ٹرمپ کا سیاسی مستقبل کیاشکنجہ تنگ ہورہا ہے؟

امریکی صدر ٹرمپ اپنے انتخاب کے پہلے دن سے مختلف قسم کی تحقیقات کی زد میں ہیں، بلکہ امریکہ کی مقتدرۂ ٹیکس یا IRS نے تو انھیں انتحابات سے کافی پہلے سے ہی خوردبین کے نیچے رکھا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جناب ٹرمپ امریکی تاریخ کے پہلے صدارتی امیدوار تھے جنھوں نے پارٹی کی نامزدگی قبول کرنے سے پہلے اپنے ٹیکس کا گوشوارہ اشاعتِ عام کے لیے جاری نہیں کیا۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ان کے گوشواروں کی چھان بین (Audit) ہورہی ہے اور جب تک تحقیقات مکمل نہیں ہوجاتیں ان گوشواروں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔
نومبر کے انتخابات کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ روس نے ان انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی تھی۔ فیس بُک پر جعلی اکائونٹس اور گروپ بنا کر رائے عامہ کو صدر ٹرمپ کے حق میں استوار کیا گیا، جبکہ کچھ ریاستوں کو شک ہے کہ روسیوں نے الیکٹرانک نقب زنی یا Hackingکے ذریعے انتخابی مشینوں تک رسائی کی کوشش بھی کی۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے FBI سمیت سراغ رسانی کے تمام اداروں کو یقین ہے کہ روس نے گزشتہ صدارتی انتخابات میں مداخلت کی بھرپور کوشش کی تھی۔
کچھ حلقوں نے الزام لگایا کہ روسی مداخلت کا مقصد ان انتخابات میں صدر ٹرمپ کو کامیاب بنانا تھا، جس کی صدر ٹرمپ بہت سختی سے تردید کرتے چلے آئے ہیں۔ حکومت اور کانگریس کی تشکیل کے بعد سے ڈیموکریٹک پارٹی نے انتخابات میں روسی مداخلت کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ سراغ رساں ایجنسیوں کی جانب سے مداخلت کی تصدیق پر صدر ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی بھی تحقیقات کے کورس میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ شامل ہوگئی۔ کانگریس کی قیادت نے امریکہ کی وزارتِ انصاف سے اس سارے قضیے کی چھان بین کے لیے ایک تحقیقات کار یا Special Consul مقرر کرنے کا مطالبہ کیا۔ ری پبلکن پارٹی کے رہنمائوں انجہانی جان مک کین (John Mc Cann) اور لنڈسے گراہم (Lindsay Graham) نے عندیہ دیا کہ اگر اٹارنی جنرل جیف سیشنز (Jeff Sessions) تفصیلی چھان بین پر تیار نہ ہوئے تو امریکی کانگریس اپنی کمیٹیوں کے ذریعے تحقیقات شروع کردے گی۔ اسی دوران ڈیموکریٹس نے نکتہ اٹھایا کہ اٹارنی جنرل ٹرمپ کی انتخابی مہم کے سرگرم رہنما تھے اور ان پر بھی روسی سفیر اور دوسرے رہنمائوں سے خفیہ ملاقاتوں کا الزام ہےلہٰذا ان کی سربراہی میں اس معاملے کی غیر جانب دارانہ تحقیقات ممکن نہیں۔ جیف سیشنز اپنی تعیناتی سے قبل سینیٹ کے روبرو توثیقی سماعت کے دوران یہ وعدہ کرچکے تھے کہ وہ شعبۂ انصاف کی جانب سے روسی مداخلت کی تحقیق پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں کریں گے، چنانچہ اٹارنی جنرل نے اس معاملے سے خود کو الگ تھلگ کرتے ہوئے اپنے نائب راڈ روزینٹائن (Rod Rosenstein) کو تحقیقات کی ذمہ داری سونپ دی، جنھوں نے گزشتہ برس مئی میں FBIکے سابق سربراہ رابرٹ موئیلر (Robert Mueller) کو ٹرمپ انتخابی مہم کے روس سے تعلق، امریکی انتخابات میں روس کی مداخلت اوراس سے جڑے دوسرے امور کا جائزہ لینے کے لیے تحقیقات کار نامزد کردیا۔ جناب موئیلر کو غیرمعمولی اختیارات دیئے گئے جن میں سماعت کے لیے وارنٹ کا اجرا، جیوری کی تشکیل اور ضرورت پڑنے پر مقدمہ دائر کرنے کے اختیارات شامل ہیں۔
