بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی بلوچستان کی دو بڑی قوم پرست جماعتیں ہیں۔ دونوں کا سیاسی حلقہ اثر بلوچستان کے بلوچ اضلاع و آبادی والے علاقے ہیں۔ یہ جماعتیں ایک دوسرے کی مخالف ہیں۔ 2013ء کے عام انتخابات میں نیشنل پارٹی نے سبقت حاصل کی تھی، جبکہ بی این پی کے دو امیدوار بلوچستان اسمبلی کے رکن بنے تھے جن میں ایک خود سردار اختر مینگل تھے۔ اس کے برخلاف 2018ء کے عام انتخابات میں نیشنل پارٹی کا تو بالکل صفایا ہوگیا، جبکہ بی این پی بڑی پارلیمانی جماعت بن گئی۔ دونوں جماعتوں کے درمیان نوک جھونک ہوتی رہتی ہے۔ حلقہ پی بی47کیچ 3 پر 6 دسمبر 2018ء کے ضمنی انتخاب میں بھی دونوں جماعتیں ایک دوسرے پر گرجتی برستی رہیں۔ اس حلقے سے عام انتخابات میں بلوچستان عوامی پارٹی کے رکن اسمبلی عبدالرؤف رند کامیاب ہوئے تھے جنہیں سپریم کورٹ نے دہری شہریت پر نااہل قرار دے دیا تھا۔ ضمنی انتخاب میں دوبارہ بلوچستان عوامی پارٹی کو کامیابی ملی اور لالہ عبدالرشید رند رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے۔ انتخابی مہم کے دوران30 نومبر کو تربت کے علاقے ’’کھڈان دشت‘‘ میں انتخابی جلسے سے ڈاکٹر عبدالمالک اور سینیٹر میر حاصل خان بزنجو نے خطاب کیا۔ اس جلسے میں ان رہنمائوں کا کہنا تھا کہ ’’وفاقی حکومت کی جانب سے فیڈرل پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے ترقیاتی فنڈز کی مد میں مختص 375 ارب روپے کی کٹوتی دراصل وفاقی حکومت کی جانب سے اپنی اتحادی جماعت (بی این پی) کے منہ پر سیاسی طمانچہ سے کم نہیں۔ بلوچستان کے ساتھ روا رکھے گئے اس ظلم و زیادتی اور امتیازی سلوک کی ذمہ دار بلوچستان کی یہی جماعت اور اس کا لیڈر ہے جو خود کو قومی مفادات کا نگہبان اور چیمپئن گردانتا ہے‘‘۔ حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ ’’جب ہم نے نیشنل پارٹی تشکیل دی تو ایک صاحب نے اخبار کا اجراء کیا، لوگوں نے اُن سے پوچھا کہ آپ اخبار کیوں نکال رہے ہیں؟ تو انہوں نے جواب میں کہا کہ کچھ لوگوں کو بے عزت کرنے کے لیے نکال رہا ہوں۔ موصوف نے اخبار کو ہماری نوتشکیل شدہ جماعت کے خلاف ایک آرگن کے طور پر بھرپور استعمال کیا۔ اخبار ہمارے خلاف روزانہ ایک درجن فتوے صادر کرتا تھا۔ ذی شعور کارکنان خود فیصلہ کریں کہ محض وقتی سیاسی مفادات کے حصول کے لیے اسٹوڈنٹس اور یوتھ کے جذبات سے کھیل کر انہیں انتہا پسندی کی جانب راغب کرکے ریاست کے خلاف بندوق ہاتھ میں تھما دینے کے بعد یہ اعلان کرتا ہے کہ بلوچوں نے پارلیمنٹ اور الیکشن کا بائیکاٹ کرکے اچھا نہیں کیا، لہٰذا مجھے ووٹ دیں تاکہ میں پارلیمنٹ جاسکوں۔ اس جماعت کے سربراہ (سردار اختر مینگل) نے کسی جلسے میں میرا نام پکار کر کہا تھا کہ حاصلؔ اب سیاسی مفادات کے لیے نہیں بلکہ قومی مفادات کے لیے اتحاد کروں گا، اور اتحاد اب بلوچستان کے پہاڑوںمیں ہوگا۔ مگر میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ جو مولانا فضل الرحمان کے ساتھ آپ کا اتحاد ہے، کون سے قومی مفادات کے تحت ہے؟ کل بھی نشستوں اور اقتدار کے لیے آپ نے سیاسی اتحاد و انضمام کیا تھا، اور آج بھی اقتدار کی غلام گردشوں کا خواب ہے۔ آپ کبھی ’’باپ‘‘ (بلوچستان عوامی پارٹی) کی تخلیق میں کردار ادا کرتے ہیں تو کبھی جے یو آئی کے محتاج بن جاتے ہیں۔ تاریخ یہ کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتی کہ آپ ’’باپ ‘‘ کے خالق ہیں۔‘‘ (یکم دسمبر 2018ء)
اس کے جواب میں 2 دسمبر 2018ء کے اخبارات میں بلوچستان نیشنل پارٹی کا جواب چھپا جس میں کہا گیا کہ ’’سابق حکمران جماعت (نیشنل پارٹی) کی جانب سے بی این پی کی انتخابی مہم کے خلاف کھڈان دشت میں منعقدہ عوامی اجتماع میں سینیٹر حاصل خان بزنجو کی تقریر سے ثابت ہوتا ہے کہ نیشنل پارٹی بوکھلاہٹ میں سیاسی اخلاقیات اور بلوچی روایات کو روندنے میں کوئی عار محسوس نہیںکرتی۔ اقتدار چھن جانے کے بعد عقل وشعور سمیت اُن کی یادداشت نے بھی ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ روزنامہ ’’آساپ‘‘اخبار کے خلاف زہراگلنا ان کی صحافت اور علم وادب دشمنی کی زندہ مثال ہے۔ ہمیں وہ دن بھی یاد ہے جب بی این پی کے ایک ’’تنگ عقل‘‘ لیڈر نے تربت میں اخبار کے بنڈل ہاکروں سے چھینے تھے، اور یہی رونا رویا گیا تھاکہ اخبار کیوں ہم پر تنقیدکرتا ہے، نیشنل پارٹی کے سیاہ کارناموں کوسفید کیوں نہیںکہتا، ہمیںقوم پرستی کا تاج کیوں نہیں پہناتا۔ حالانکہ اس اخبار نے بلوچستان میں صحافت کی عظیم روایات کو زندہ کیا اور سیکڑوں نوجوانوں کی تربیت کی جو آج مختلف تنظیموں کے پلیٹ فارم سے بلوچ اور بلوچستان کے مسائل کو دنیا بھر میںاجاگرکررہے ہیں۔ حلقہ پی بی 47کیچ III مند، دشت اورگوکدان کی نشست پرنیشنل پارٹی اپنی شکست دیکھ چکی ہے۔ نیشنل پارٹی کے موجودہ صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے الفاظ ’’ٹیرتگ، دریپگ ئُُ بٹاک جَنَگ بلوچ ئِ نفسیات ئَ مان انت‘‘بلوچوں کے حافظے میں محفوظ ہیں، اور جس کا بدلہ بلوچوںنے 25 جولائی کے عام انتخابات میں نیشنل پارٹی کو پورے بلوچستان میں عبرت ناک شکست دے کر لے لیا ہے۔ ڈاکٹرمالک بلوچ کی وزارتِ اعلیٰ کے دور میں کتابوں پر چھاپے پڑے اور بلوچی زبان کی کتابوں اور رسالوں کو اسٹالوں اور دکانوںسے اٹھوایا گیا، اس ’’کارنامۂ سیاہ‘‘ کو بلوچ نہیں بھولے ہیں۔ بی این پی مرکزی حکومت کا حصہ ہے اور نہ ہی حکومتی بینچوں پر بیٹھی ہے، بی این پی کے مرکزی صدر اور قائد سرداراخترجان مینگل کا قومی اسمبلی میںکردارکھلی کتاب کی مانند ہے۔ انہوں نے بلوچستان کے عوام کے حقوق کی آواز واضح طور پر اٹھائی ہے۔ بلوچستان کے لاپتا افرادکا مسئلہ ہو، اسمبلی کے اختیار کا مسئلہ ہو یا گوادرکا مسئلہ… سب پر پارٹی مؤقف واضح ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ نیشنل پارٹی کے رہنما اپنے دورِ حکومت کو بھول گئے جب ان کے وزیراعلیٰ نے اندھوں کی طرح چائنا میںگوادر معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے گوادر کا سودا کیا۔ اقتدار چھن جانے کے بعد انہیں اب گوادر اور ایسٹ بے ایکسپریس وے یادآرہا ہے۔ انہی معاہدات اور وطن فروش اقدامات نے آج گوادرکے ماہی گیروںکو نانِ شبینہ کا محتاج بنادیا ہے۔ انہی عوام دشمن اقدامات کی وجہ سے عوام نے انہیںالیکشن میں شکستِ فاش سے دوچارکیا اور نیشنل پارٹی کو پورے بلوچستان میں ایک سیٹ بھی نہیںملی۔ نیشنل پارٹی نے وڈھ کے حالیہ ضمنی الیکشن میں شفیق مینگل کی حمایت تک سے گریز نہیںکیا، وہ ’’توتک‘‘ کی اجتماعی قبر کو بھول گئے، شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار رہے۔ ان کے دورِ حکومت میں نااہلی کا یہ عالم تھاکہ بجٹ کو استعمال نہ کرسکے۔ ان کے دورِ حکومت میں اقرباپروری اور کرپشن اپنے عروج پر تھی۔ عام انتخابات میں حلقہ پی بی 45 بلیدہ، ہوشاپ اور زامران میں نیشنل پارٹی نے کس پارٹی کی حمایت میں اپنے امیدوار کو بٹھایا؟ اور الیکشن کے دوران ان کے موجودہ سیکریٹری جنرل نے تربت میں اپنے آبائی حلقے میں اپنے امیدوار کے حق میں الیکشن مہم چلانے کی زحمت گوارا نہ کی۔ پی بی 45 میں نیشنل پارٹی کے قائدین نے باپ پارٹی کی بھرپور حمایت کی اور ان کی انتخابی مہم چلائی، لیکن ان کا گناہ نہیں کہ نیشنل پارٹی کے لیڈران کو بھولنے کی عادت ہے۔‘‘
3 دسمبر 2018ء کو اخبارات میں نیشنل پارٹی نے اس کے جواب میں ایک اور بیان جاری کیا کہ ’’کھڈان جلسہ عام میں حقائق بیان کرنے پر لاڈلے سیخ پا ہوگئے اور حقیقت چھپانے کے لیے اخلاقیات اور سیاسیات کی تمام حدیں پارکرگئے۔ ابھی تو ابتدا ہے، ہم نے اشاروں اور کنایوں میں بات کی ہے، جبکہ پوری حقیقت عوام کے سامنے آنے پر کیا حال ہوگا! اگر بی این پی بلوچستان کے مفادات کی نگہبانی کررہی ہے تو بلوچستان کے پروجیکٹس کیوں پی ایس ڈی پی سے نکالے جارہے ہیں، 18ویں ترمیم کے خلاف محاذ کیوں بنایا گیا ہے، لاپتا افراد میں اضافہ کیوں ہورہا ہے، قبائلی مسئلے کو ہوا دے کر سیاسی مسئلہ کیوں بنایا جارہا ہے؟ نیشنل پارٹی اور اس کی اتحادی حکومت کی بدولت بلوچستان میں امن کا سورج طلوع ہوا، ورنہ اس سے قبل تو موصوف اپنی پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل کی فاتحہ خوانی کے لیے بھی نہیں آسکے۔ نیشنل پارٹی کی قیادت کی علمی، ادبی اور صحافتی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، بلوچستان کے تمام تعلیمی اور ادبی ادارے اس کا ثبوت ہیں۔‘‘
غرض یہ جماعتیں ضمنی انتخاب کے دوران آپس میں اُلجھی رہیں اور کامیابی ایک غیر سیاسی گروہ بلوچستان عوامی پارٹی کو ملی۔