پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انھیں ایک خط لکھا ہے جس میں افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان سے اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ عمران خان نے یہ انکشاف پیر کو پاکستان کے بعض سینئر صحافیوں سے ایک خصوصی ملاقات میں کیا۔ یہ کہتے ہوئے پاکستانی وزیراعظم اپنی تعریف کیے بنا نہ رہ سکے اور فرمایا ’’ماضی میں امریکہ سے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا گیا، اب ہم نے امریکہ کو برابری کی بنیاد پر جواب دیا تو ٹرمپ نے خط لکھا‘‘۔
دلچسپ بات یہ کہ وہائٹ ہائوس یا امریکی وزارتِ خارجہ کی جانب سے اس خط کے بارے میں کوئی خبر یا مندرجات کی تفصیل شائع نہیں کی گئی۔ پاکستان کے دفترِ خارجہ نے امریکی صدر کی جانب سے بھیجے گئے خط کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے افغان تنازعے کا حل تلاش کرنا امریکی صدر کی اوّلین ترجیح ہے۔ پاکستانی دفترِ خارجہ کے مطابق صدر ٹرمپ نے تسلیم کیا کہ افغانستان کی جنگ امریکہ اور پاکستان دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے خط میں زور دیا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کو اپنے تعلقات کی تجدید اور ایک ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
شام کو پاکستان کے معروف صحافی حامد میر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اس خط کی مزید تفصیلات بیان کیں۔ حامد میر نے عمران خان سے گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ خط کے مطابق صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں پاکستان اپنا اثر رسوخ استعمال کرے۔ بات چیت کے دوران جب صحافیوں نے صدر ٹرمپ اور عمران خان کے درمیان سخت ٹویٹ پیغامات کے تبادلے کے بارے میں پوچھا تو عمران خان نے کہا کہ اس خط کے بعد ماحول بہتر ہوگیا ہے اور پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گا۔
جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے ایک نشست میں عرض کیا تھا کہ افغانستان امریکہ کے گلے میں پھنسی ایسی چھچھوندر بن گیا ہے کہ اسے نہ نگلنا ممکن، نہ اگلنا آسان۔ دو عالمی قوتوں یعنی سلطنتِ برطانیہ اور روس کا یہ قبرستان 2007ء سے ہی امریکہ کے لیے دلدل کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اسی بنا پر صدر اوباما نے حکومت میں آتے ہی افغانستان سے اپنی فوج کا انخلا شروع کردیا۔ 2015ء کے اختتام تک امریکہ کی تقریباً ساری لڑاکا فوج وہاں سے واپس آگئی اور افغان سپاہیوں کی تربیت کے لیے صرف چند سو ماہرین وہاں رہ گئے۔ صدر اوباما نے اپنی فوج تو واپس بلالی لیکن وحشیانہ ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری رکھا اور وزیرستان سمیت پاکستان کے شمالی علاقوں میں معصوموں کے خون کی ندیاں بہہ گئیں۔ مساجد اور مدارس ان ڈرونز کا خاص ہدف تھے، اور بچیوں سمیت سینکڑوں حفاظ آسمان سے برسنے والی آگ کا نشانہ بنے۔
2016ء کے انتخابات کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو عظیم تر بنانے یا “Make America Great Again”کا نعرہ لگایا۔ یہ نعرہ اتنا مقبول ہوا کہ اس کا مخفف MAGA ان کی مہم کا امتیازی نشان بن گیا۔ جناب ٹرمپ نسل پرست سفید فام طبقے کو امریکہ کی نشاۃ ثانیہ کی جدوجہد پر آمادہ کررہے تھے، جب ان کے خیال میں ساری دنیا امریکہ کے رعب سے تھرتھر کانپتی تھی اور اب یہ عالم کہ پاکستان جیسا ملک ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا کرنے پر تیار نہیں۔ ان کے لیے کامیاب سفارت کاری کی کسوٹی مخالفین کی جانب سے کامل اطاعت ہے، چنانچہ امریکی صدر نے اپنی وزارتِ خارجہ اور دفاع کے لیے چند سخت اہداف طے کردیے، جن میں:
٭ شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کو ہر قیمت پر ختم کروانا
٭ایران جوہری معاہدہ کی تنسیخ
٭حماس کو دیوار سے لگاکر اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی
٭افغانستان میں فیصلہ کن عسکری فتح
صدر ٹرمپ ان اہداف کے حصول کے لیے اس قدر بے تاب تھے کہ ’سست و نرم‘ رویّے کی بنا پر انھوں نے وزیرخارجہ ریکس ٹیلرسن کو انتہائی ذلت آمیز طریقے پر برطرف کردیا۔
افغانستان کو فتح کرنے کا ہدف وزیرفاع جنرل میٹس، قومی سلامتی کے (سابق) مشیر ڈاکٹر جنرل مک ماسٹر اور وہائٹ ہائوس کے چیف آف اسٹاف جنرل جان کیلی کو سونپا گیا۔ ستم ظریفی کہ یہی سارے سورما حملے کے آغاز سے افغانستان میں امریکی فوج کی قیادت کرتے چلے آئے ہیں اور انھی دلاوروں کی پالیسیوں اور طرزِعمل نے افغانستان اور وہاں تعینات امریکی فوج کو اس حال میں پہنچایا ہے۔ تاہم ان لوگوں نے عقل مندی بلکہ بے شرمی سے اپنی ناکامی کا الزام پاکستان اور سابق صدر اوباما پر ڈال دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سابق امریکی صدر نے ان کے ہاتھ باندھ رکھے تھے اور اگر انھیں اپنے فیصلوں میں آزادی حاصل ہوتی تو ان اجڈ مُلاّئوں کی بیخ کنی تو بس بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ جرنیلوں کا مؤقف تھا کہ صدر اوباما نے ان کے مشورے کے علی الرغم افغانستان سے امریکی فوج کو واپس بلالیا جس کی وجہ سے طالبان کو تقویت ملی اور یہ سابق امریکی صدر کی بہت بڑی غلطی تھی۔ اسی طرح Boss کو پاکستان کی شکایت لگاتے ہوئے ملک کے شمالی علاقوں میں طالبان کے ٹھکانوں اور پاکستانی فوج کی جانب سے ان کی تربیت کی خودساختہ تفصیلات ’’سنسنی خیز‘‘ پیرائے میں امریکی صدر کو گوش گزار کرائی گئیں۔
صدر ٹرمپ کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کو اپنے جرنیلوں کے تجزیے پر شدید تحفظات تھے لیکن شاندار کامیابی کی امیدِ موہوم پر انھوں نے طوطاکہانی کو سچ مان لیا اور افغانستان کے لیے اضافی فوجی دستے بھیجنے کے ساتھ عسکری قیادت کو مکمل آزادی عطا کردی گئی۔ دوسری طرف پاکستان کا دماغ درست کرنے کے لیے مہلک عسکری و اقتصادی اقدامات کے ساتھ سفارتی دبائو کا منصوبہ بنا۔ صدر ٹرمپ نے 21 اگست 2017ء کو قوم سے براہِ راست خطاب میں پاکستان کے خلاف مہم کا باقاعدہ آغاز کیا۔ پاکستانی معیشت کو دبائو میں لانے کے لیے FATFکے پلیٹ فارم سے دہشت گردوں کی مالی معاونت کا شوشہ شدت سے اٹھایا گیا۔ بدقسمتی سے اُس وقت پاکستان سیاسی بحران کا شکار تھا۔ نوازشریف مالی بدعنوانی کی بنا پر برطرف کیے جاچکے تھے اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سمیت ساری حکومت نوازشریف کے دفاع میں مصروف تھی، جس کی وجہ سے برآمدات بری طرح متاثر ہوئیں، سرکاری اخراجات بے قابو ہوئے اور بیرونی قرضوں کا بوجھ ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ گیا۔
اسی کے ساتھ سارے افغانستان پر وحشیانہ بمباری کا آغاز ہوا، اور نیٹو کے مطابق افغانستان کے مختلف علاقوں پر 600 فضائی حملے فی ماہ کیے گئے جن کا ہدف عام افغان بنے۔ اس وحشت سے افغانستان پر طالبان کی گرفت میں کوئی فرق نہ آیا، بلکہ بے گناہوں کی ہلاکت سے طالبان کی حمایت میں اضافہ ہوا اور جنوب و مشرقی افغانستان کے پشتون علاقوں کے ساتھ شمال میں فارسی بان صوبے بھی ان کے قبضے میں آگئے۔ نئی افغان پالیسی کی ناکامی چند ماہ کے اندر ہی واضح ہونے لگی اور صدر ٹرمپ کی جانب سے جرنیلوں کو ڈانٹ ڈپٹ کی کہانیاں زبان زدِ عام ہوئیں۔ کہا جاتا ہے کہ مرکزی امریکی کمان (CENTCOM)کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل کو صدر ٹرمپ نے کئی بار سب کے سامنے سخت سست کہا۔