74 سالہ رابرٹ موئیلر کا تعلق ری پبلکن پارٹی کے قدامت پسند طبقے سے ہے، انھیں سابق صدر رونالڈ ریگن نے 1986ء میں وفاقی وکیل نامزد کیا۔آنجہانی جارج بش نے مجرمانہ مقدمات میں امریکی حکومت کی پیروی کے لیے جناب موئیلر کو اسسٹنٹ اٹارنی جنرل مقرر کیا، جبکہ سابق صدر جارج بش کی عبوری مدت میں وہ قائم مقام ڈپٹی اٹارنی جنرل تھے۔
رابرٹ موئیلر نے تحقیقات کا آغاز صدر ٹرمپ کے سابق مشیر خصوصی برائے قومی سلامتی جنرل (ر) مائیکل فلن، ٹرمپ انتخابی کمیٹی کے سابق سربراہ پال منافورٹ (Paul Manafort)، ان کے نائب رک گیٹس (Rick Gates)، ٹرمپ انتخابی کمیٹی کے مشیر برائے اقتصادی امور جارج پاپاڈوپولس (George Papadopoulos) اور صدر ٹرمپ کے ذاتی وکیل مائیکل کوہن (Michael Cohen) سے کیا، اور انھیں سماعت کے لیے طلب کیا گیا۔ یہ سب لوگ صدر ٹرمپ کے پُرجوش وفادار تھے۔ مائیکل کوہن نے تو بڑے فخر سے کہا کہ وہ اپنے عظیم رہنما کے لیے سینے پر گولی کھانے کو تیار ہیں۔ لیکن جب چشم کشا انکشافات سامنے آنا شروع ہوئے تو ایک ایک کرکے سارے ہی سرنگوں ہوگئے۔ سب سے پہلے مائیکل فلن نے اعتراف کیا کہ روسی اہلکاروں سے ملاقات کے بارے میں انھوں نے امریکی کانگریس کو جو حلفیہ بیان دیا تھا وہ جھوٹ پر مبنی تھا، یعنی موصوف دروغِ حلفی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح امریکہ میں بھی پراسرار و حساس مقدمات کی تہ تک پہنچنے کے لیے نامزد ملزمان کو الزامات ثابت ہونے کی صورت میں نرمی و معافی کی پیشکش کرکے تحقیقات میں تعاون پر آمادہ کیا جاتا ہے جسے قانونی اصطلاح میں Plea Bargainکہتے ہیں۔ امریکہ میں دروغِ حلفی ایک سنگین جرم ہے جس میں لمبی قید ہوسکتی ہے، چنانچہ مائکل فلن رابرٹ موئیلر سے تعاون پر رضامند ہوگئے۔ اسی کے ساتھ ٹرمپ انتخابی مہم کے سابق سربراہ رک گیٹس کے خلاف بینکنگ کے حوالے سے قانون شکنی کا مقدمہ دائر کردیا گیا اور تحقیقات سے پتا چلا کہ انھوں نے اپنے نائب جارج پاپا ڈوپولس کے ساتھ مل کر روس میں مشاورت (Consulting) کا کاروبار کیا تھا اور حاصل ہونے والی آمدنی کو امریکہ سے باہر بینکوں میں جمع کرایا تھا۔ یہ ساری سرگرمیاں قانونی اعتبار سے بالکل درست تھیں لیکن ان دونوں نے بیرونِ ملک اپنے بینک اکائونٹ کی تفصیلات امریکہ کے شعبۂ ٹیکس کو فراہم نہیں کیں جو وفاقی جرم ہے۔ الزام ثابت ہونے پر یہ دونوں حضرات بھی تعاون پر تیار ہوگئے اور مبینہ طور پر کئی ثبوت موئیلر کمیشن کے حوالے کردیئے۔
