تسوید: سلمان علی
’’میں اُن دنوں لاہور شاہی قلعہ میں بطور سب انسپکٹر تعینات تھا۔ ایک دن اچانک میانوالی جانے کا حکم ملا،یہاں پہنچنے پر بتایا گیا کہ یہاں شیخ مجیب الرحمٰن قید ہیں ۔ وہ ان دنوں میانوالی جیل میں قید تھے اور ہمیں ان کے ساتھ اُن کی حفاظت اور اینٹلی جنس کی ڈیوٹی دینی تھی۔یہ ایک خصوصی سیل تھا ،جس میں تمام کچن، واش روم ، بستر،میز ،کرسی،سمیت بنیادی ضروریات کی چیزیں موجود تھیں۔مجھے بطور خدمت گار قیدی ’مشقتی ‘کی حیثیت سے داخل کیا گیا۔شیخ صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے پورا انٹرویو لیا کہ کون ہو؟کہاں سے ہو ؟ کس جرم میں قید ہوئے ہو؟میں نے راجہ خان کے نام سے اپنے آپ کو متعارف کرایا۔ فیصل آباد سے تعلق ظاہر کیااور ایک لڑکی کے اغواء کے جرم میں تین سال قید کی کہانی کاپس منظر بتایا کیونکہ ان کی سزا بھی تین سال ہی تھی ۔مجھ سے پہلے بھی ایک اور قیدی ’ایوب‘ بطور مشقتی موجود تھا وہ بھی اتفاق سے اغواء ہی کے جرم میں آیا ہوا تھا ۔اس پر شیخ صاحب نے کہاکہ ’ اغوا ء والے میرے ساتھ سارے آگئے ہیں ‘‘۔مجھے لگا کہ شیخ صاحب کو میری بات کایقین نہیں ہوا اور وہ سمجھ چکے ہیں کہ میں کوئی انٹلیجنس والا ہوں ۔مجھے رات کو ان کو کمرے میں لانا ہوتاتھا، میں نے اپنے رویے سے ہمیشہ اپنے آپ کو خدمت گار ہی ظاہر کیا، گوکہ وہ مجھ پر مستقل شک کرتے رہے۔ایوب اُن کی مرضی کا کھانا پکاتا تھا ۔روزانہ مجھے ان تک ابلاغ کے تمام ذرائع روکنے ہوتے تھے ،اخبار، ریڈیو، کتاب، کچھ بھی نہیں پہنچنے دینا تھا صرف ایک پائپ ہوتا تھا ان کے پاس جس کے لیے تمباکو کی طلب کرتے تھے ۔تین چار افراد کے علاوہ کوئی ان سے ملاقات نہیں کر سکتا تھا۔ ایک دن آپ کی پارٹی میں کون کون لوگ ہیں؟کے عنوان سے بات کرتے کرتے تاج الدین کا ذکر لے آیا۔میں نے اُن کی سخت گیری کی شکایت پر بات کی تو انہوں نے کہاکہ یہ ہمارے سیاسی لوگوں کی مجبوری ہوتی ہے ایسے لوگوں کو رکھنا،لیکن فیصل آباد میں جب ہم تھے تو انہوں نے ایک بار یہ بھی کہا کہ تاج الدین پر سخت شبہ ظاہر کیا کہ یہ ہمارے ساتھ دھوکہ کرے گا اور بھارت کے ساتھ ساز باز کرے گا۔مجھے آخر میں جا کر یہ تجزیہ ہواکہ بنیادی طورپر یہ ایک اچھے علاقائی سطح کے سیاست دان تھے ، بنگال ہی ہمیشہ سے ان کی توجہ کا مرکز تھا ۔یہ تو بعد میں جب انہیں پتہ چلا کہ یحییٰ کو وہ بھارتی ایجنٹ قرار دیتے ، انہیں معلوم نہیں تھا کہ زمام اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کو منتقل ہو چکا تھا۔وہ اکثر کہتے تھے کہ ’’میرا کیا قصور ہے کہ مجھے یہاں بند کر کے رکھا ہوا ہے‘‘ ۔وہ یحییٰ خان کو پاکستان کی بربادی کا ذمہ دار اور غدارقرار دیتے ، ان کی نشے کی عادت اور بدکاری پرسخت الفاظ میں تنقید کرتے۔
میں اسپیشل برانچ میں تھا جب یہ الیکشن ہوا، میں پاکستان کے تمام حالات کو قریب سے دیکھ رہا تھا۔
