فرائیڈے اسپیشل… انگریزی نام کے باوجود اردو زبان اور صحافت کا پشتیبان جریدہ ہے۔ کسی ناغہ اور وقفے کے بغیر اس کی 19 سال سے مسلسل اشاعت جہاں اس کے کارکنوں کی شبانہ روز محنت کا نتیجہ ہے، وہیں اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ قارئین اور عوام الناس میں اس کی مقبولیت کا گراف بھی وقتی اتار چڑھائو کے باوجود قابلِ قبول حد تک بلند ہے۔ کسی جریدہ یا مجلہ کی تسلسل کے ساتھ اشاعت اور دو دہائیوں تک اشاعت پاکستان جیسے ملک میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ مجلاتی صحافت سے وابستہ صحافی اور کارکن جانتے ہیں کہ یہ کس قدر جان جوکھوں کا کام ہے۔ اُدھر پرچہ تیار ہوکر طباعت کے لیے جاتا ہے اِدھر نئے پرچے کی تیاری شروع ہوجاتی ہے۔ پھر ایک ہفتے تک اخبارات میں شائع ہوجانے والے موضوعات اور اس عرصے میں بیسیوں ٹی وی چینلز پر ٹاک شوز کے نام پر ہونے والی بک بک اور جھک جھک کے بعد بچتا ہی کیا ہے شائع کرنے کے لیے! لیکن سلام ہے اُن صحافی کارکنوں کو، جو یا تو اپنے ہفتہ وار قارئین کے لیے نئے موضوعات تلاش کرلیتے ہیں، یا پھر ہفتہ بھر کے پٹے موضوعات کے نئے پہلو، نئے زاویے اور نئے امکانات نکال لاتے ہیں۔ اسی محنت کے نتیجے میں ہفتہ وار جرائد مارکیٹ میں بک پاتے ہیں اور قارئین میں مقبول رہتے ہیں۔ یہی عمل ہفتہ وار صحافت کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ ہفتہ وار فیملی میگزین کے لیے پھر بھی یہ آسانی موجود ہوتی ہے کہ وہ سیاست، ادب، کھیل، شوبز اور دیگر موضوعات سے اپنے میگزین کا پیٹ بھر لیتے ہیں، لیکن ہفتہ وار سیاسی میگزین کی ایک مجبوری یہ بھی ہوتی ہے کہ اُسے سیاست، اُس سے متعلق امور اور بمشکل ایک دو دیگر موضوعات ہی میں رہنا ہوتا ہے۔ فرائیڈے اسپیشل کی اس عملی مجبوری کے علاوہ ایک اضافی مجبوری یہ ہے کہ اُسے ایک نظریاتی پرچہ ہونے اور اخلاقیات کا محافظ ہونے کی وجہ سے اپنی وکٹ پر بہت احتیاط سے کھیلنا ہوتا ہے۔ وہ آزادیٔ اظہار کے لیے تو فرنٹ فٹ پر کھیلتا ہے لیکن جہاں اخلاقیات، اصولوں اور نظریاتی صحافت کی بات آتی ہے وہاں اسے بیک فٹ ہی پر اور محتاط انداز میں اپنے وجود کا ثبوت دینا ہوتا ہے جس کا وہ بار بار مظاہرہ کرتا چلا آرہا ہے۔ فرائیڈے اسپیشل کا اعزاز یہ بھی ہے کہ مندرجہ بالا صفات کے علاوہ اس کے اداریے منفرد حیثیت کے حامل ہیں، جن میں سنجیدگی ومتانت کے علاوہ دلیل و استدلال کا حق ادا کردیا گیا ہوتا ہے۔ یہ خصوصیت اس جریدے کو اپنی اشاعت کے روزِ اوّل سے اب تک حاصل ہے۔ اس جریدے کے پہلے مدیر عبدالکریم عابد جیسے درویش صفت اور حق گو صحافی تھے۔ انہوں نے اپنی تحریر کے علاوہ اپنے کردار سے صحافت پر دوررس اثرات چھوڑے ہیں۔ انہوں نے اپنی موت سے چند گھنٹے قبل فرائیڈے اسپیشل کے لیے وہ اداریہ بھی تحریر کرایا جو اُن کی موت کے بعد شائع ہوا۔ جناب عبدالکریم عابد جتنی خوبیوں اور صلاحیتوں کے مالک تھے انہیں سمیٹنے کا اعزاز فرائیڈے اسپیشل ہی کو حاصل ہوا کہ وہ اپنی موت کے وقت تک اس جریدے کے مدیر تھے۔ اُن کا وجود نہ صرف ادارہ فرائیڈے اسپیشل کے لیے اعزاز تھا بلکہ اُن کی صلاحیتوں کے باعث یہ ایک منفرد اور معیاری پرچہ بھی بن گیا۔ فرائیڈے اسپیشل کی اشاعت کے 19 سال مکمل ہونے پرعبدالکریم عابد مرحوم بہت یاد آرہے ہیں۔ وہ آج زندہ ہوتے تو کتنے خوش ہوتے، اُس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ میری نظر میں عبدالکریم عابد اور فرائیڈے اسپیشل دونوں ایک دوسرے کا اعزاز ہیں۔ مرحوم کی صلاحیتوں کا احاطہ کرنا مشکل ہے، لیکن اُن کے تذکرے کے بغیر فرائیڈے اسپیشل کا ذکر مکمل نہیں ہوسکتا۔
