تبدیلی کابینہ میں…؟

ملک میں عام انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف پارلیمنٹ میں اکثریتی پارٹی قرار پائی۔ اس کے حامیوں نے کہا کہ تبدیلی آگئی۔ لیکن تین ماہ کے بعد وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں میڈیا پرسن سے ایک خصوصی نشست میںاشارہ دے دیا کہ ملک میں مڈٹرم انتخابات ہوسکتے ہیں۔ وزیراعظم کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ تبدیلی کہیں کھوگئی۔ اب تبدیلی کابینہ میں آرہی ہے، وزیر خزانہ اسد عمر سمیت متعدد وزراء کے ناموں پر سرخ نشان لگ چکا ہے، متعدد چہرے تبدیل کیے جارہے ہیں، اور کچھ وزراء کابینہ سے فارغ کردیے جائیں گے۔ وفاقی کابینہ میں ردو بدل عمومی طور پر حکومتیں مڈٹرم گزر جانے کے بعد کرتی ہیں، لیکن عمران خان کی حکومت چونکہ نئی نئی سیاسی روایات متعارف کرا رہی ہے تو یہ روایت بھی اسی میں شامل سمجھی جارہی ہے۔ وزارتِ خزانہ میں تبدیلی کو معیشت اور پالیسی کے لیے عدم منصوبہ بندی بیان کیا جارہا ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت دعویٰ کررہی ہے کہ وہ ملکی معیشت کو درست کردے گی۔ یہ کام ہونا بھی چاہیے کہ معیشت کی بہتری، خارجہ امور میں جرأت مندی اور شفافیت کے بغیر ریاست کے امور بخوبی انجام نہیں پاسکتے، لیکن حکومت سات ہفتوں کے دوران روپے کی قدر میں 11.9 فیصد کمی کرچکی ہے، اور جس تیزی سے روپیہ سستا کیا جارہا ہے، مہنگائی میں بھی اسی تیزی سے اضافہ جاری ہے۔ ڈالر مہنگا ہونے سے ملک میں مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ حکومت نے آئی ایم ایف کا مطالبہ مان لیا ہے اور اس کا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے پاگیا ہے۔ اب گیس، بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں بھی اضافہ ہوگا اور جنوری میں آئی ایم ایف پاکستان کے لیے قرضے کی منظوری دے دے گا۔
جس روز حکومت نے پہلے سو روز مکمل ہونے کا جشن منایا اسی روز ڈالر کی قیمت 142 روپے تک جاپہنچی اور حکومت نے سارا ملبہ اسٹیٹ بینک پر ڈال دیا۔ یہ صورتِ حال ملکی معیشت کی مثبت انداز میں تو ہرگز عکاسی نہیں کررہی۔ وفاقی مشیر اشفاق حسن خان کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرلینے کی بات کی تصدیق بھی ہوچکی ہے جس کے بعد قیامت خیز مہنگائی، کساد بازاری، اسٹاک مارکیٹ میں شدید مندی کے جھٹکے لگے ہیں۔ اپوزیشن کی جانب سے اسی تناظر میں باور کرایا جارہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی سو دن کی تکمیل پر کی گئی تقریر کے باعث ڈالر مہنگا ہوا ہے، کیونکہ حکومت کے پاس معیشت کو سنبھالنے کے لیے وژن ہے نہ روڈمیپ۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سمیت ملک کی ہر اپوزیشن جماعت تحریک انصاف کی حکومت میں آئے ہوئے مہنگائی کے سونامی پر تشویش ظاہر کررہی ہے۔ جب تک اقتدار نہیں ملا تھا عمران خان قوم کو یہی مژدہ سناتے رہے کہ ملک کو آئی ایم ایف کے گھن چکر میں نہیں پڑنے دیں گے اور اس کی جانب رجوع نہیں کیا جائے گا، لیکن اقتدار مل جانے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے قوم کو باور کرایا کہ معیشت کو سنبھالنے کے لیے ہمیں نئے قرضے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑ سکتا ہے۔ اس تناظر میں فی الوقت تو قوم کو اپنے سامنے مہنگائی کے نئے پہاڑ کھڑے نظر آرہے ہیں۔ کوئی چھومنتر بھی پاکستان کی روپے کی انتہا درجے کی بے قدری اور غضب ڈھاتی مہنگائی سے ریلیف نہیں دلا سکتا۔ صاف معلوم ہورہا ہے کہ حکومت گھبراہٹ میں غلط فیصلے کررہی ہے۔ ڈالر مہنگا ہونے سے ملک میں قیامت گزر گئی ہے لیکن انتخابات کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کی رادھا سو دن مکمل ہونے پر جشن منا رہی ہے، لیکن ڈالر کی قیمت میں اضافے نے اکٹھا کیا جانے والا نو من تیل ہی انڈیل کر رکھ دیا ہے۔ حکومت کو سو دنوں کی نہیں بلکہ پانچ سال کی تیاری کرنی چاہیے تھی، لیکن فیصلہ کرنے کی قوت کا نہ ہونا اس کے عمل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اور بھاری پتھر ہے۔ وزیراعظم میں قوتِ فیصلہ نہیں ہے اور وہ معیشت کے معاملات کو نہیں سمجھتے، وہ گھبراہٹ میں غلط فیصلے کیے جارہے ہیں۔