میں نے بھٹو صاحب کو یادگار پاکستان پر قصوری صاحب کو مکے مارتے اورزبان سے ’’جو ادھر جائے گا میںاس کی ٹانگیں توڑدوں گا‘‘ والی بات بھی اپنے سامنے سنی۔اس وقت میں نے کہاکہ پاکستان تباہی کا شکار ہونے جا رہا ہے میں نے یہ الفاظ پاکستان کی بربادی کی بنیاد قرار دیئے ۔میں سمجھتا ہوں کہ ایک محب وطن پاکستانی کو غدار بنا دیا گیا،ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ وہ یہاں سے برطانیہ گئے اور پھر بنگلہ دیش جا کر وہاں کے صدر بنے۔
ٹرائل فیصل آباد میں شروع ہو چکا تھا ۔بروہی صاحب ان کے وکیل ہوتے تھے ۔ میں ہی ان کو جیل سے عدالت تک لے کر جاتا تھا۔
ساہیوال سے انہوں نے ڈائری لکھناشروع کی تھی۔مجھے یہ حکم تھاکہ بھارت کی جانب سے کوئی کمانڈوز وغیر ہ نہ آ جائیں ،کوئی خطرہ کی با ت ہو تو شیخ صاحب کو اُن سے بچانا ہے ۔جیل میں ہی ٹرائل ہوتا رہا،وہیں عدالت لگتی، وہیں گواہ آتے ۔ وکیل سے مل کر پورے اطمینان سے بات کرتے ۔ ایک بار وہ اڑ گئے کہ میں ٹرائل میں نہیں جاؤں گا۔ ایک ہفتہ گزر گیا سب نے منتیں کیں مگر وہ نہیں مانے ۔پھر میں نے کوشش کی اور ایک دن کی محنت کے بعد وہ راضی ہوگئے ۔ وہ بالکل مجھے بھائیوں کی طرح سمجھتے تھے۔ایک قیدی بریگیڈئیر بطور گواہ آئے تھے اس کے بعد وہ بہت سخت غصہ ہوئے کہ بالکل جھوٹا گواہ لائے تھے ، جسے میں نے پہلے کبھی دیکھا بھی نہ تھا۔جنگ شروع ہو چکی تھی۔میرے پاس ایک چھوٹا ریڈیو تھا ، جسے میں چھپ چھپ کر سنتا تھا جس کی وجہ سے مجھے حالات حاضرہ کی خبر رہتی تھی ۔شیخ مجیب کو یہ شکوہ تھا کہ مشرقی پاکستان اس لیے غریب رہ گیا کہ وہاں کے سارے وسائل پنجاب کے چنیوٹی شیخ لے جاتے ہیں اور یہ چند خاندان ہی ہیں جو سب وسائل پر قابض ہیں اور مشرقی پاکستان کے اور مقامی بنگالیوں کے دشمن ہیں ۔
شیخ صاحب کو اتنا اندھیرے میں رکھا کہ انہیں معلوم ہی نہیں ہونے دیا کہ جنگ شروع ہو چکی ہے ۔
اس دوران کوئی بڑ ا آدمی ،کوئی اور شخص ان سے ملنے نہیں آیا۔
جب وکیل آتے تو اسکو بھی اجازت نہیں تھی کہ مقدمہ سے ہٹ کر کوئی بات کرے۔میںباتھ روم میں جا کر نل کھول کر باہمی گفتگوکو اپنے ذہن سے کاغذ پر منتقل کرتا۔وکیل بھی ان کو یہی تسلی دیتے تھے کہ وہ اس جعلی مقدمے سے بری کرا لیں گے ۔ مجھے شبہ یہی تھا کہ شاید ان کو پھانسی دی جائے گی۔بریگیڈئیر کی جھوٹی گواہی کے بعد وہ شاہی قلعہ والے کو بہت گالیاں نکالتے تھے۔ان کے نزدیک وہاں ظلم کا بازار گرم تھا جہاں جھوٹے گواہوں کو تیار کیا جاتا۔وہ کہتے تھے کہ اگر میں اقتدار میں آیا تو یہ شاہی قلعہ والوں کو لٹکا دوں گا۔
جنگ بڑھ گئی اور جیل کے اطراف گولے پڑے تو ہمیں فیصل آباد سے میانوالی منتقل کیا گیا۔ اس دوران انہوں نے سوال کیا کہ گاڑیوں پر مٹی کیوں لگائی گئی ہے ۔ اس پرمیں نے فوجی مشق کا بہانہ بنا دیا۔
ان کو سیل میں چھوڑ کر میں ریڈیوسننے گیا، اس پر بار بار جنرل اروڑ ہ کی جانب سے اعلانات ہو رہے تھے کہ ہتھیار ڈال دیں، اتنا وقت رہ گیا ہے ، نہیں تو ہم بڑھ رہے ہیں۔اتنا وقت ر ہ گیا ہے۔
