اہلِ سیاست اور اہلِ صحافت کا باہم چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دونوں کی ملاقاتیں روزمرہ کا معمول ہے، لیکن عموماً یہ ملاقاتیں اہلِ سیاست کی دعوت پر ہوتی ہیں جن میں وہ اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے ہیں۔ لیکن 10 دسمبر کی شام معاملہ ذرا مختلف تھا، لاہور پریس کلب کے عہدیداروں نے خود جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق کو مدعو کیا تھا کہ کلب کے پروگرام ’’میٹ دی پریس‘‘ کے ذریعے لاہور کی اخبار نویس برادری کو حالاتِ حاضرہ اور قومی و بین الاقوامی امور سے متعلق اپنی رائے سے آگاہ کریں اور اس ضمن میں صحافیوں کے ذہنوں میں جنم لینے والے سوالات کے جواب بھی دیں۔
لاہور پریس کلب کے جنرل سیکریٹری عبدالمجید ساجد نے پروگرام کے آغاز میں اپنے معزز مہمان کو کلب میں تشریف آوری پر خوش آمدید کہا، جب کہ کلب کے سینئر نائب صدر مجتبیٰ باجوہ اور نائب صدر شکیل سعید نے انہیں گلدستہ پیش کیا۔ امیر جماعت اسلامی وسطی پنجاب امیرالعظیم اس موقع پر سینیٹر سراج الحق کے ہمراہ اسٹیج پر موجود تھے۔ امیر جماعت اسلامی نے خالقِ کائنات کی حمد و ثناء اور سورہ اخلاص کی تلاوت کے بعد اپنی گفتگو کا آغاز مختلف اداروں سے صحافیوں کی چھانٹیوں اور برطرفیوں کے حوالے سے ان کے مرجھائے ہوئے چہروں کے ذکر سے کیا اور ان مشکل حالات میں ان کی مزاج پرسی کو نیکی اور باعثِ ثواب قرار دیا۔ حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 25 جولائی کے عام انتخابات کے بعد نئی حکومت کو بنے چار ماہ ہونے کو ہیں۔ اپنی حکومت کی ترجیحات اور رفتارِ کار کے جائزے کے لیے خود وزیراعظم نے سو دن کا ہدف دیا تھا، مگر اب تک نظام وہی ہے صرف چہرے تبدیل ہوئے ہیں۔ عام آدمی کی زندگی میں خوشحالی کی جو امید اور یقین انہوں نے لوگوں کو دلایا تھا یہ معکوس اور یوٹرن کی تبدیلی ہے۔ جو بڑے بڑے وعدے ہیں انہیں نہ وہ اگل سکتے ہیں نہ نگل سکتے ہیں۔ ان کی سو روزہ کارکردگی کچھ لطیفے، کچھ قہقہے، کچھ مایوسیاں ہیں۔ ہم سے زیادہ وہ لوگ مایوس ہیں جنہوں نے انہیں بڑے شوق اور امیدوں کے ساتھ ووٹ دیئے تھے۔ اب وہ خود کہتے ہیں کہ شادی اور انتخابات سے پہلے کے وعدے پورے کرنا ضروری نہیں۔ انہوں نے ایک کروڑ نوجوانوں کو روزگار دینے کا وعدہ کیا، مگر صرف لاہور میں سینکڑوں میڈیا ورکرز بے روزگار ہوچکے ہیں جن پر ترس آتا ہے۔ لوگوں کو چھت دینے کا اعلان کیا مگر بے شمار لوگوں سے چھت خود حکومت نے چھین لی ہے۔ مہنگائی کے خاتمے کا وعدہ کیا گیا مگر پاکستان کا صرف روپیہ سستا ہوا، باقی سب چیزیں مہنگی ہوگئی ہیں۔ اور اب تو لاہور کا لنڈا بازار بھی غریب کی پہنچ سے باہر ہوگیا ہے۔ حکمرانوں نے ڈالروں کی بارش کا وعدہ کیا مگر ڈالر آسمان پر پہنچ گیا اور روپیہ زمین بوس ہوچکا ہے۔ یہی حال طرزِ حکومت کی تبدیلی، معیشت کی بحالی اور سستی بجلی کی فراہمی کے وعدوں کا بھی ہوا ہے۔ سرکاری افسروں کے تبادلوں پر تین بار عدالتِ عظمیٰ ازخود نوٹس لے چکی ہے۔ کراچی میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کے بارے میں سینیٹر سراج الحق کا کہنا تھا کہ ہم خود چاہتے ہیں کہ قبضے واگزار ہوں اور راستے کھلیں، مگر میں نے خود کراچی جاکر دیکھا، چھے ہزار دکانیں مسمار کردی گئی ہیں۔ 50 ہزار گھروں کے باسیوں کے سر سے چھت چھین لی گئی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں 1950ء میں حکومت نے خود لیز پر زمینیں دیں، ان کے پاس رسیدیں اور دستاویزات موجود ہیں، مگر انہیں بے روزگار اور بے گھر کردیا گیا ہے۔ میری اپنے محترم وزیراعظم سے گزارش ہے کہ
