خواجہ سعد رفیق کی گرفتاری،انتقام یا قانون کی حکمرانی …..؟

قومی احتساب بیورو (نیب) نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دو رہنمائوں خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کو لاہور ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کرلیا ہے۔ انہیں پیراگون ہائوسنگ اسکیم میں مالی مفادات حاصل کرنے پر اُس وقت گرفتار کیا گیا جب لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے اُن کی درخواست ضمانت قبل ازگرفتاری منسوخ کردی۔ منگل کے روز جب لاہور ہائی کورٹ کے باہر سے مسلم لیگی کارکنوں کی شدید نعرے بازی کے دوران خواجہ برادران کو گرفتار کیا جارہا تھا، اُن ہی لمحات میں نیب نے یہ بیان میڈیا پر جاری کردیا تھا کہ سابق وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگ زیب کے خلاف ذرائع سے زائد آمدن رکھنے کے الزام میں انکوائری شروع کردی گئی ہے۔ انہیں اس معاملے میں سوالنامہ جاری کرنے کے علاوہ نیب میں طلب کیا جائے گا، نیز اُن سے سرکاری اشتہارات کے بارے میںبھی پوچھ گچھ کی جائے گی۔ منگل ہی کے روز صبح کے وقت پنجاب اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف حمزہ شہباز کو دوحہ جانے والی فلائٹ میں سوار ہونے سے روک دیا گیا۔ ابھی تک یہ تو معلوم نہیں ہوسکا کہ اُن کا نام ای سی ایل میں شامل ہے یا نہیں، لیکن اس سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ جن الزامات میں نیب اُن سے تفتیش کررہا ہے اُن میں کسی بھی وقت ان کی گرفتاری ہوسکتی ہے، اور شاید اسی سے بچنے کے لیے وہ بیرونِ ملک جانا چاہ رہے ہوں، جب کہ نیب یا تو اہم نوعیت کی تفتیش کے لیے انہیں ملک میں رکھنا چاہتا ہے یا پھر جلد اُن کو گرفتار کرنے والا ہے۔ اس طرح اگر ان کی گرفتاری ہوجاتی ہے تو قائد حزبِ اختلاف میاں شہبازشریف کے بعد پنجاب میں قائد حزبِ اختلاف حمزہ شہباز بھی جیل میں ہوں گے، جو شاید ملکی تاریخ کا پہلا واقعہ ہوگا جب وفاقی اور سب سے بڑے صوبے کے قائد حزبِ اختلاف جیل میں ہوں گے۔
خواجہ سعد رفیق اور اُن کے بھائی خواجہ سلمان رفیق دونوں کی گرفتاری کے وقت لاہور ہائی کورٹ کے اردگرد سیکورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد موجود تھی، جب کہ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کی بھی معقول تعداد پہنچی ہوئی تھی۔ دو رکنی بینچ کے سامنے سماعت شروع ہوئی تو خواجہ برادران کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کچھ وقت لینے کی کوشش کی اور عدالت سے نئی تاریخ دینے کی استدعا بھی کی۔ عدالت اس کیس میں دونوں بھائیوں کی ضمانت قبل ازگرفتاری میں غالباً تین بار توسیع کرچکی تھی۔ چنانچہ عدالت نے نیب پراسیکیوٹر اور ملزمان کے وکیل سے کہا کہ وہ آج ہی اپنے دلائل مکمل کریں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ دورانِ سماعت نیب پراسیکیوٹر نے ایک سربمہر لفافہ معزز عدالت کے روبرو پیش کیا جس میں پراسیکیوٹر کے مطابق ملزمان کے خلاف معقول ثبوت اور اس کیس میں گرفتار ملزم قیصر امین بٹ کا دفعہ 64 کا بیان شامل ہے جس میں اس نے دونوں ملزمان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کی درخواست کی تھی۔ جس پر عدالت نے دونوں بھائیوں کی ضمانت منسوخ کردی۔ سماعت ملتوی ہونے پر عدالت میں موجود نیب اہلکاروں نے انہیں گھیرے میں لے لیا، تاہم باہر نکل کر خواجہ سعد رفیق نے نعرے لگائے اور مسلم لیگی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم گرفتاری کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں کریں گے اگرچہ نیب ہمارے خلاف کوئی ثبوت عدالت میں پیش نہیں کرسکا ہے۔ دورانِ سماعت خواجہ برادران کے وکیل نے نیب کے سربمہر لفافے میں پیش کردہ ثبوت کی کاپی فراہم کرنے کی درخواست کی، لیکن نیب نے اُس کی مخالفت کی۔ گرفتاری کے بعد سابق وفاقی وزیر اور قومی اسمبلی کے منتخب رکن خواجہ سعد رفیق اور اُن کے چھوٹے بھائی سابق صوبائی وزیر اور موجودہ پنجاب اسمبلی کے رکن خواجہ سلمان رفیق کو گرفتار کرکے نیب حوالات پہنچادیا گیا۔
