نام کتاب: نِکات (تنقیدی مضامین )
مصنف: ڈاکٹر تحسین فراقی
صفحات: 274 قیمت300روپے
ناشر: ڈاکٹر تحسین فراقی، ناظم، مجلسِ ترقی ادب کلب روڈ، لاہور۔
فون نمبر:042-99200856 99200857
ای میل:maglista2014@gmail.com
ویب گاہ: www.mtalahore.com
محترم ڈاکٹر تحسین فراقی اردو کے مایہ ناز استاد، ادیب اور محقق ہیں۔ ان کی بے شمار تحریریں کتب اور مقالات و مضامین کی شکل میں زبانِ اردو کی شان بڑھاتی ہیں۔ زیرنظر کتاب قیمتی مقالات اور مضامین کا مجموعہ ہے جو اردو کے تنقیدی ادب میں وقیع اضافہ ہے۔ عمدہ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب فارسی اور فارسی ادب سے بخوبی آگاہ ہیں۔ صدیوں سے ہمارے اہلِ علم عربی، فارسی اور مقامی زبانوں کے ماہر ہوتے تھے، ان زبانوں سے اردو کا چولی دامن کا تعلق ہے۔ اس روایت کے کمزور ہونے سے ہمارے معاشرے پر جو برے اثرات پڑے وہ مخفی نہیں ہیں۔ فارسی اور ایرانی اثرات ہماری زبان پر بہت گہرے ہیں۔ آغا شورش کاشمیری مرحوم نے اس سلسلے میں ایک جگہ لکھا ہے:
’’ہمارا ذہنی اور ادبی ورثہ بڑی حد تک فارسی زبان و بیان کی بوقلمونیوں کا اثر لیے ہوئے ہے۔ خصوصیت سے ہمارے فنونِِ لطیفہ پر ایرانی اثر کی چھاپ بہت زیادہ ہے۔ ہمارا ادب ابتدا سے لے کر اپنے اس دور تک ایرانی تصورات و خیالات کا گہوارہ رہا ہے۔ حتیٰ کہ ہم نے شاعری میں بعض ایسے احساسات کو بھی قبول کیا جن کی دلکشی سے مفر نہ تھا، لیکن ان کا اپنا وجود خود پاکستان و ہندوستان میں نہیں تھا۔ مثلاً بلبل۔ ہماری شاعری نے گل و بلبل کی روایتیں ایران کی پُربہار شاعری اور اس کے زندۂ جاوید شاعروں سے حاصل کیں۔ اسی طرح شیریں فرہاد کا افسانہ اور اس سے وابستہ تلمیحات و اشارات۔ ہماری موسیقی پر ایرانی سُروں اور دھنوں کی چھاپ لگی ہوئی ہے۔ بلکہ ہمارا علمِ موسیقی اپنی اصطلاحات وغیرہ کے اعتبار سے سراسر ایرانی ہے۔ گلستان، بوستان اور دیوانِ حافظ کو ہمارے ملک میں جو مقام و مرتبہ حاصل ہے وہ ظاہر و باہر ہے۔ پاکستان میں اسلامی ادب کے فہم و ذکا کا آغاز اس لافانی لٹریچر سے ہوتا ہے۔ سیکڑوں محاورے، الفاظ، روزمرے ایسے ہیں جو ہم اپنی ثقافتی اور تہذیبی زندگی کے اظہار کے لیے نسلاً بعد نسلِِ نوکِ زبان رکھتے ہیں، اور اس بے تکلفی سے ہمارے گھروں، محفلوں، جلسوں، بازاروں اور انسانوں میں بولے جاتے ہیں کہ جیسے ہماری زبان نے انہیں اپنے سانچوں میں ڈھالا ہے۔‘‘
یورپ میں ہر استاد پانچ، سات، دس زبانیں جانتا ہے اور اس ذریعے سے متعلقہ معاشروں کے علوم، فنون و ادب سے آگاہ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی زبان شناسی کی تحریک چلنی چاہیے اور اساتذہ اور اہلِ علم کو کم از کم عربی اور فارسی سے تو آگاہ ہونا چاہیے۔ انگریزی کے ساتھ جرمن اور فرنچ بھی آنی چاہیے۔ خیر، کتاب کا تعارف ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب نے بطریقِ احسن کرایا ہے، ہم اسی کو درج کرتے ہیں:
