یہ بات ہمیں ہمیشہ اپنے ذہن میں واضح رکھنی چاہیے کہ ملک کی داخلی سیاست، علاقائی تنازعات اور عالمی کش مکش آپس میں باہم منسلک ہیں۔ جس طرح قومی زندگی مختلف شعبوں میں تقسیم ہونے کے باوجود یہ شعبے ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں، اسی طرح عالمی تناظر کے بغیر ہم قومی زندگی کے اصل رخ کو نہیں دیکھ سکتے۔ پاکستان میں حکومتوں کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تعلق بھی اسی بات سے جڑا ہوا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ فوجی آمریتوں کی حکمرانی کی تاریخ ہے۔ پاکستان میں جمہوریت اگر آتی ہے تو اس کا بھی ایک عالمی تناظر ہے۔
اس لیے نئی حکومت کے ساتھ بھی سب سے بڑا چیلنج علاقائی اور عالمی سیاست ہے۔ حکومت کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرے یا نہیں۔ اسی طرح ’’وار آن ٹیرر‘‘ کے حوالے سے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات ہیں جس نے ہماری داخلی قومی زندگی کو بری طرح تباہ کردیا ہے۔ آئی ایم ایف سے نیا قرض لیا جائے گا یا نہیں، اس کا ابھی تک تو کوئی فیصلہ ہو نہیں سکا ہے، لیکن روپے کی قیمت میں کمی اور ڈالر کی قدر میں غیر معمولی اضافے نے اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کردیا ہے۔ توانائی کا بحران بڑھتا جارہا ہے۔ اس بات پر قومی اتفاقِ رائے ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی کا فقدان ہے، اور ریاست کے تمام ستون کرپشن اور بدعنوانی میں لتھڑے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے زندگی کے ہر شعبے میں عملاً ایک مافیا حکمران ہے۔ قومی زندگی میں مافیا کی حکمرانی اور طاقت کے وجود کا مطلب یہ ہے کہ ہم قومی سطح پر اخلاقی بحران کا شکار بھی ہیں۔ اسی طرح حکمران جماعت کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف تحریک چلا کر حکومت میں آئی ہے، لیکن غیر جانب دار اور شفاف احتساب کی طرف ابھی تک پہلا قدم بھی نہیں اٹھایا جا سکا ہے۔ عالمی تناظر میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کیسے ہیں؟ پاکستان امریکی وار آن ٹیرر کا اتحادی بنا جس کے بارے میں وزیراعظم عمران خان نے درست الفاظ استعمال کیے ہیں کہ اب ہم کرائے کے سپاہی نہیں بنیں گے۔ انہوں نے خوش خبری سنائی ہے کہ اب امریکہ ہمیں ’’ڈومور‘‘ کہنے کے بجائے ہماری بات سننے لگا ہے۔ لیکن یہ تاثر حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ امریکہ نئے انداز سے پاکستان پر اپنا دبائو ڈال رہا ہے۔ ماضی کی طرح ہمیں اب بھی یقین نہیں ہے کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ اب بھی قومی خودداری کے مطابق اپنا کردار ادا کررہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکمراں طبقات کو دو بیماریاں لگی ہوئی ہیں: ایک خوف اور دوسری طمع و لالچ۔ ان اخلاقی بیماریوں کے ساتھ قومی قیادت کے فرائض ادا نہیں ہوسکتے۔ تبدیل شدہ حالات یہ ہیں کہ دنیا کی سب سے غریب اور پسماندہ قوم افغانوں نے دنیا کی سب سے بڑی طاقت کو شکست دی ہے۔ اس شکست نے عالمی منظرنامے کو تبدیل کیا اور چین نئی عالمی طاقت بن کر ابھرا ہے۔ اس تبدیلی نے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی قیادت میں چین کو نیا شراکت دار بنادیا ہے۔ اس شراکت داری نے چین کے علاقائی کردار کو عالمی کردار میں بدل دیا ہے۔ عالمی سرمایہ داری کا مرکز یورپ و امریکہ سے ایشیا منتقل ہوگیا ہے۔ اس خطے میں عالم اسلام کو مرکزیت حاصل ہے۔ چین کا ون روڈ ون بیلٹ منصوبہ عالمی سرمایہ داری نظام کی قیادت کی تبدیلی کا اشارہ ہے، جس کا ایک حصہ سی پیک ہے۔ اسی وجہ سے سی پیک کو خطے میں ’’گیم چینجر‘‘ قرار دیا گیا ہے اور بجا طور پر قرار دیا گیا ہے۔ عالمی نظام میں تبدیلی کی وجہ سے پاکستان کے لیے نئے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ اس کا اثر پاکستان کی داخلی سیاست پر بھی پڑ رہا ہے۔ اس تناظر میں نئے انداز سے امریکی دبائو سامنے آئے گا۔ اس کے دو مظاہر ہیں، آئی ایم ایف سے قرض کے لیے پاکستان کے مذاکرات آخری مرحلے پر ہیں، آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرض دینے کا فیصلہ امریکی منظوری سے مشروط کردیا ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقات کی طرف سے اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ملا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے در پر نہیں جائیں گے۔ علاج کی کڑوی گولی کے نام پر ایسے فیصلے آگئے ہیں جن کی ہلاکت خیزی کو عوام الناس بھگت رہے ہیں۔ بجلی، گیس، پیٹرول کے نرخوں میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ ڈالر کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ یہ اقدامات اس بات کی چغلی کھا رہے ہیں کہ ہمارے حکمران طبقات قوم کو خواب میں مبتلا کرکے خوئے غلامی کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی کے ساتھ جو ایک اور فیصلہ امریکہ کی طرف سے آیا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان اُن ممالک کی فہرست میں شامل کردیا گیا ہے جہاں اقلیتوں کی آزادی سلب کی جاتی ہے۔ اس فیصلے کا اعلان امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے کیا ہے اور اپنے مخالف ممالک کے ساتھ پاکستان کو بلیک لسٹ کردیا ہے۔ یہ فیصلہ بھی پاکستان پر دبائو کی صورت ہے، اس کا کوئی تعلق اقلیتوں کے تحفظ سے نہیں ہے۔ اسی طرح منی لانڈرنگ کے حوالے سے ایف اے ٹی ایف کا مسئلہ پہلے سے موجود ہے۔ ہمیں ایسے کوئی اشارے نظر نہیں آئے جن سے ظاہر ہو کہ پاکستان کی حقیقی اور مصنوعی قیادت بڑی طاقتوں کے سامنے کھڑے ہونے کی جرأت رکھتی ہے، البتہ قوم کو ضرور فریب میں مبتلا کرسکتی ہے۔