سلطانی گواہوں اور گھر کے بھیدیوں کے بیانات سے موئیلر کمیشن کی تحقیقات آگے بڑھیں اور اس کے ساتھ ہی صدر ٹرمپ کا رویہ انتہائی تلخ ہوتا گیا۔ انھوں نے اشتعال انگیز ٹویٹس کے انبار لگادیئے۔ صدر ٹرمپ نے موئیلر کمیشن کی تحقیقات کو تخریب کارانہ الزام تراشی یا Witch- hunt قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈیموکریٹک پارٹی انتخابات میں اپنی شکست کا بدلہ لے رہی ہے اور تحقیقات کا یہ جال دراصل ترقی کی راہ پر گامزن امریکہ کا راستہ کھوٹا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ امریکی صدر نے کئی بار رابرٹ موئیلر کو برطرف کرنے کی دھمکی بھی دی لیکن ری پبلکن پارٹی کے دبائو پر ایسا کرنے سے گریز کیا۔
اسی دوران صدر ٹرمپ کے دو خواتین یعنی فحش فلموں کی اداکارہ اسٹورمی ڈینیلز(Stormy Daniels) اور ملکہِ پلے بوائے (Playboy Queen)کیرن مک ڈوگل سے تعلقات کی باتصویر خبریں شائع ہوئیں۔ یہ خبریں سنسنی خیز تو تھیں لیکن ان کی کوئی قانونی حیثیت نہ تھی کہ یہ جناب ٹرمپ کا ذاتی معاملہ تھا، اور خود خاتونِ اوّل ملانیا ٹرمپ نے کہا کہ ساری باتیں بہت پہلے سے ان کے علم میں ہیں اور وہ اس کے باوجود اپنے شوہر کو ٹوٹ کر چاہتی ہیں۔ تاہم اسی دوران انکشاف ہوا کہ موذی میڈیا کے خوف سے صدر ٹرمپ کے ذاتی وکیل مائیکل کوہن نے ان مہ جبینوں کو زباں بندی کے لیے خطیر رقم عطاکی تھی۔ اپنے ایک بیان میں مائیکل کوہن نے حسینائوں کے مرمریں ہونٹوں پر طلائی قفل لگانے کا اعتراف کیا، لیکن غیر مبہم انداز میں کہا کہ انھوں نے یہ رقم اپنی جیب سے دی ہے اور اس کا صدر ٹرمپ سے کوئی تعلق نہیں۔ زباں بندی کے لیے ادا کی جانے والی رقم کو یہاں Hush money کہا جاتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق وکیل صاحب نے اسٹورمی کو ایک لاکھ 30 ہزار اور کیرن کو ڈیڑھ لاکھ ڈالر ادا کیے۔ ان خبروں کی صدر ٹرمپ نے سختی سے تردید کی اور صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ انھیں رقم کی ادائیگی کا کوئی علم نہیں، اور اگر ان کے وکیل نے کسی کو مجھ سے پوچھے بغیر پیسے دیئے ہیں تو میں اس کا ذمہ دار نہیں۔
کچھ دن بعد صدر ٹرمپ کے سرکاری وکیل اور نیویارک کے سابق میئر روڈی جولیانی نے انکشاف کیا کہ مسٹر کوہن نے اسٹورمی ڈینیلز کو جو رقم دی ہے وہ صدر ٹرمپ نے جناب کوہن کو دی تھی۔ جناب جولیانی کے اس بیان سے صدر ٹرمپ کا جھوٹ ثابت ہوگیا، لیکن اس کی بھی کوئی قانونی حیثیت نہ تھی کہ یہ کوئی بیانِ حلفی نہ تھا بلکہ محض صحافیوں سے گفتگو تھی جسے لغزشِ زبان اور سیاسی رنگ بازی کہہ کر نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔
صدر ٹرمپ کی حقیقی مشکلات کا آغاز گزشتہ ہفتے ہوا جب موئیلر کمیشن کے سامنے مائیکل کوہن کے ایک بیان کا غلط ہونا ثابت ہوگیا، اور انھوں نے اس وعدے پر دروغِ حلفی کا اعتراف کرلیا کہ عدالتی کارروائی کے دوران استغاثہ ان کے خلاف سخت سزا کا مطالبہ نہیں کرے گا۔ نرمی کے اس وعدے کے بعد جناب کوہن نے ایک سنسنی خیز انکشاف یہ کیا کہ انتخابات سے کچھ عرصہ پہلے ٹرمپ کارپوریشن نے ماسکو میں ایک 75 منزلہ ٹرمپ ٹاور تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور مبینہ طور پر صدر ٹرمپ اس عمارت کا ایک پُرتعیش Penthouse اپارٹمنٹ صدر پوٹن کو تحفتاً دینا چاہتے تھے۔ تاہم بعد میں ٹرمپ کارپوریشن نے ٹاور تعمیر کرنے کا منصوبہ منسوخ کردیا۔ صدر ٹرمپ نے اس بات کی تصدیق کی کہ ان کے سامنے ماسکو میں ٹرمپ ٹاور تعمیر کرنے کا منصوبہ پیش ہوا تھا لیکن یہ تجویز انھیں غیر منافع بخش محسوس ہوئی اس لیے اسے مسترد کردیا گیا۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کارپوریشن کے پلازے اور ہوٹل ساری دنیا میں ہیں، لہٰذا ماسکو یا بیجنگ میں ٹرمپ ٹاور کی تعمیر سے کوئی قیامت نہیں آجاتی۔ صدر ٹرمپ نے طنزیہ انداز میں کہا کہ وہ امریکی تاریخ کے پہلے سیاست دان ہیں جو صدر بننے سے پہلے اپنی روزی خود کماتے تھے، ورنہ باقی لوگ تو سرکار کی بہتی گنگا میں اشنان کے عادی ہیں۔
اسی دوران انکشاف ہوا کہ صدر ٹرمپ نے اپنی کم سن دوستوں کو مائیکل کوہن کے ذریعے جو رقم دی تھی اس کی ادائیگی ٹرمپ انتخابی مہم کے چندے سے کی گئی تھی۔ امریکہ میں انتخابی چندہ قانونی اعتبار سے عوام کی ملکیت ہے جس میں ہیر پھیر سنگین جرم ہے۔ صدارتی مہم کے لیے حکومت ٹیکس دہندگان کی اجازت سے کچھ رقم مختص کرتی ہے جو امیدواروں پر ان کے عوامی چندے کے تناسب سے تقسیم کی جاتی ہے۔ یہ رقم صرف اور صرف انتخابی مہم پر استعمال ہوسکتی ہے اور امیدوار اخراجات کی تفصیلات سرکار کو فراہم کرنے کے پابند ہیں۔ صدر ٹرمپ کے دامن کو متوقع دھبوں سے پاک رکھنے کے لیے حسینائوں کو انتخابی چندے سے رقم ادا کرنے کی خبر پر 7 دسمبر کو وفاقی عدالت میں سرکاری مستغیث (Prosecutor) نے ایک درخواست دائر کردی جس میں انتخابی فنڈ کے غلط استعمال پر مائیکل کوہن کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اگر یہ الزام ثابت ہوگیا تو مائیکل کوہن کو دس سال کی جیل ہوسکتی ہے۔ عدالت نے درخواست کے قابلِ سماعت ہونے کا ابھی فیصلہ نہیں کیا، لیکن اعتراف کی وجہ سے الزامات اتنے واضح ہیں کہ نالش مسترد ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ مستغیث نے اپنی درخواست میں صدر ٹرمپ کو بھی فریق بنایا ہے، لیکن امریکی صدر کو چونکہ عدالتی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے اس لیے انھیں عدالت طلبی کا نوٹس جاری نہیں ہوسکتا۔
ایک بات بڑی واضح ہے کہ عدالتی کارروائی کے دوران مائیکل کوہن یقیناً یہ بیان دیں گے کہ انھوں نے رقم کی ادائیگی صدر ٹرمپ کے حکم پر کی تھی۔ اس وضاحت سے مائیکل کوہن کی جان تو نہیں چھوٹے گی لیکن عدالت میں ان کے بیانِ حلفی کی بنیاد پر امریکی کانگریس صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کرسکتی ہے۔ چند ہفتوں بعد جب نئی کانگریس حلف اٹھائے گی تو ایوانِ زیریں میں ڈیموکریٹس کی اکثریت ہوگی اور مجلس قائمہ برائے سراغ رسانی کے نامزد سربراہ آدم شف (Adam Schiff) نے گزشتہ روز CBS ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام میں کہا کہ وہ صدر ٹرمپ کو جیل جاتا دیکھ رہے ہیں۔ جناب شف کے اس بیان کو اس لحاظ سے تو مسترد کیا جاسکتا ہے کہ صدر ٹرمپ کو آئینی استثنیٰ حاصل ہے، لیکن اگر مائیکل کوہن کے مقدمے میں انتخابی چندے کا غیر قانونی الزام ثابت ہوگیا تو ری پبلکن پارٹی کے لیے بھی مواخذے کی تحریک میں ڈیموکریٹس کا ساتھ دینے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہوگا، اور جیل سے بچنے کے لیے مقدمہ نہ چلانے کے وعدے پر صدر ٹرمپ اپنا استعفیٰ پیش کرسکتے ہیں۔