’’قبل ازیں میری کم و بیش بارہ تنقیدی کتابیں شائع ہوچکی ہیں (متعدد مرتّبات، تراجم اور شعری مجموعے ان کے علاوہ ہیں)۔ پیش نظر مجموعۂ مقالات ’’نِکات‘‘ اس سلسلے کی تیرھویں کڑی ہے۔ اس کے مشمولات کو چار حصوں (الف) نقش ہائے رنگ رنگ، (ب) رشحات، (ج) فسون و افسانہ، (د) تجزیے کے عنوانات کے تحت مرتب کیا گیا ہے۔ یہ مقالات اور تجزیے زیادہ تر پچھلے سترہ اٹھارہ برس کے عرصے میں لکھے گئے اور ان کا دورانیہ 2000ء سے 2016ء تک ہے۔ استثنا صرف ایک مقالے: ’’اردو ادب پر نظامی گنجوی کے اثرات‘‘ کا ہے، جو دانش گاہِ تبریز کے زیراہتمام منعقدہ کُنگرۂ بین المللی نظامی کے لیے جون 1991ء میں لکھا گیا۔
پہلے حصے کے تمام مقالات کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے ایران و ایرانیات سے ہے۔ اس کا ایک سبب فارسی ادبیات، نیز برعظیم میں صدیوں سے پھیلے فارسی ادب سے میری قلبی اور فکری و جذباتی وابستگی رہا ہے۔ میرا ایقان ہے کہ فارسی ادبیات سے گہری وابستگی اور اس کے فہم و انجذاب کے بغیر ہماری تخلیقی و انتقادی کاوشیں عموماً ادھوری اور یک رُخی رہ جاتی ہیں۔ اردو ادب نے فارسی کے بیسیوں اسالیب کو اپنایا اور انہیں بڑی خوبی سے جذب کیا ہے۔ ہمارے سیکڑوں محاورے، ضرب الامثال، افعال، مرکبات، روزمرے اور اظہاری سانچے فارسی زبان و ادب سے فیض یافتہ ہیں۔ سیکڑوں نثری کارنامے فارسی سے براہِ راست ترجمہ ہوکر ہمارے ہاتھ آئے ہیں۔ عطار، سنائی، رومی، سعدی، حافظ، جامی، نظیری، صائب اور متعدد دیگر اساطینِ شعرِ فارسی جتنے ایران کے ہیں اتنے ہی ہمارے بھی ہیں۔ ان سے صرفِ نظر ایک بے مثال نادر اخلاقی، عرفانی اور غنائی سرمایے سے محرومی کے مترادف ہے۔
پہلے حصے کے پانچ مقالات میں سے چار بعض قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں اور علمی مذاکروں میں پڑھے گئے۔ البتہ ’’امیر مینائی کی فارسی شاعری‘‘ دراصل امیر مینائی کے منحصر بہ فرد فارسی دیوان کی تدوین کے ضمن میں لکھے گئے میرے مقدمے کا نظرثانی شدہ روپ ہے۔ اس مقالے کا ممتاز ایرانی دانش ور محمد حسین تسبیحی فارسی میں ترجمہ کرچکے ہیں جو عنقریب مجلہ ’’دانش‘‘ اسلام آباد میں شائع ہوگا۔
’’علامہ شبلی کا ایک ایرانی مداح و مترجم‘‘ پنجاب پبلک لائبریری لاہور کے زیراہتمام منعقدہ ایک روزہ قومی سیمینار میں پڑھا گیا۔ میرا خیال ہے کہ شبلی کی زندگی کے بعض علمی و تخلیقی پہلوئوں کا جیسا جیتا جاگتا نقشہ معروف ایرانی دانش ور اور شبلی کے صحبت نشین فخر داعی گیلانی نے کھینچا ہے اس کی نظیر ’’شبلیات‘‘ میں نایاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ مقالہ پورے برعظیم میں بڑی دلچسپی سے پڑھا گیا اور اسے ہمارے فاضل معاصر ڈاکٹر ظفر احمد صدیقی نے اپنی ضخیم مرتّبہ کتاب ’’شبلی شناسی کے اوّلین نقوش‘‘ (دارالمصنفین اعظم گڑھ) میں شامل کیا۔ یہی مقالہ ’صحیفہ‘ کے شبلی نمبر میں بھی شامل ہوا اور اب نظرثانی کے بعد شاملِ کتاب ہے۔