اے وعدہ فراموش، تیری خیر ہو لیکن
اک بات مری مان، تُو وعدہ نہ کیا کر
عدالتِ عظمیٰ کی فعالیت کے بارے میں سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ ملک میں پانی کی شدید قلت، ڈیموں کی صورتِ حال، دودھ میں ملاوٹ، ہسپتالوں کی حالتِ زار اور عام آدمی کی بے بسی و بے چارگی پر عدالتِ عظمیٰ کے منصفِ اعلیٰ چیخ رہے ہیں مگر حکومت سوئی ہوئی ہے، حکومت ٹس سے مس نہ ہو تو اکیلے منصفِ اعلیٰ معاشرے کو درست نہیں کرسکتے۔ گاڑی کے چاروں پہیے یکساں سمت میں سفر نہ کریں تو وہ منزل پر نہیں پہنچ سکتی۔ خود حکومت نے اعلان کیا کہ چار ماہ تک کوئی وزیر بیرون ملک نہیں جائے گا، مگر وفاقی وزیر اطلاعات باہر چلے گئے اور یہاں جو طوفان خود کابینہ کے ارکان نے اٹھایا وہ سب نے دیکھا۔ حکومت نے تحریک لبیک پاکستان سے معاہدہ کیا مگر خود ہی اس کی خلاف ورزی کی۔ 90 سالہ بزرگ عالم دین جیل میں وفات پا گئے، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ معاہدہ اگر خلافِ آئین و قانون تھا تو حکومت کو اس پر قوم سے معافی مانگنا چاہیے تھی۔ حکومت اگر اپنے لوگوں سے معاہدوں کی یوں دھجیاں بکھیرے گی تو بیرونی دنیا اس پر کیسے اعتماد کرے گی! حکومت کہتی ہے کہ سو دن میں ہم نے سمت سیدھی کرلی ہے۔ گویا پہلے سے ان کے پاس کوئی سمت، کوئی پروگرام نہیں تھا۔ سو دن میں سمت طے کی ہے تو عمل کے لیے مزید ہزار دن درکار ہوں گے۔
سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ وزیراعظم نے جب پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنانے کا وعدہ کیا تو ہمیں بہت خوشی ہوئی اور ہم نے تعاون کا اعلان بھی کیا، مگر اب تک اس جانب ایک قدم بھی نہیں اٹھایا گیا۔ ’’گناہ ٹیکس‘‘ کی تجویز کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ تصور بنی اسرائیل کے دور میں تھا کہ وہ غریبوں کو تو سزا دیتے مگر بڑے لوگوں کو معاف کردیا جاتا۔ یہ تصور نہایت خطرناک اور ناقابلِ قبول ہے۔
اعداد و شمار کے ساتھ ملک کی صورتِ حال پر روشنی ڈالتے ہوئے امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ملک میں سوا دو کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ ہر سال 80 ہزار شہری کینسر اور 5 لاکھ یرقان سے جاں بحق ہوجاتے ہیں۔ 33 فیصد لوگ بلڈ پریشر میں مبتلا ہیں۔ 22 کروڑ آبادی کے لیے صرف 1150 ہسپتال ہیں۔ ملک کا 89 فیصد پانی بین الاقوامی معیار سے کمتر اور بیماریاں پھیلانے کا سبب بن رہا ہے۔ ان تمام مسائل کے حل کے لیے اسلامی فلاحی ریاست ضروری ہے، یہی ہمارے آئین کا تقاضا ہے جس کی دفعہ 38 ملک کو فلاحی ریاست بنانے کا تقاضا کرتے ہوئے تعلیم، علاج، گھر اور مظلوم کو انصاف کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری قرار دیتی ہے۔ حکومت صرف ٹیکس لینے والا ادارہ نہیں بلکہ یہ ماں کی طرح ہوتی ہے، جو اپنے کمزور اور معذور بچے کا زیادہ خیال رکھتی ہے۔ پاکستانی قوم کی کامیابی صرف اور صرف اسلامی نظام میں ہے جس کی خاطر یہ ملک بنایا گیا۔ جب ہم اسلامی انقلاب اور اسلامی فلاحی ریاست کی بات کرتے ہیں تو ہماری مراد اللہ اور رسول ؐ کا نظام اور قانون کی حکمرانی ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ کی عمارت کی پیشانی پر کلمہ طیبہ لکھا ہے اور اس کی حکمرانی کے سوا ہمارے لیے کوئی دوسرا آپشن موجود ہی نہیں۔
بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کی حالتِ زار کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے نہایت دکھ کا اظہار کیا کہ کشمیر میں روز بستیاں جلائی جا رہی ہیں۔ چند دن میں چار پی ایچ ڈی ڈاکٹر شہید کردیئے گئے ہیں۔ 4 برس کے بچے سے 85 برس کے بزرگ تک کشمیری مسلمان اپنا خون تحریکِ آزادی میں پیش کررہے ہیں۔ وہاں بھارت، اسرائیل اور امریکہ کی تکون کشمیری مسلمانوں کی نسل کُشی میں مصروف ہے، مگر حکومتِ پاکستان خاموشی سے تماشا دیکھ رہی ہے، حالانکہ یہ ہماری شہ رگ کا مسئلہ ہے، کشمیر ہمارا نظریاتی مسئلہ بھی ہے اور ملک کی حیات کے لیے بھی ضروری ہے۔ پنجاب سمیت پاکستان میں جو ہریالی نظر آرہی ہے وہ کشمیر کے دریاؤں کی وجہ سے ہے۔ کشمیر کی تحریکِ حریت اگر دب گئی تو بھارت ہمیں ایک قطرہ پانی نہیں دے گا اور ہمارے لہلہاتے کھیت صحرا میں بدل جائیں گے۔ پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لیے کشمیر کی آزادی ضروری ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ کے خط کا ذکر کرتے ہوئے سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ افغانستان کا مسئلہ وہاں کے عوام حل کریں، پاکستانی حکومت کو امریکہ کے کہنے پر اس مسئلے میں نہیں آنا چاہیے، امریکہ پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، آج امریکہ اگر پھنس گیا ہے تو اُسے پھنسا رہنے دیں۔ پاکستان نے اگر کندھا پیش کرکے اُسے اس دلدل سے نکالا تو وہ دوبارہ پاکستان کو آنکھیں دکھائے گا۔ پاکستان پہلے ہی اس جنگ کی وجہ سے 70ہزار جانوں اور 124 ارب ڈالر کا نقصان اٹھا چکا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی نے ہمیشہ ظلم کے خلاف مظلوموں کا ساتھ دیا ہے۔ کرپشن کے خلاف جماعت کی تحریک کے نتیجے میں آج یہ نعرہ بچے بچے کی زبان پر ہے۔ ملک میں سیاسی، اخلاقی اور مالی ہر قسم کی کرپشن کے خلاف جماعت اسلامی کی جدوجہد آج بھی جاری ہے۔ پاناما لیکس کے خلاف ہم عدالتِ عظمیٰ میں گئے جس سے وزیراعظم نااہل قرار پائے۔ ہماری درخواست آج بھی عدالتِ عظمیٰ میں موجود ہے کہ باقی بدعنوان لوگوں کو بھی پکڑ کر حساب لیا جائے، سب کا حساب لینا عدالتِ عظمیٰ پر قوم کا قرض ہے۔
عمران خان کی جانب سے قبل از وقت انتخابات کی بات سے متعلق سوال پر سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ قبل از وقت الیکشن کا مطالبہ ہمیشہ اپوزیشن کی طرف سے آیا کرتا تھا، مگر وزیراعظم کی طرف سے یہ مطالبہ اس بات کی دلیل ہے کہ یا تو ان کی ٹیم ان سے تعاون نہیں کررہی، یا پھر انہیں یقین ہوگیا ہے کہ وہ ڈلیور نہیں کرسکیں گے۔