جناب عبدالکریم عابد سے میرا کوئی لمبا چوڑا تعلق نہیں تھا۔ وہ صحافت میں میری پیشرو نسل کے سرکردہ افراد میں شامل تھے۔ اخبار بدلنا ان کا معمول تھا۔ میں نے صحافت میں قدم رکھا تو وہ کراچی میں تھے۔ پھر لاہور آئے تو ہمارے حریف اخبارات سے وابستہ رہے۔ اس لیے ان کے ساتھ ایک فاصلہ سا رہا۔ وہ مزاجاً بھی کم گو تھے۔ بلاوجہ لوگوں سے بے تکلف ہونے کے عادی نہیں تھے۔ اس لیے جب کبھی ان سے ملاقات ہوتی تو میری خواہش ہوتی کہ وہ بولیں تاکہ میں ان کی گفتگو کے موتی سمیٹ سکوں۔ مگر ان کی پوری کوشش ہوتی کہ دوسرے کو بات کرنے کا موقع دیں۔ ان کی تحریریں 70ء کی دہائی سے میرے مطالعے میں تھیں۔ ان کی ہر تحریر پہلے سے زیادہ مدلل، بے باک اور جاندار ہوتی۔ ساتھ ہی ہر نئی تحریر کسی پرانی تحریر کی یاد بھی تازہ کردیتی۔ سنا ہے کسی زمانے میں وہ بے تکان بولتے تھے، جو رفتہ رفتہ کم گوئی میں تبدیل ہوگیا، مگر شاید بے تکان لکھنے کا سلسلہ انہوں نے زندگی کے آخری لمحات تک جاری رکھا۔ وہ اُن چند صحافیوں میں شامل تھے جنہوں نے موت کو گلے لگانے تک قلم سے اپنا رشتہ قائم رکھا۔ 1974ء میں ان کے گلے میں کینسر کی تشخیص ہوئی تو مایوس ہونے کے بجائے انہوں نے زندگی کو بھرپور انداز میں استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ لکھتے وہ پہلے بھی تھے مگر اس تشخیص کے بعد انہوں نے بہت زیادہ لکھنا شروع کردیا۔ شاید اسی بھرپور محنت اور عزم نے انہیں کینسر جیسے مرض کی تشخیص کے بعد 31 سال تک زندہ رکھا۔
جناب عبدالکریم عابد نے 1940ء کی دہائی میں حیدرآباد دکن سے لکھنا شروع کیا۔ ان کے والد غیر منقسم ہندوستان میں گرم کپڑے کے چند بڑے درآمدکنندگان میں سے تھے۔ والد نے خاندانی کاروبار میں بیٹے کو بھی ابتدائی عمر میں ہی شریک کرلیا۔ اُس وقت شاید عابد صاحب چھے سات جماعت تک ہی تعلیم مکمل کرسکے تھے۔ وہ مجبوراً کاروبار پر بیٹھ تو گئے مگر ان کا دل اس کام میں نہ لگ سکا۔ چنانچہ انہوں نے وہیں بیٹھے بیٹھے اخبارات کے لیے لکھنا شروع کردیا۔ وہ اس دوران کسی مجلے کے ایڈیٹر بھی ہوگئے۔ پھر ایڈیٹری ان کے نام کے ساتھ نتھی ہوگئی۔ وہ ایک اخبار کی ادارت چھوڑتے تو دوسرے اخبار کے ا
یڈیٹر ہوجاتے۔ پاکستان کے تمام بڑے بڑے اخبارات و جرائد کے وہ ایڈیٹر رہے، مگر ایڈیٹری کے لیے اپنی انا کو کبھی قربان نہ کیا۔ جہاں کہیں وہ اس خدشے کا شائبہ بھی محسوس کرتے فوراً اس اخبار سے الگ ہوجاتے اور اگلے روز ہی کسی اور اخبار یا جریدے کی ایڈیٹری ان کی جھولی میں آگرتی۔ ویسے انہیں ایڈیٹری سے کوئی زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ وہ اپنے افکار، خیالات اور تجزیے کو قارئین تک پہنچانا چاہتے تھے اور اس میں کوئی رکاوٹ نہ آنے دیتے۔ کبھی یہ کام وہ ایک اخبار کے ذریعے کرتے اور کبھی دوسرے کے ذریعے، اور ایک اخبار سے دوسرے اخبار تک کے اس سفر نے ان کی عمرِ عزیز کے 78 سال اور تحریروں کے بیسیوں ڈھیر لگادیے۔ اخباری کالموں، تجزیوں اور اداریوں کے علاوہ ان کی کئی کتب اب تک اپنے قارئین سے بے پناہ داد وصول کرچکی ہیں۔ جبکہ ان کے شائع شدہ مضامین اور کالموں سے کئی مزید کتب مرتب کی جاسکتی ہیں۔