مجھے سمجھ نہیں آیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے ۔سفر سے آئے تھے اس دوران مجھے نزلہ زکام بہت شدید ہو چکا تھا۔میری تکلیف دیکھ کر شیخ صاحب نے ہسپتال جانے کا کہا۔میں پولیس لائن چلا گیا وہ ایک دن مجھے ریسٹ کا ملاتھا۔مجھے یاد ہے کہ میں باہر دھوپ میں بیٹھا ہوا تھا کہ اس وقت وہاں مجھے پتہ چلا کہ ڈھاکہ میں سرنڈر کر دیا گیا ہے ۔آپ یقین کریں میں زندگی میں کبھی اتنا نہیں رویا ، جتنا اس خبر کو سن کر مجھے تکلیف ہوئی اور میں رویا۔شیخ صاحب کو کچھ خبر نہیں تھی۔وہاں پر ہمیں ہوائی حملوںکا خطرہ تھا، چنانچہ شیخ صاحب کی حفاظت کے لیے وہاں ہم نے ایک خندق کھدوا کر چٹائیاں ،کمبل ڈال کر شیخ صاحب کے لیے جگہ بنائی ، جسے بعد میں انہوں نے ایک بی بی سی نمائندے کو انٹرویو میں قبر سے بھی تشبیہہ بھی دی۔
وہاں سے ایک رات ہنگامی طورپر شیخ صاحب کو زندگی کا خطرہ بتا کر چشمہ بیراج لے گئے ۔کچھ دن بعد پھر بذریعہ ہیلی کاپٹر ہم دس پندرہ افراد کو سہالہ ریسٹ ہاؤس منتقل کر دیا گیا۔وہاں ڈرائنگ روم کے ساتھی پہلے کمرے میں شیخ صاحب کو منتقل کیا ۔ریسٹ ہاؤس بھی پوری انٹیلی جنس آلات سے لیس تھا جسمیں ٹرانسمیٹر سمیت کئی آلات نصب تھے۔ شیخ مجیب کی تمام نقل و حرکت کی حد درجہ ریکارڈنگ کی گئی ۔
اس بات کا امکان تھاکہ یہاں ذوالفقار علی بھٹو کو آنا تھا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ سہالہ ریسٹ ہاؤس میں شیخ مجیب الرحمٰن اور ذوالفقار علی بھٹو کی تاریخی ملاقات ہوئی ۔
میری ڈیوٹی اس ملاقات کے دوران کمرے کے اندر لگائی گئی تھی ۔اس خدشہ کے تحت کہ کہیں بھٹو صاحب کو کوئی تکلیف نہ پہنچا دی جائے ، میں اُن کے کمرے میں پردے کے پیچھے اس اہم ملاقات کے دوران لوڈڈ ریوالور کے ساتھ کھڑا تھا۔ شیخ مجیب نے ذوالفقار علی بھٹو کودیکھ کر پہلا سوال تو یہ کیا کہ آپ کیسے ہیں ؟پھر حیرت سے یہ پوچھا آپ کو کیسے اجازت دے دی اس ملاقات کی ؟
تو انہوں نے بتایا کہ ’’میں اس وقت چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ہوں‘‘۔ چونکہ وہ اس دوران سارے حالات سے بے خبر تھے اس لیے یہ جواب سن کر انہیں مزید حیرت ہوئی اور انہوں نے پوچھا کہ
تم کیسے ہو سکتے ہو؟تو ذوالفقار علی بھٹو نے اُن پر جوابی بم گرایا کہ ’’ایسٹ پاکستان فال ہو گیا ہے ، بھارت نے فتح کر لیا ہے ۔ ادھر کے پاکستان میں یحییٰ خان سے استعفیٰ لے کر میں نے اقتدارسنبھال لیا ہے ۔شیخ مجیب یہ سب سن کر جیسے اسپرنگ لگا ہوتا ہے وہ اچھل کر کھڑے ہو گئے ۔انہوں نے پوچھا کہ ’’یہ سب کیسے ہو گیا ؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟میں ہوں اکثریت کا منتخب نمائندہ ، تم کیسے وزیر اعظم بن سکتے ہو، یہ میرا حق ہے۔ مجھے ابھی لے کر چلوریڈیو پر ، میں ابھی تقریر کرتا ہوں، میں ابھی بنگال والوں کو کہتا ہوں ، فیصلہ ہو جائے گاصبح پاکستان ویسا ہی ایسٹ پاکستان کی طرح ہو جائے گا ‘‘۔