وحشیانہ بمباری کے باوجود طالبان کے بڑھتے ہوئے اثرات سے کابل انتظامیہ بے حد پریشان ہوئی۔ نئی افغان پالیسی کے تحت امریکی سپاہیوں کو چھائونیوں میں سراغ رسانی، ڈرون کی نگہبانی اور مقامی سپاہیوں کی تربیت تک محدود کردیا گیا تھا، اور اب غیر تربیت یافتہ افیم وچرس کے نشے میں اونگھتے افغان فوجی طالبان کے براہِ راست نشانے پر آگئے۔ اسی کے ساتھ بات چیت کا ڈول ڈالا گیا، اسلام آباد پر الزام تراشی، جکارتہ اور سعودی عرب میں علما کی بیٹھک اور فتووں کے کارتوس بھی چلائے گئے، لیکن بمباری اور سیاسی نوٹنکیوں سے مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
اس سال فروری میں سینیٹ کی مجلسِ قائمہ برائے عسکری خدمات کے سامنے سماعت کے دوران جنرل جوزف ووٹل نے دعویٰ کیا کہ 64 فیصد افغانستان پر کابل حکومت کا کنٹرول ہے، 12 فیصد علاقوں پر طالبان قابض ہیں جبکہ باقی ماندہ 24 فیصد ملک پر طالبان کا قبضہ مشکوک ہے۔ اس لن ترانی پر سینیٹرز سخت غصے میں آگئے۔ کمیٹی کے سربراہ آنجہانی سینیٹر جان مک کین نے چند ہفتے پہلے جاری ہونے والی اس رپورٹ کے اقتباسات پیش کیے جس میں امریکی فوج کے اسپیشل انسپیکٹر جنرل یا SIGAR نے کہا تھا کہ 49 سے 54 فیصد افغانستان طالبان کے کنٹرول میں ہے۔ سماعت کے دوران سینیٹرز نے مشہور امریکی صحافی محترمہ لارالوگن (Lara Logan) کے اس تجزیے کی طرف بھی اشارہ کیا جو لوگن نے افغانستان کے تفصیلی دورے کے بعد جاری کیا تھا۔ محترمہ لوگن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ کابل ائرپورٹ سے اپنے اڈے تک جانے کے لیے بھی امریکی فوج ہیلی کاپٹر استعمال کرتی ہے حالانکہ یہ فاصلہ صرف چند کلومیٹر ہے۔
سینیٹ میں جنرل ووٹل کی دھلائی کو صدر ٹرمپ نے بھی دیکھا اور حالات کے درست تجزیے کے لیے اپنے معتمد وزیر خارجہ پومپیو کو کابل جانے کا حکم دیا۔ دورے سے واپسی پر وزیرخارجہ پومپیو نے صدر ٹرمپ کو لگی لپٹی رکھے بغیر صاف صاف کہہ دیا کہ ان کے عسکری مقربین کو افغانستان کے زمینی حقائق کا کچھ بھی علم نہیں اور ہمارے وردی والے اس حقیقت کو نظرانداز کررہے ہیں کہ سیاہ پگڑی والے اپنے گھروں میں بیٹھے ہیں اور انھیں لڑائی ختم کرنے کی کوئی جلدی نہیں، جبکہ افغانستان میں قیام کا ایک ایک دن امریکی ٹیکس دہندگان کے خون پسینے کی کمائی نچوڑ رہا ہے، امریکی عوام نہ صرف اپنی فوج کا خرچہ اٹھا رہے ہیں بلکہ کابل انتظامیہ کا نان نفقہ بھی غریب امریکیوں کے سر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق افغانستان میں بلا ضرورت امریکی پڑائو کا خرچہ 19 کروڑ 18 لاکھ یومیہ، یا 70 ارب ڈالر سالانہ ہے۔
یہیں سے افغان مسئلے کے عسکری حل کے بجائے امن مذاکرات کے ذریعے ایک قابلِ قبول سیاسی حل کا فیصلہ کرلیا گیا۔ مذاکرات کے بارے میں طالبان کا مؤقف بڑا واضح تھا، یعنی وہ صرف اور صرف امریکہ سے مذاکرات کریں گے اور افغانستان سے غیر ملکی فوج کے مکمل، فوری اور غیر مشروط انخلا سے کم پر وہ کسی طور راضی نہیں ہوں گے۔ امریکہ نے براہِ راست مذاکرات کی شرط ترنت مسترد کردی، لیکن اس اعلان کے کچھ ہی دن بعد 27 جولائی کو امریکہ کی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز ایک وفد کے ساتھ قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر پہنچ گئیں، جہاں انھوں نے مولویوں سے براہِ راست ملاقات کی۔ اس کے کچھ ماہ بعد نومبر میں امریکی حکومت کے خصوصی نمائندہ برائے افغان مفاہمت جناب زلمے خلیل زاد نے قطر میں طالبان سے کئی گھنٹے طویل مذاکرات کیے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ ملاقات کے دوران پشتو اور فارسی میں گفتگوکی گئی۔
