توقیر عائشہ
جماعت اسلامی حلقہ خواتین کے شعبہ نشرو اشاعت سے وابستہ ضلع وسطی کراچی کے نظم نے سقوطِ ڈھاکا کی یاد میں ’’مت سمجھو ہم نے بھلا دیا…‘‘ کے عنوان کے تحت ایک فکر انگیز نشست کا اہتمام کیا، جس سے جماعتِ اسلامی کی مرکزی رہنما، جامعۃ المحصنات پاکستان کی نگرانِ اعلیٰ، ممتاز کالم نگار اور معروف مصنفہ ’’افشاں نوید‘‘صاحبہ نے خطاب کیا۔
ابتدائی کلمات میں اُنہوں نے کہا ’’ قوموں کی زندگی میں آنے والے سانحات سے سبق لینے کے لیے اُنہیں قومی یادگار کا درجہ دیا جاتا ہے۔ مگر پاکستان ٹوٹنے کے اِس دن کو قومی شعور سے گُم کرنے کے لیے کسی سیمینار، جامعات کے باشعور فورم پر کوئی پروگرام، حکومتی سطح پر کسی قابلِ ذکر سرگرمی کا مستحق نہیں سمجھا جاتا۔ ہر سال 1965ء کی جنگ کے شہدا کوخراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے، مگر تحفظِ پاکستان کی خاطر محض چھے سال بعد بہنے والا لہو لاوارث قرار پاتا ہے۔ اُنہوں نے سوال کیا کہ کیا 1971ء کی جنگ کے مقتولین، شہید نہیں؟
اُنہوں نے کتاب ’’شکستِ آرزو‘‘کے مصنف پروفیسر سیّد سجاد حسین کا ذکر کرتے ہوئے کہا ’’اُنہوں نے نظریے کی یہ جنگ تعلیمی محاذ پر لڑی اور بے پناہ جسمانی تشدد کا سامنا کیا۔ یہ کتاب اِن حالات کو جاننے کا مستند ذریعہ ہے‘‘۔ بنگلہ دیش کے محبِ وطن افراد کی پھانسیوں کا ذکر کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کے قیام کے چالیس سال بعد ملنے والی یہ پھانسیاں دراصل نظریے پر استقامت کی مثال ہیں۔ آج ہم بنگلہ دیش سے وہ تعلق قائم کرنا چاہیں جو ایک اسلامی ملک کا دوسرے اسلامی ملک سے ہوتا ہے تو اُن کے دانشور کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش کو پاکستان سے خطرہ ہے۔ اور وہ اُس بڑے نقصان کو نہیں دیکھ رہے جو بھارت کی گود میں جابیٹھنے سے اُن کو پہنچ رہا ہے۔ سقوطِ ڈھاکا کی تاریخ یہ سبق دیتی ہے کہ اپنی نسلوں میں اپنے پاک آفاقی نظریے کو اُنڈیل دیں۔‘‘
زونل ٹیم ممبر نگہت یاسمین نے شرکاء میں وہ درد منتقل کیا جو مدبر شاعر نعیم صدیقی کے کلام ’’میرا وطن مجھ سے کھو گیا ہے…‘‘ میں موجود ہے۔
پرنٹ میڈیا ضلع وسطی کی نگران ماہ پارہ نے اپنی ٹیم کے ہمراہ بنائی جانے والی وڈیو کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا ’’1947ء کی ہجرت میں بھی قتل و غارت گری اور شہادتیں تھیں، مگر پاکستان کی صورت ایک منزل اُن کی منتظر تھی جس سے اُن کی اُمیدیں وابستہ تھیں۔ 1971ء کی مہاجرت میں سفاکی، قتل و غارت گری تو ویسے ہی تھی لیکن ہاتھ خالی تھے اور دل پارہ پارہ‘‘۔ اِس وڈیو میں مشرقی پاکستان سے ہجرت کرکے آنے والے بزرگ شہری مسلم صدیقی نے اپنی یادداشتوں میں پلٹن گرائونڈ ڈھاکا میں ہونے والے جلسہ عام کے احوال بتائے ہیں جس میں شرکت کرنے کے لیے مولانا مودودیؒ جلسے سے ایک روز قبل ڈھاکا پہنچے تھے اور بدامنی اور خوف کے حالات میں ہونے والے جلسے کے حوالے سے پیشن گوئی کی تھی کہ اگر جلسہ عام ناکام ہوگیا تو مشرقی پاکستان نہیں بچ سکے گا۔ اور ایسا ہی ہوا تھا۔ مسز مسلم صدیقی نے گفتگو میں بھرا گھر چھوڑنے اور راستے کے دلخراش واقعات بیان کیے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم واپس جانے کی آس رکھتے تھے لیکن ہمیں پتا نہیں تھا کہ مشرقی پاکستان علیحدہ ہوجائے گا۔ آج بھی سوچتی ہوں تو یقین نہیں آتا کہ اِسے میں بنگلہ دیش کہوں۔ آج بھی میری زبان سے مشرقی پاکستان ہی نکلتا ہے‘‘۔ بارہ منٹ کی یہ وڈیو اتنی پُر تاثیر ہے کہ عوامی توجہ کی خاطر اِسے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیا گیا ہے۔ جس کا لنک درج ذیل ہے:
https://www.facebook.com/357912494307666
/posts/1913290212103212/
’’سقوطِ ڈھاکا اور اہلِ قلم‘‘ کے عنوان سے راقمہ نے جو حریمِ ادب پاکستان سے وابستہ ہے، اِس سانحے کے حوالے سے تحریر کی جانے والی کتب کے مصنفین اور کتب کا تعارف پیش کیا۔ اِن کتب میں’’ پاکستان کیوں ٹوٹا‘‘ از ڈاکٹر آصف محمود، ’’شکستِ آرزو‘‘ از سیّد سجاد حسین، ’’البدر‘‘ از سلیم منصور خالد اور صدیق سالک کی کتب ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ اور ’’ہمہ یاراں دوزخ‘‘شامل ہیں۔ خواتین قلم کاروں کی کتب میں ’’چلتا مسافر‘‘ از الطاف فاطمہ، ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی‘‘ از بنتُ الاسلام، ’’آخر شب کے ہم سفر‘‘ از قراۃ العین حیدر، اور ’’تنہا‘‘ از سلمیٰ اعوان شامل ہیں۔ نوعمروں کے لیے لکھی جانے والی کتاب ’’کمانڈو فور‘‘ از منیر احمد راشد قابلِ ذکر ہے۔
ضلع وسطی کے اِس پروگرام میں نوجوان خواتین اور طالبات کی بڑی تعداد میں موجودگی اُمید افزا تھی۔1947ء سے لے کر آج 2018ء تک کے پاکستان کے سفر میں نصف پاکستان کا الگ ہوجانا بلاشبہ وہ موضوع ہے کہ جس پر فکری نشستیں رکھنا ہر محبِ وطن تنظیم، ادارے اور سماجی اور سیاسی دانش وروں کی ذمہ داری ہے اور شہدائے مشرقی پاکستان کا قرض بھی ہے۔