’’عبرۃ الغافلین اور سودا کے شعری تصورات‘‘، سودا کے ایک نسبتاً کم معروف مگر بہت اہم فارسی نثری رسالے ’’عبرۃ الغافلین‘‘ کے مطالعے پر مبنی ہے۔ اس مختصر تحریر سے سودا کے توانا شعری تصورات اور اعلیٰ درجے کی سخن فہمی کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ مقالہ غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار میں پڑھا گیا۔ یادش بخیر اس سیمینار میں متعدد بلند پایہ اہلِ علم نے شرکت کی تھی جن میں ڈاکٹر نذیر احمد، رشید حسن خاں، نثار احمد فاروقی، حنیف نقوی، ڈاکٹر خلیق انجم اور دیگر بہت سے اہلِ علم کے نام میرے حافظے میں ہیں۔ پاکستان سے نظیر صدیقی، ایوب مرزا اور مَیں اس علمی مذاکرے میں شریک ہوئے تھے۔ میرا مقالہ بعد ازیں غالب انسٹی ٹیوٹ کے مجلے ’’غالب نامہ‘‘ میں مقالۂ افتتاحیہ کے طور پر شائع ہوا۔
’’ایران اور پاکستان کے ثقافتی مشترکات‘‘ نامی مقالے کے ضمن میں مَیں نے خود کو صرف ادب تک محدود رکھا ہے۔ یہ مقالہ ایرانی قونصلیٹ اسلام آباد کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ایک روزہ یادگار کانفرنس میں فروری 2002میں پڑھا گیا اور بعد ازاں اورینٹل کالج کے شعبۂ اردو کے زیراہتمام شائع ہونے والے مجلہ ’بازیافت‘ کے اولین شمارے میں شائع ہوا۔ اس مقالے میں فارسی اور ادب کے ہمہ گیر مشترکات کا اجمالی مگر غور طلب جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ فارسی ادب اور اس کی شاعری اردو ادب کے عروق و جوارح میں لہو کی طرح رواں دواں رہی ہے۔ اس حقیقت سے انکار دراصل اپنے پورے کلاسیکی ادب پر ایک بڑا سوالیہ نشان قائم کرنے کے مترادف ہے۔
’’نِکات‘‘ کے دوسرے حصے ’’رشحات‘‘ کے مشمولات بھی قارئین کے لیے یقیناً قابلِ توجہ ہوں گے۔ ان مقالات میں کہیں لسانی نکات و مباحث ہیں، کہیں استشراق کے پس پردہ کارفرما مذہبی تعصبات اور استعماری مقاصد کی نشاندہی کی گئی ہے، کہیں ترجمے کے ضمن میں کچھ نکتے زیر بحث آئے ہیں اور برعظیم میں فارسی کی پہلی عرفانی کتاب ’’کشف المحجوب‘‘ کے انگریزی ترجمے کے محاسن اور اس کے ایک دو تسامحات کا اجمالی ذکر کیا گیا ہے، کہیں جوش ملیح آبادی کی شاعری کے بعض خصائص کو موضوع بحث بنایا گیا ہے، اور کہیں ہماری معاصر ابتر تہذیبی صورتِ حال کے تناظر میں سچے ادب کے نسخۂ شفا ہونے کی جانب اشارے کیے گئے ہیں۔
زیرِ نظر کتاب کے تیسرے حصے میں ہمارے افسانوی ادب کے باب میں کچھ چبھتے ہوئے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ ہمارا اُردو فکشن کچھ بہت زوال آمادہ ہے، مگر یہ ضرور کہوں گا کہ اس میں بڑے ناموں کی تعداد میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ منٹو، انتظار حسین، بیدی، احمد علی، قرۃ العین حیدر، ممتاز مفتی، عصمت چغتائی، غلام عباس، نیر مسعود، اشفاق احمد، رفیق حسین، ابوالفضل صدیقی، عزیز احمد اور عبداللہ حسین کے پائے کے نامور لکھنے والے (یہ فہرست مکمل نہیں) ہمارے افسانوی ادب میں (تین چار مستثنیات کو چھوڑ کر) اب کہاں ہیں؟ یہ سوال ایک تفصیلی اور گہرے تجزیے کا متقاضی ہے اور ہمارے معاصر فکشن نگاروں اور فکشن کے نقادوں کو اس امر پر غور کرنا ہوگا۔ اسی حصے میں مَیں نے منٹو کی خاکہ نگاری کے باب میں ان کی شخصیت کے بعض ایسے پہلوئوں کی جانب اشارے کیے ہیں جو ہمارے روایتی نقادوں کی توجہ سے بالعموم محروم رہے ہیں۔ امید ہے کہ قارئین کرام ایسے پہلوئوں کو پیش نظر رکھیں گے اور منٹو کے فن پر ایک نئے زاویۂ نگاہ سے غورکرنے پر مائل ہوں گے۔