بھٹو صاحب نے کہا ٹھیک ہے کر لیتے ہیں ، دیکھا جائے گا ۔شیخ صاحب نے کہاکہ یا ربھٹو تم نے درست کہا تھاکہ ’’اُدھر تم اور اِدھر ہم ‘‘ یہ تم نے کر دکھایا اب تم خوش ہو۔یہ بات بھی انہوں نے بڑبڑائی کہ مجھے تاج الدین سے یہ خطرہ تھا کہ وہ ضرور ایسا کچھ کرے گا۔بھٹو صاحب تسلی دے کر چلے گئے ۔شیخ مجیب نے بھٹو سے کہاکہ مجھے اخبار، ریڈیو، ٹی وی کی سہولت اور اپنے قریبی دوست ڈاکٹر کمال حسین سے ملاقات کی خواہش کی ۔( ڈاکٹر کمال بھی نوشہرہ میں مقید تھے اور انتخابات کے بعد انتقال اقتدار کے لیے عوامی لیگ کی ٹیم کے اہم رکن تھے )۔بھٹو صاحب نے تمام چیزیں فراہم کر ادیں ۔دوسرے دن آرمی والے ڈاکٹر کمال کو بھی لے آئے ۔ان کے کمرے میں ایک ٹرانسمیٹر میں کچھ تکنیکی مسئلہ ہوا جس کی وجہ سے وہ تبدیل کرنا تھا ۔مگر صورتحال یہ ہو چکی تھی کہ بھٹو صاحب کے جانے کے بعد وہ کمرا بند کر کے چیخیںمار مار کر بہت دیر تک روتے رہے ۔میں نے بڑی مشکل سے منتیں کر کر کے دروازہ کھلوایا، ان کو تسلی دی اور منہ ہاتھ دھونے کے لیے کہا۔اس دوران ٹرانسمیٹر تبدیل کردیا۔ آپریٹر بتاتا ہے کہ اس کے بعد کی ریکارڈنگ میں اُن کی آہ و زاری تھی ، غالباً وہ نماز یا
وہ حالت سجدہ میں روتے روتے یہی پکارتے رہے کہ ’’یا اللہ !یہ میں نے کبھی نہیں چاہا تھا ،یہ سب کیا ہوگیا؟‘‘۔
ڈاکٹر کمال حسین سے مل کر بہت خوش ہوئے اور ریسٹ ہاؤس میں موجود دیگر عملہ کے ساتھیوں سے ملوانے لے گئے وہاں جا کر شیخ مجیب کو پتہ چلا کہ ہم سب فرضی ناموں اور کرداروں کے ساتھ وہاں اینٹلی جنس اسپیشل برانچ کی ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے۔سپرنٹنڈنٹ جیل کا کردارسپرنٹندنٹ اسپیشل برانچ شیخ عبد الرحمٰن ، شیخ جہانگیر کے نام سے ادا کر رہے تھے ۔ اسی طرح خواجہ طفیل بھی ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل کا کردار اسی نام سے نبھا رہے تھے۔پھر شیخ صاحب نے میرے بارے میں استفسار کیا کہ ’’یہ naughty boyکیا ہے ‘‘تو انہیں بتایا گیا کہ میں شاہی قلعہ پولیس برانچ کا ایک سب انسپکٹر ہوں۔ انہوں نے مجھے طلب کیا ۔مجھے شدید شرمندگی تھی ، میں سامنا کرنا نہیں چاہ رہا تھا ۔بہر حال میں چلا گیا ، سامنے جا کر بیٹھا ۔انہوں نے سوال کیا ’’Naughty boy.What’s your name‘‘ میں نے جواب دیا کہ میرا نام انار خان ہے ، تو انہوں نے کہاکہ تم راجہ نہیں ہو؟ میں نے کہانہیں جناب۔ انہوں نے کہا کہ کیا کرتے ہو۔ جب میں نے بتایا کہ میں سب انسپکٹر ہوں شاہی قلعہ پولیس میں تو وہ یکلخت اٹھے اور میرے ہاتھ چوم لیے ۔کہنے لگے میں نے ان ہاتھوں سے کیاکیا کام کرائے ۔ایک بار جب ہم میانوالی میں تھے تو انہوں نے یہ اشارہ ضرور دیا تھا کہ ’’ تم اتنے ان پڑھ آدمی ہو لیکن تمہارے دماغ میں ضرور کچھ ہے۔‘‘
ایک بات یہ بھی کہ جب میں بنگال جاؤں گا تو میں تمہیں ایک بہترین نوکری اور گھر بھی دوں گا۔‘‘