عابد صاحب باپ کا کروڑوں کا کاروبار چھوڑ کر پاکستان منتقل ہوئے تھے، یہاں روزنامہ تسنیم میں غالباً پروف ریڈر کی حیثیت سے انہوں نے کام شروع کردیا۔ روزنامہ تسنیم میں کام کے دوران ہی انہوں نے انگریزی سیکھی، اس کام کے لیے انہوں نے ڈکشنری کو اپنا استاد بنایا اور بہت جلد اس بدیسی زبان سے بھرپور استفادہ کرنے لگے۔ ان کے تجزیے اردو اور انگریزی اخبارات و جرائد کے گہرے مطالعے اور مختلف موضوعات پر آنے والی تازہ ترین کتابوں کا نچوڑ ہی نہیں تھے بلکہ اس حاصلِ مطالعہ کو وہ باریک بینی سے دیکھتے اور وسیع تر تناظر میں اس پر تبصرہ کرتے تھے۔ صحافتی زندگی میں وہ شاید پاکستان کے تمام بڑے بڑے شہروں میں رہے اور تقریباً ہر اخبار و رسالہ میں کام کیا۔ کئی اخبارات و جرائد کا آغاز ہی انہوں نے کیا، مگر اپنی عاجزانہ طبیعت کے باعث اس کا ذکر کم ہی کیا۔ ان کے لکھے ہوئے کالم اور تجزیے سیاست دانوں، حکمرانوں اور عوام میں یکساں مقبول تھے۔ بیشتر سیاست دان ان سے ازخود رابطہ رکھتے، مگر حکمرانوں سے ملاقات سے وہ گریز ہی کرتے۔ صدر ضیاء الحق نے ملاقات کے لیے انہیں اسلام آباد بلایا تو وہ ہوٹل آکر ایسے سوئے کہ ملاقات کا نصف وقت گزر گیا۔ منتظمین نے انہیں بھاگم بھاگ ایوانِ صدر پہنچایا، وہ اسی طرح بستر سے اُٹھے اور چپل پہنے ہوئے صدرِ پاکستان سے ملاقات کرکے واپس آگئے۔
عابد صاحب کی شخصیت کی طرح ان کی تحریر بھی سادہ اور رواں تھی۔ وہ بے لاگ تجزیہ کرتے، نڈر ہوکر تنقید کرتے اور درد مندی کے ساتھ رہنمائی فرماتے تھے۔ ان کی ذات اور تحریر دونوں ہر طرح کی آلائشوں سے پاک تھے۔ بڑے بڑے نامور لوگ ان سے فکری اور سیاسی رہنمائی حاصل کرتے۔ وہ نظریاتی صحافت کی ایک بھاری بھرکم اور جاندار شخصیت تھے، مگر ان کے مخالفین بھی ان کے ذاتی اوصاف اور وسیع مطالعے کے باعث ان کا بے پناہ احترام کرتے۔ ان کے تعزیتی ریفرنس میں بائیں بازو کے نامور صحافی حسین نقی کے یہ الفاظ ان کی خوبصورت شخصیت اور بلند علمی حیثیت پر مہر تصدیق ہیں کہ دائیں بازو کے صحافیوں میں عبدالکریم عابد وہ واحد شخص تھے جو جدید عالمی تناظر، دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں اور بدلتے ہوئے رجحانات کا پورا ادراک رکھتے تھے۔
اتنی خوبیوں اور صلاحیتوں کے حامل ایڈیٹر کی ادارت میں کسی جریدے کا مقبول ہونا اور معیاری رہنا فطری سی بات ہے، لیکن ایسے شخص کی موت کے بعد بھی اس جریدے کا جاری و ساری رہنا بلکہ پھلنا پھولنا باعثِ حیرت لگتا ہے، جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ عابد صاحب کو باصلاحیت، مخلص اور پیشہ ور ساتھیوں کی معاونت حاصل تھی، جنہوں نے اپنے ایڈیٹر کی تربیت میں رہ کر بہت کچھ سیکھا اور اُن کی موت کے بعد اس ادارے کو مزید بہتر بنانے کو اپنا مشن بنالیا۔ یہ مشن آج بھی جاری ہے۔ عبدالکریم عابد کے بعد یحییٰ بن زکریا صدیقی اور شاہنواز فاروقی نے یہ علَم تھاما ہوا ہے۔ چونکہ ایک عظیم مشن کا یہ علَم باصلاحیت، اخلاص سے پُر، پیشہ ورانہ قیادت کے ہاتھوں میں ہے اس لیے سب یقین رکھیں کہ یہ جریدہ بھی جاری رہے گا، یہ مشن بھی جاری رہے گا اور موجودہ ٹیم کو اپنے قارئین کا اعتماد بھی حاصل رہے گا۔ اس ادارے کے لیے ہماری دعا ہے
تُو سلامت رہے ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
فرائیڈے اسپیشل حقیقت میں پاکستان کی مجلاتی صحافت کی شان ہے۔ اللہ اسے ہمیشہ قائم رکھے۔