یوں تو میں ایک عرصے تک کتابوں پر تبصرے یا ان کے تجزیے کرتا رہا ہوں جو متعدد رسائل، جرائد اور اخبارات میں شائع ہوئے، مگر زیرنظر کتاب میں مَیں نے صرف دو کتابوں ’’سریلے بول‘‘ (عظمت اللہ خاں) اور ’’تاریخ علوم میں تہذیبِ اسلامی کا مقام‘‘ (مترجم ڈاکٹر خورشید رضوی) پر تجزیوں کو شامل کیا ہے۔ اوّل الذکر کتاب مدتوں پہلے ایک خاص زاویۂ نگاہ سے لکھی گئی تھی۔ عظمت اللہ خاں کلاسیکی اردو شاعری کے ایک بڑے حصے کو اپنے بعض قریبی پیشروئوں اور معاصرین کی طرح از کارِ رفتہ قرار دیتے تھے، اور اردو غزل کی گردن بے تکلف اور بے تکان مار دینے اور شاعری کو قافیے کے ’’استبداد‘‘ سے نجات دینے کے حق میں تھے۔ وہ غزل کی نام نہاد ’’ریزہ خیالی‘‘ کو شاعری کی ہفوات سے تعبیر کرتے تھے۔ ان کے نزیک اردو شاعری کے مروجہ اوزان و بحور مسلسل گوئی کی راہ کا روڑا تھے، لہٰذا وہ چاہتے تھے کہ اُردو عَروض کو ہندی پنگل کی بنیاد پر نئے سرے سے مدوّن کیا جائے۔ حد تو یہ ہے کہ خانِ موصوف نہ صرف اردو غزل کو گردن زدنی، سوختنی اور دریدنی قرار دیتے تھے بلکہ مثنوی، قصیدہ اور رُباعی کو بھی اردو شاعری کی اقلیم سے جلاوطن کردینے پر اصرار کرتے تھے۔ ’’کچھ اور چاہیے وسعت میرے بیاں کے لیے‘‘ کی اُن کی آرزو یقیناً مبارک اور مستحسن تھی مگر اس کے لیے عظمت اللہ خاں جس انتہا پسندی کو راہ دینا چاہتے تھے، ذوق اور زمانے نے اسے قبولیت سے محروم رکھا۔ اپنے نئے تجویز کردہ نظامِ عروضی کو نگاہ میں رکھتے ہوئے خود انہوں نے شاعری بھی کی، مگر چند استثنائی شعر پاروں سے قطع نظر اس کا معتدبہ حصہ ’’بے نمک سالن‘‘ اور ’’ابلی کھچڑی‘‘ کے مترادف ہے اور اب اس کی صرف تاریخی اہمیت ہے۔
’’تاریخِ علوم میں تہذیبِ اسلامی کا مقام‘‘ ترکی کے نامور عالم اور علومِ مشرقی پر عمیق نظر رکھنے والے دانش ور فوأد سیزگین کے اُن فکر انگیز خطبات کا اردو ترجمہ ہے جو انہوں نے حکومتِ سعودیہ کی دعوت پر 1979ء میں ریاض میں دیے تھے۔ ان خطبات میں بعض ایسے علمی حقائق بیان ہوئے ہیں جنہیں بلامبالغہ ان کے انکشافات و اوّلیات سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ کیا یہ ستم نہیں کہ بعض لاطینی علماء نے مدتوں پہلے مسلمانوں کی پوری پوری کتابوں کو اپنی زبانوں میں ترجمہ کرکے انہیں اپنی طبع زاد تصانیف قرار دے ڈالا تھا! مغرب میں تجربی اور استقرائی منہاجِ علم کا نام نہاد بانی راجر بیکن عربوں کے تحقیقی نتائج و افادات پر بڑی دیدہ دلیری سے ہاتھ صاف کرتا رہا۔ یہ اور متعدد دیگر علمی، تحقیقی اور تنقیدی حقائق زیرِنظر خطبات کے مختلف ابواب میں تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ اردو اور عربی ادبیات کے فاضل اور اردو کے منفرد شاعر اور نثر نگار ڈاکٹر خورشید رضوی نے مذکورہ بالا خطبات کا بڑا رواں اور عمدہ ترجمہ کرکے اردو کی تہذیبی، ثقافتی اور علمی حدود کو توسیع دی ہے۔
ڈاکٹر فراقی نے اس کتاب کو اپنے مرحوم بیٹے کے نام انتساب کیا ہے جو اچانک سکتۂ قلب سے انتقال کرگیا تھا۔
کتاب نہایت ہی خوبصورت، حسین و جمیل طبع کی گئی ہے، مجلّد ہے۔ رنگین سرِورق سے مزین ہے، صوری اور معنوی لحاظ سے اردو ادب میں ثمین اضافہ ہے۔