نام کتاب: شہداء وطن
مصنف : ایم آر شاہد
صفحات: 452
قیمت: 900روپے
ناشر: تعمیر پاکستان پبلی کیشنز، اکادمی ادبیات پاکستان
کمرہ نمبر16 ۔ دوسری منزل ڈیوس ہائٹس۔
38 ڈیوس روڈ، لاہور
تقسیم کار علم و عرفان پبلشرز۔ 140 الحمد مارکیٹ
اردو بازار، لاہور
ایم۔ آر۔ شاہد کا مکمل نام محمد ریاض شاہد ہے، وہ محکمہ پولیس پنجاب سے وابستہ ہیں، تاہم ان کی وجۂ شہرت ان کی صحافت اور علمی، ادبی اور تحقیقی سرگرمیاں ہیں۔ ستمبر 2003ء میں ان کی پہلی کتاب ’’لاہور میں مدفون مشاہیر‘‘ شائع ہوئی جو لاہور کے ایک سو قبرستانوں کی تحقیق پر مشتمل تھی، اسی نام سے دو مزید جلدیں اب تک چھپ چکی ہیں، جب کہ ’’کراچی میں مدفون مشاہیر‘‘ اور ’’شہر خموشاں کے مکین‘‘ بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ آخر الذکر کتاب میں اسلام آباد اور راولپنڈی ڈویژن کے قبرستانوں پر تحقیق اور ان میں مدفون شخصیات کے حالاتِ زندگی مع تصاویر شامل کیے گئے ہیں۔ ایم آر شاہد کی تحقیق کا دوسرا میدان وطن کی خاطر جانیں قربان کرنے والے فرزندانِ پاکستان ہیں، اس سلسلے میں ان کی کتاب ’’شہدانِ وطن‘‘ اپریل 2006ء میں منظرعام پر آئی، جس میں 1947-48ء کے حالات و واقعات، 1965ء، اور 1971ء کی جنگوں، سیاچین، کارگل اور کشمیر میں جانیں وطن پر قربان کرنے والوں کا تذکرہ ہے۔ ’’شہداء پنجاب پولیس‘‘ کی پہلی جلد جنوری 2011ء میں شائع ہوئی، جب کہ دوسری جلد آج کل زیر طبع ہے۔ زیرنظر کتاب ’’شہداء وطن‘‘ ان کے اس سلسلۂ تحقیق و جستجو کی تازہ کاوش ہے۔ ’’مسجدوں کی سرزمین‘‘ کے نام سے ان کا سفرنامۂ حج بھی چھپ چکا ہے۔ تاریخ، تحقیق، شاعری اور شخصیات پر ان کی متعدد دیگر کتب بھی اشاعت کے مختلف مراحل میں ہیں۔ جب کہ نامور ترقی پسند دانش وروں اور صحافی عبداللہ ملک کی نصف درجن سے زائد کتب بھی مرتب کرکے شائع کروا چکے ہیں، جب کہ مزید پر کام جاری ہے۔ ان کی تحقیقی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے 23 مارچ 2012ء کو ’یوم پاکستان‘ کے موقع پر ’تمغائِ امتیاز‘ سے نوازا۔
مصنف کی زیر نظر تصنیف ’’شہداء وطن‘‘ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے برّی، بحری اور فضائی افواج کے شہداء کے تعارف پر مبنی ہے۔ کتاب کے ابتدائی صفحات میں مسلح افواج کے موجودہ سربراہوں کے تعارف اور ’’یوم دفاعِ پاکستان‘‘ 6ستمبر 2018ء کے موقع پر ان عسکری قائدین کے پیغامات شامل کیے گئے ہیں۔ ماہنامہ ’’پھول‘‘ کے مدیر اور روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کے کالم نویس محمد شعیب مرزا نے ’’تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں‘‘ کے عنوان سے اپنے مختصر تعارفی کلمات میں بجا طور پر توقع ظاہر کی ہے کہ ’’اس وقت جب پاکستان واحد مسلم ایٹمی قوت ہے اور عالمی طاقتیں متحد ہوکر اس قلعۂ اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے سازشیں کررہی ہیں، ہمیں امید ہے کہ ہمارے یہ سپہ سالار حضرت خالدؒ بن ولید، صلاح الدین ایوبیؒ، محمد بن قاسمؒ اور ٹیپو سلطانؒ کی طرح ہر اسلام اور پاکستان دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیں گے کیونکہ… تم ہو پاسباں اس کے۔
