بھارت سے تعلقات اور کشمیر،عمران خان بھی نوازشریف اور پرویزمشرف کی راہ پر؟

بھارت کے شہر چندی گڑھ میں فوجی لٹریچر سے متعلق منعقدہ میلے میں دو ایسی آوازیں بلند ہوئی ہیں جن میں پاکستان کے سابق فوجی حکمران جنرل پرویزمشرف اور موجودہ حکمران عمران خان کی تعریف مختلف انداز میں کی گئی ہے۔ ان دو بھارتی افسروں میں ’را‘ کے سابق سربراہ اے ایس دولت اور بھارتی دفاعی انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق سربرا ہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل کمال داوڑ شامل ہیں۔ اے ایس دولت نے کہا کہ انہوں نے اپنی تیس سالہ سروس میں جنرل پرویزمشرف سے زیادہ معقول انسان نہیں دیکھا، پرویزمشرف کے بعد عمران خان سے ہم سب سے زیادہ توقعات رکھ سکتے ہیں، بھارت کو چاہیے کہ وہ عمران خان کو وقت اور موقع دے کہ وہ اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان بات چیت ہی پیش رفت کا واحد راستہ ہے۔ جبکہ جنرل کمال داوڑ کا کہنا تھا کہ عمران خان کو دیوار سے نہ لگائیں، وہ جنوبی ایشیا میں چیزیں تبدیل کرسکتے ہیں۔
اس طرح عمران خان کی حمایت میں بہت دھیمے سُروں میں آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو تو اعلانیہ اپنے دوست کے گیت اور ترانے گا رہے ہیں۔ وہ پہلے ہی عمران خان کے مداح تھے، اب کرتارپور راہداری کا تحفہ ملنے کے بعد تو وہ عمران خان پر فریفتہ ہوگئے ہیں۔ اپنے مقدس مقامات کی بازیافت کے مددگار کے طور پر سدھو بالخصوص پنجاب اور بالعموم پورے بھارت کے سکھوں میں ایک ہیرو بن رہے ہیں۔ سدھو اپنے اس امیج میں عمران خان کو بھی شراکت دار بنا رہے ہیں۔ وہ سکھوں کو یہ باور کرا رہے ہیں کہ عمران خان امن کے وہ مسیحا ثابت ہوسکتے ہیں جس کا برصغیر کو عشروں سے انتظار تھا۔
عام انتخابات سے بہت پہلے ہی عمران خان کے بارے میں یہ تاثر تھا کہ انہیں پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے جو حکومت بننے کے بعد بھی قائم ہے۔ اس لیے گزشتہ کچھ برسوں سے بھارت میں عمران خان کی سیاست کا بہت حیرت اور تجسس بھرے انداز میں جائزہ لیا جارہا تھا۔ انہیں یہ خوف تھا کہ عمران خان کے اقتدار کی صورت میں ان کا سامنا ایک ’’حافظ سعید‘‘ سے پڑ سکتا ہے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد عمران خان نے بھارت کو بار بار امن اور مذاکرات کے پیغامات بھیج کرنہ صرف بھارت بلکہ دنیا کو ایک سرپرائز دے دیا۔ یہ قطعی نئی صورتِ حال نہیں۔ اس سے پہلے بھارت اس متحیر کردینے والی صورتِ حال کا سامنا جنرل پرویزمشرف کے اقتدار کی صورت میں کرچکا ہے۔ جب کارگل کی جنگ کے ہیرو اور بھارتیوں کی طرف سے جہادی فوج کے طنزیہ جملوں کا سامنا کرنے والی فوج کے سربراہ جنرل پرویزمشرف اقتدار میں آئے تھے تو بھارت میں سکتے اور سنسنی کی کیفیت تھی۔ وہ متجسس تھے کہ اب اس پردے کے پیچھے سے ایک صلح جو اور امن پسند حکمران برآمد ہوتا ہے یا جنگ جو اور تند خو انسان اُبھرتا ہے! چند برس بعد ہی جنرل پرویزمشرف نے اپنے ماضی کے امیج کو ترک کرکے بھارت کے لیے امن کے مسیحا کے طور پر اُبھرنا شروع کیا۔ بھارتی میڈیا نے رنگ آمیزی سے بھرپور اُن کا سراپا تراشنا اور لکھنا شروع کیا تھا، یہاں تک کہ انہیں امن کے عالمی نوبیل پرائز کا مستحق تک سمجھا جانے لگا تھا۔ جنرل پرویزمشرف بھی اس راہ پر بگٹٹ دوڑے جا رہے تھے۔ وہ نوبیل پرائز کے پیچھے لپکتے ہوئے اتنا دور نکل گئے کہ خود اپنا حلقۂ انتخاب اور حلقۂ اثر کہیں پیچھے چھوڑ آئے۔ اُس وقت بھی بھارت میں یہ آوازیں اُٹھ رہی تھیں کہ جنرل پرویزمشرف کی لچک سے فائدہ اُٹھایا جائے۔ بھارتی ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے اور ان کا کہنا تھا کہ جنرل پرویزمشرف نہ سہی اُن کی جگہ کوئی داڑھی والا سخت گیر جنرل آئے گا تو بھارت کو اس سے کیا فرق پڑے گا! بھارت پاکستان کے ساتھ نباہ کرنا جانتا ہے یہ باتیں سوچنا امریکہ کا دردِ سر ہے، بھارت اس معاملے سے قطعی بے نیاز ہے۔
اب عمران خان اسی مقام پر سفر کررہے ہیں جہاں سے جنرل پرویزمشرف نے آگرہ کے ناکام مذاکرات کے بعد سے نیا سفر شروع کیا تھا۔ بھارت میں عمران خان کو موقع دینے کی باتیں ہورہی ہیں، انہیں بھارتی زاویے سے معقول اور متوازن بھی کہا جانے لگا ہے۔ واضح رہے کہ ’معقول‘ اور ’متوازن‘ کا بھارت کا اپنا ہی معیار اور پیمانہ ہے۔ بھارت کا ایک حلقہ عمران خان کو یک طرفہ طور پر امن کے مسیحا کے طور پر پیش کررہا ہے۔ جبکہ بھارت کا متکبر اور سخت گیر حلقہ جو فیصلہ سازی کا اختیار رکھتا ہے، امن کی پیشکشوں کے جواب میں ٹس سے مس نہیں ہورہا۔ بھارت میں مودی جیسے نامعقول لوگوں کا بیانیہ فروخت ہورہا ہے اور سدھو کو پنجاب اور سکھوں سے باہر ایک غدار کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ ایسے میں بھارتیوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ عمران خان امن کا بوجھ تنہا اُٹھا نہیں سکتے۔ امن کا آدھا بوجھ بھارت کے حکمران کو اُٹھانا ہوگا اور آدھا پاکستان کا حکمران اُٹھا سکتا ہے۔ جب عمران خان یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان صرف ایک مسئلہ ہے اور وہ کشمیر ہے، تو پھر بھارتیوں کو یہ سمجھ جانا چاہیے کہ عمران خان کے آگے بھی ایک لکیر ہے، اور وہ یہ لکیر پار کرسکتے ہیں نہ اس کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ بھارت سے دوستی اور اچھے تعلق کی خواہش ہر پاکستانی حکمران کے دل میں موجود رہی ہے اور ہر دور میں اس جانب پیش رفت کی کوشش کی جاتی رہی ہے، مگر بھارت سے دوستی اور اس راہ میں لڑھکنے کی جدید لہر کے بانی میاں نوازشریف ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں انہوں نے اپنے اصل حلقۂ اثر اور حلقۂ حامیان کو خداحافظ کہہ کر بھارت سے تعلقات کی راہ پر یک طرفہ طور پر پیش قدمی شروع کردی تھی، لیکن اس راہ میں قدم قدم پر حالات اور تجربات کی بارودی سرنگوں نے اس سفر کو منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی ناکام بنادیا تھا۔ بعد میں جنرل پرویزمشرف نے یہی کہانی پورے سیاق وسباق اور مکمل کرداروں کے ساتھ دہرانا شروع کی۔ یہ قریب قریب میاں نوازشریف کے دور کا ایکشن ری پلے تھا، مگر پھر سفر ناتمام ہی رہا۔ اب عمران خان میاں نوازشریف اور جنرل پرویزمشرف کے راستے کی جانب غیر محسوس انداز میں دیکھ رہے ہیں۔کچھ عجب نہیں کہ وہ اس پُرخطر راہ پر بڑھتے ہوئے نظر آئیں۔ اس راہ میں گلیمر اور میڈیا کی چکاچوند بہت ہے، ایسے میں جب مخالف ملک کا میڈیا اور دانش ور طبقہ تعریفوں کے پُل باندھ رہا ہو تو شہرت کا نشہ دوآتشہ ہوجاتا ہے، مگر عمران خان کا کوئی مشیر، وزیر ابھی سے انہیں بتاسکتا ہے کہ زمینی حقائق بدلے بغیر اس راہ کا مسلسل سفر خطرات سے پُر ہے۔