سقوطِ ڈھاکا کے زخم، لہو میں ڈوبی ہوئی تحریر

شبیر ابنِ عادل
ہر سال 16 دسمبر آتی ہے اور جب تک یہ دنیا قائم ہے، آتی رہے گی۔ پاکستانیوں کی بڑی تعداد خاص طورپر نئی نسل کو تو پتاہ ہی نہیں ہوگا اور نہ ہی ان کو بتایا گیا کہ اس دن کی ہماری تاریخ میں کتنی اہمیت ہے۔ بہت تھوڑی تعداد میں لوگوں کو احساس ہے کہ اُس دن ہماری تاریخ کا ایک قومی المیہ رونما ہوا تھا اور ملک دولخت ہوگیا تھا۔ اِس المیے کو اب 37 سال گزر چکے ہیں، یعنی دونوں ملکوں میں ایک ایسی پوری نسل جوان ہوچکی ہے، جو 16 دسمبر 1971ء کے بعد پیدا ہوئی۔
ہمارا ملک 14 اگست 1947ء کو قائم ہوا تو اس کے دو بازو تھے، ایک مغربی پاکستان اور اس سے ایک ہزار میل کے فاصلے پر واقع مشرقی پاکستان۔ اور قیام پاکستان کے چوبیس سال بعد یہ سانحہ رونما ہوا۔ یعنی قیام پاکستان سے سقوطِ پاکستان کی مدت کے مقابلے میں اُس سانحے سے آج تک کی مدت زیادہ ہے۔اب تو بچوں کے نصاب ہی سے تحریکِ پاکستان اور قیام پاکستان کے مضامین کو خارج کردیا گیا ہے۔ لیکن آبادی کے ایک بڑے طبقے کو تو قیام پاکستان کے مقاصد ہی کا علم نہیں۔ جبکہ سقوطِ مشرقی پاکستان کے اندوہناک سانحے کو ایسے فراموش کردیا گیا ہے جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ صرف 16 دسمبر ہی کو سقوطِ ڈھاکا یاد آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اہلِ نظر اور وطن سے محبت کرنے والے تو اس سانحے کو بھول ہی نہیں سکے، جس نے پاکستان کے دوٹکڑے کردئیے۔ وہ لوگ جنہوں نے قیام پاکستان کے لیے قربانیاں دیں، اس کی تعمیر میں اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کردیا، وہ کبھی بھی نہیں بھول سکیں گے کہ ملک کی تاریخ میں سولہ دسمبر کی کتنی اہمیت ہے۔
14 اگست 1947ء کو پاکستان بنا تو ہندوستان سے مہاجرین کے لٹے پٹے قافلے آرہے تھے ملک کے دونوں خطوں کی جانب۔ یعنی مغربی پاکستان کے علاوہ مشرقی پاکستان کی طرف بھی۔ مغربی پاکستان میں کئی قومیں آباد تھیں، یعنی پنجابی، سندھی، بلوچی، پختون اور کئی دوسری۔ جبکہ مشرقی پاکستان میں بنگالی ہی آباد تھے۔ لیکن چونکہ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا، اس لیے تمام قومیتوں کو ثانوی حیثیت حاصل تھی۔ بنگال کے مسلمان بہت محبت کرنے والے اور بہت مخلص تھے۔
قیام پاکستان کے بعد اسلامی نظام کے نفاذ میں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر تاخیر ہوئی اور مختلف تاخیری حربے بھی اختیار کیے جاتے رہے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کو وقت نے اتنی مہلت نہیں دی کہ وہ اسلامی قوانین کے نفاذ کے حوالے سے کچھ کرسکتے۔ جبکہ ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو اکتوبر1951ء میں شہید کردیا گیا۔ لیکن بانیِ پاکستان نے واضح الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ ملک کا نظام قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق ہوگا۔
اسی دوران علماء کی مدد سے ملک کے اسلامی آئین کا مسودہ بھی تیار ہوگیا تھا، مگرغلام محمد نے ملک کے گورنر جنرل کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے بعدپہلے تو اُس آئین کو منسوخ کیا اور اس کے بعد یہ سانحہ ہوا کہ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم حسین شہید سہروردی کو کسی وجہ کے بغیر برطرف کردیا گیا۔ وہ پہلی کیل تھی جو مشرقی پاکستان کے عوام کے دلوں کو چیرتی چلی گئی۔ اس کے بعد جلتی پر تیل کا کام 1958ء میں جنرل ایوب خان کے مارشل لا نے کیا، جس سے مشرقی پاکستان کے عوام کو یقین ہوگیا کہ 1947ء میں صرف حکمران بدلے ہیں، انہیں اب تک آزادی نہیں ملی۔مشرقی پاکستان کے عوام میں نفرت کے بیج بونے میں بھارت نے بھی بہت بڑا کردار ادا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد ہندو بڑی تعداد میں مشرقی پاکستان میں آباد تھے، اگرچہ اکثریت مسلمانوں ہی کی تھی، مگرتعلیمی اداروں میں ہندو بہت کلیدی کردار ادا کررہے تھے۔ بھارت کے لیے نفرت پھیلانے میں انہوں نے بڑی سہولتیں فراہم کیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ بھارت قیام پاکستان کے بعد سے دو قومی نظریے کو ناکام بنانے کے لیے کام کررہا تھا۔ مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے اپنی حماقتوں یا سازشوں کی وجہ سے بھارت کا کام بہت آسان کردیا۔
16 دسمبر 1971ء کو بھارت اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہوگیا اور مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوکر بنگلہ دیش کا روپ دھار گیا۔ وہ رات مجھے آج بھی یاد ہے، جب سقوطِ ڈھاکا ہوا تھا۔ میں اُس وقت نویں جماعت میں تھا۔ لیکن اپنے ابو کی تربیت کی بدولت میں باقاعدہ اخبار کا مطالعہ کیا کرتا تھا اور وہ مجھ سے مباحث بھی کرتے تھے۔ اسی دوران میں نے کئی ڈرائونے خواب بھی دیکھے، جس کی خوفناک تعبیر 16 دسمبر کو سامنے آئی۔