اس گرفتاری سے کوئی ایک ہفتہ قبل شادی کی ایک تقریب میں خواجہ سعد رفیق سے ملاقات ہوئی تو اگرچہ وہ پورے حوصلے میں تھے، تاہم انہیں اندازہ تھا کہ انہیں گرفتار کرلیا جائے گا۔ جبکہ ہفتہ کے روز مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ میں جنید جمشید مرحوم کی برسی کے موقع پر ہونے والی تقریب میں خواجہ سلمان رفیق نے ایک عاجز مسلمان کے انداز میں بڑی رقت آمیز تقریر کی تھی۔ تقریر کے دوران جنید جمشید کا تذکرہ کرتے ہوئے… جن سے اُن کی انجینئرنگ یونیورسٹی سے اُن کی موت تک دوستی تھی، دونوں نے عمرہ اکٹھا کیا اور ان کی حادثاتی موت کے بعد اُن کی تدفین کے انتظامات میں بھی وہ شریک رہے… وہ ایک بار اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔ تقریب کے بعد چیئرمین ٹرسٹ جناب خالد محمود کے کمرے میں جانے پر اُن کے ساتھ خاصی طویل نشست رہی۔ اگرچہ اس موقع پر اس موضوع پر تو کوئی گفتگو نہ ہوسکی، تاہم حالات سے مایوسی اُن کی گفتگو میں بہت نمایاں تھی۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ وہ سیاست چھوڑنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں کیونکہ موجودہ نظام میں عام آدمی کی بہتری کے امکانات نہیں ہیں، اور بدقسمتی سے ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں کسی حقیقی تبدیلی کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ یا تو اب دینی کام کریں گے یا پھر کسی تھنک ٹینک کے لیے کام کرنا چاہیں گے۔ اس گفتگو کے تین دن بعد اُن کی گرفتاری ہوگئی۔ ان تین دنوں میں تو شاید وہ کسی فیصلے پر نہ پہنچ سکے ہوں، مگر اب جیل میں انہیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے خاصا وقت مل جائے گا۔ شاید وہ اس دوران کوئی فیصلہ کرلیں اور جیل سے واپسی پر کسی نئی سمت کی جانب رواں دواں ہوجائیں۔
ایک ہی دن میں خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کی گرفتاری، حمزہ شہباز کو جہاز سے آف لوڈ کرانے اور مریم اورنگ زیب کے خلاف نیب تحقیقات کا آغاز کرنے کے فیصلے ایسے اقدامات ہیں جن پر مسلم لیگ (ن) اور حکمران جماعت کے ردعمل بھی سامنے آچکے ہیں۔ انتقام کا تاثر اُبھر رہا ہے،جب کہ دوسری جانب اس طرح کے اقدامات سے قانون کی حکمرانی کا تصور اُبھرے گا کہ اگر شہبازشریف، حمزہ اور خواجہ برادران گرفتار ہوسکتے ہیں تو کوئی بھی گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ ان ہی سیاسی حلقوں کی رائے میں ان حکومتی اقدامات سے خوف کی فضا پیدا ہوگی جس کی وجہ سے جہاں غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں ہوسکے گی، نیب کی کارروائیوں کے باعث انسانی حقوق کی پامالی کا تصور اُبھرے گا اور بیرونی دنیا میں ملک کا امیج مزید خراب ہوجائے گا۔ یہی نہیں بلکہ دوچار سال بعد خود نیب ایک متوازی حکومت کی شکل اختیار کرجائے گا۔ جبکہ اب تک کی نیب کی کارکردگی سے ثابت ہورہا ہے کہ یہ ادارہ محض میڈیا ٹرائل کررہا ہے، ریفرنسز اور کیسز کو ثابت کرنے کی اس میں اہلیت ہی نہیں ہے۔ وہ بیشتر معاملات میں عدلیہ سے جھاڑیں کھاتا نظر آتا ہے۔ اس دبائو میں وہ اپنی کارروائیاں تیز کرے گا تو زیادہ غلطیاں کرے گا۔ عدلیہ زیادہ گرفت کرے گی تو دو ادارے آمنے سامنے آسکتے ہیں جو کسی طرح خوش کن نہیں ہے۔ لوگوں کو عدالتوں سے ریلیف ملے گا تو نیب اپنا پروپیگنڈا تیز کردے گا، ریلیف نہیں مل سکے گا تو نیب کا ایک ظالمانہ چہرہ عوام کے لیے خوف کی علامت بن جائے گا اور حکومت کے بارے میں یہ تاثر مضبوط ہوگا کہ وہ انتقامی کارروائیوں میں مصروف ہے۔ ایسا تاثر کسی طرح بھی موجودہ حکومت اور ملک کے مفاد میں نہیں۔