’’شہداء وطن‘‘ کے نام سے اپنی اس تازہ تصنیف کے بارے میں ’’چند باتیں‘‘ کرتے ہوئے خود مصنف نے وضاحت کی ہے کہ اس نئی تصنیف میں مختلف معرکوں اور سانحات میں شہید ہونے والوں کا ذکر ہے۔ اس میں آپریشن ضربِ عضب، آپریشن راہِ نجات، آپریشن رد الفساد، شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کا صفایا کرنے والے شہداء، اقلیتی برادری کے جاں نثاروں کا بھی ذکر ملے گا جنہوں نے وطنِ عزیز کے لیے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ مانسہرہ، بنوں، گلگت، اسکردو ہیلی کاپٹر کے حادثے میں شہید ہونے والے فوجی افسران اور جوان بھی شامل ہیں۔ سب سے اہم آرمی پبلک اسکول پشاور کے شہداء کے نام، سانحۂ گیاری سیکٹر، سیاچن 2012ء اور فضائیہ کے مختلف شہداء کے واقعات بھی درج ہیں۔
کتاب میں ’’نشانِ حیدر‘‘ حاصل کرنے والے شہداء کا تذکرہ بھی موجود ہے، اور اس سے پہلے یہ تفصیل بھی درج کردی گئی ہے کہ کس شہید کو کن حالات میں اور کب ’’نشانِ حیدر‘‘ عطا کیا گیا۔
کتاب میں شامل شہداء کے حالاتِ زندگی کے مطالعے سے جہاں وطن کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے ان سینکڑوں باوفا جوانوں کے کارناموں اور مسلح افواج کی قربانیوںکی تابناک تاریخ سے آگاہی ہوتی ہے، وہیں یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ قربانیاں دینے والوں میں صرف سپاہی اور نان کمیشنڈ افراد ہی شامل نہیں، بلکہ اعلیٰ افسران کی بھی ایک بڑی تعداد وطن پر اپنی جانیں نچھاور کرنے والوں میں شامل ہے۔ کتاب میں سب جاں نثاروں کا تذکرہ اُن کے عہدوں اور شعبوں کی ترتیب کے لحاظ سے شامل کیا گیا ہے۔ فہرست کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک لیفٹیننٹ جنرل، تین میجر جنرل، تین بریگیڈیئر، چھ کرنل، نو لیفٹیننٹ کرنل، پچیس میجر، چھتیس کیپٹن اور گیارہ نو عمر لیفٹیننٹ بھی وطن کی خاطر جان کی قربانی پیش کرنے والوں میں شامل ہیں، جب کہ بحریہ اور فضائیہ کے اعلیٰ افسران کی ایک قابلِ ذکر تعداد ان کے علاوہ ہے۔
مضبوط جلد کے ساتھ رنگین سرورق کو میدانِ جنگ کی تصاویر سے مزین کرکے جان دار، بامعنی اور بامقصد بنانے کی اچھی کوشش کی گئی ہے۔ مسلح افواج اور ان کے وطن پر جانیں قربان کرنے والے جاں بازوں کے بارے میں یہ ایک نہایت عمدہ، قابلِ قدر اور مفید تحقیقی تصنیف ہے، تاہم اگر تھوڑی سی مزید توجہ دی جاتی تو کتاب کی ترتیب اور پیشکش کو اور زیادہ بہتر بنایا جا سکتا تھا جس سے کتاب کی افادیت میں اضافہ ہوجاتا۔