اس پس منظر کے بعد اب آتے ہیں اُس خط کی طرف جو جناب ٹرمپ نے عمران خان کو لکھا ہے۔ یہ خط عین اُس دن موصول ہوا ہے جب جناب زلمے خلیل زاد 8 ملکوں کے تین ہفتے کے طویل دورے پر روانہ ہوئے ہیں۔ واشنگٹن میں ان کے دفتر نے جو اعلامیہ جاری کیا ہے اس کے مطابق خلیل زاد صاحب پاکستان، افغانستان، روس اور متحدہ عرب امارات جائیں گے۔ ان کے باقی چار میزبانوں کا اعلان نہیں ہوا، لیکن اس سے پہلے کہا گیا تھا کہ امریکی سفارت کار آذربائیجان، تاجکستان، بیلجیم اور قطر بھی جائیں گے۔ سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ بیلجیم کے دورے کا مقصد نیٹو حکام کو اعتماد میں لینا ہے۔
جیسا کہ عمران خان نے خود بتایا اس خط میں پاکستان سے طالبان کو مذاکرات کی میز تک لانے کے لیے تعاون کی درخواست کی گئی ہے۔ طبیعت کے اعتبار سے عمران خان اور صدر ٹرمپ میں خاصی مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں ہی تعریف کے خوگر اور اَنا کے قتیل ہیں۔ صدر ٹرمپ اپنے ساتھیوں کے سامنے شیخی بگھار رہے ہیں کہ ان کی Tough Talkسے پاکستان کا مزاج درست ہوگیا، تو خان صاحب کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے ٹویٹ کے منہ توڑ جواب سے ٹرمپ بابا معقولیت کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ حالانکہ اصل صورت حال یہ ہے کہ افغانستان کا امن و استحکام پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے، اور اسلام آباد امن کوششوں کی ہمیشہ سے حمایت کرتا چلا آیا ہے۔
تاہم پاکستان کے لیے مذاکرات کے حوالے سے کوئی اہم کردار ادا کرنا ممکن نہیں، کہ طالبان پاکستان پر اعتماد نہیں کرتے۔ ان کے پاکستان پر عدم اعتماد یا کم ازکم تحفظات کی وجوہات بہت معقول ہیں۔ پرویزمشرف نے جس بے رحمی سے طالبان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اس کی چبھن وہ آج تک محسوس کررہے ہیں۔ سفارتی تحفظ و استثنیٰ کے باوجود طالبان کے سفیر مُلاّ عبدالسلام ضعیف کو انتہائی بے شرمی کے ساتھ امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ ملا صاحب کے مطابق پشاور ائرپورٹ پر انھیں اعلیٰ پاکستانی حکام کے سامنے برہنہ کرکے پیٹا گیا، ان کی داڑھی نوچی گئی اور افغان قوم کے بارے میں انتہائی تذلیل آمیز الفاظ استعمال کیے گئے۔ اس توہین کو طالبان آج تک نہیں بھولے۔ ابھی کچھ دن پہلے آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر صاحب نے فرمایا کہ ’’پاکستان کی خواہش ہے کہ امریکہ کامیابی کے بعد افغانستان سے واپس جائے‘‘۔ دشمن کی کامیابی کے لیے دعاگو کو کون ثالث تسلیم کرے گا! پاکستان کے تعاون کی ایک صورت غالباً یہ ہوسکتی ہے کہ طالبان قیادت اور امریکیوں کے فیصلہ کن مذاکرات پاکستان میں ہوں۔ اس کے علاوہ امن معاہدے کے بعد نیٹو افواج کے بھاری سازوسامان کی واپسی بھی پورٹ قاسم سے ہوگی۔ نیٹو افواج کا سارا غیر مہلک یا Non- Lethal سامان پورٹ قاسم کے ذریعے ہی آیا ہے۔ اس پس منظر میں صدر ٹرمپ کا خط ایک رسمی سی تحریر ہے اور اسی وزن و بحر میں اس کا جواب بھی چچا سام کے حوالے کردیا جائے گا۔ یعنی ’’ہم کو خبر ہے جو وہ لکھیں گے جواب میں‘‘۔ جہاں تک دونوں رہنمائوں کی جانب سے ایک دوسرے کا دماغ درست کردینے کا تعلق ہے تو یہ سیاسی جگالی سے زیادہ کچھ نہیں، جسے انگریزی میں Public Consumption کہتے ہیں۔ بقول مشتاق یوسفی جس بات کے جھوٹ ہونے پر کہنے اور سننے والے دونوں یکسو ہوں اسے دروغ گوئی نہیں سمجھنا چاہیے۔
امن مذاکرات کے بارے میں خوش افزا بات یہ ہے کہ جناب زلمے خلیل زاد کامیابی کے حوالے سے بے حد پُرامید ہیں اور ان کے خیال میں طالبان کے ساتھ اپریل 2019ء تک امن معاہدہ طے پاجائے گا۔ (حوالہ وائس آف امریکہ)