔ (گزشتہ دنوں شامی صاحب کے ’’نقطہ نظر‘‘ میں، جیل میں شیخ مجیب کے گارڈ کے فرائض انجام دینے والے جمیل غوری بتا رہے تھے کہ ایک روز زیر حراست شیخ مجیب نے کہا: مجھے معلوم تھا کہ آپریشن کے لیے فوج ڈھاکہ پہنچ رہی ہے، ہر آنے والے دن اس کی تعداد میں اضافہ اور ہمارے لیے مشکلات بڑھتی جائیں گی۔ اس کے باوجود میں نے 7 مارچ کو آزادی کا اعلان نہیں کیا اور مسئلے کے سیاسی حل پر اصرار کرتا رہا) 21 مارچ کو (بعد از خرابیِ بسیار) بھٹو اپنے رفقا کے ہمراہ ڈھاکہ پہنچے۔ بنگالیوں کے شدید نفرت انگیز جذبات کے باعث بھٹو (اور ان کے رفقا) کے تحفظ کی ذمہ داری فوج نے اپنے پاس رکھی اور اسے بھی بنگالیوں نے بھٹو، آرمی گٹھ جوڑ کے طور پر دیکھا۔ ’’مذاکرات‘‘ ناکام رہے اور 25 مارچ کی شب آپریشن کا آغاز ہوگیا۔ زیر حراست مجیب کو مغربی پاکستان پہنچا دیا گیا۔ بھٹو خدا کا شکر ادا کررہے تھے کہ ’’پاکستان بچ گیا‘‘… اور پھر 16 دسمبر تک پیچ در پیچ اور تہ درتہ کہانی۔ کرنل فرخ کی اس کتاب سے احساس ہوتا ہے کہ علیحدگی شیخ مجیب الرحمن کا پہلا آپشن نہیں تھا، اور خود بنگالیوں کی بڑی تعداد بھی اپنا حقِ حکمرانی تو چاہتی تھی لیکن ’’16دسمبر‘‘ نہیں چاہتی تھی۔
(روف طاہر۔ دنیا، 19دسمبر2018ء)