حقائق یہ ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کے پاس مکمل اختیار ہے، انہیں عدلیہ اور فوج کا بھی اعتماد حاصل ہے، اس کے باوجود یہ حکومت کام نہ کرسکی تو تحریک انصاف کو ماضی کی حکمران جماعتوں کی طرح سیاست کا کچرا بننے سے کوئی طاقت نہیں روک سکے گی۔ کچھ اندازے اور شواہد ایسے بھی سامنے آرہے ہیں جن سے اندازہ ہورہا ہے کہ وفاقی کابینہ کے وزراء پر بھی وزیراعظم کو کنٹرول نہیں ہے۔ صنعت اور زراعت دونوں شعبوں میں حکومت کہیں نظر نہیں آرہی۔ متعدد کاروباری کارٹل اور شخصیات صرف اپنے کاروباری مفادات کا تحفظ کرنے کی کوششوں میں نظر آتے ہیں۔ یہ کھینچا تانی ملکی معیشت کو درست سمت کی جانب نہیں جانے دے گی۔
ابھی ڈالر اچانک کیوں مہنگا ہوا؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ حالیہ سہ ماہی میں حکومت کو بہت کم محاصل ملے ہیں، وجہ ملک میں کاروبار کی غیر یقینی صورتِ حال ہے۔ جنوری میں حکومت کو قرض کی قسط ادا کرنی ہے، لہٰذا ڈالر مافیا نے کام دکھا دیا۔ اب حکومت قسط کی ادائیگی کے لیے مہنگا ڈالر مارکیٹ سے خریدے گی۔ تحقیقات تو یہ ہونی چاہیے کہ اس کھیل میں کون فائدہ اٹھا رہا ہے؟ سب سے پہلے تحریک انصاف اپنے اُن لوگوں سے پوچھے جو اس کاروبار سے وابستہ ہیں۔ جو لوگ ڈالر کی قیمت میں اضافے کے کھیل میں شریک ہیں وہ اس ملک سے کھلواڑ کررہے ہیں، اور یہ بھی کرپشن کی ہی ایک شکل ہے۔ اس وقت معیشت کی حالت مخدوش ہے، اس کے بعد کیا ہوگا؟ بے یقینی کی فضا قائم ہوچکی ہے اور آنے والے دنوں میں جو ہونے والا ہے، وہ عام آدمی کو بھی متاثر کرے گا۔ یہ گراوٹ آئی ایم ایف کی وجہ سے بھی نہیں ہے۔ بہتر یہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان سوچیں، کہ اب وہ حکومت کے سربراہ ہیں، اپوزیشن لیڈر نہیں ہیں۔ حکومت کے پہلے سو دن تو جیسے تیسے کرکے گزر گئے ہیں، اب اپوزیشن پارلیمنٹ کے اندر اور باہر متحرک ہونا شروع ہوجائے گی اور حکومت کے پاس بطور انتظامیہ کوئی جواب نہیں ہوگا۔ تحریک انصاف کو چاہیے کو اپنے پائوں زمین پر رکھے اور پھر حقائق کے مطابق فیصلے کرے، کیونکہ ڈالر کی اڑان سے معیشت پر 3500 ارب ڈالر کے قرضوں کا مزید بوجھ پڑچکا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی حکومت کو مشکلات میں لے جارہی ہے۔
اب کچھ احوال خارجہ امور کا، جس میں معیشت کی بحالی اور بہتری کے بغیر نتائج نہیں مل سکتے۔ یہ بات اب تسلیم شدہ ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) نے نہ صرف پاکستان بلکہ خطے بھر میں تعمیر و ترقی کی بنیاد رکھ دی ہے، اس معاشی منصوبے سے پاکستانی عوام کو قابلِ ذکر فوائد حاصل ہورہے ہیں۔ پاکستان کے لوگوں کی زندگیاں بدل رہی ہیں، اس کے ٹھوس نتائج نظر آرہے ہیں۔ سی پی سی نے پاکستان سمیت دنیا بھر کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہمیشہ سے بہترین تعلقات قائم کیے ہیں۔ چینی صدر کی جانب سے متعارف کروائے جانے والے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو (بی آر آئی)کے پانچ اہم اصول ہیں جن میں پالیسی سازی، رابطہ سازی میں سہولت، بلاتعطل تجارت، معاشی انضمام اور عوام کے مابین بہتر تعلقات شامل ہیں۔ لیکن پاکستان کے پاس تجارت کے ذریعے پاک چین تعلقات کے فروغ کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ہے اور چین اس کا منتظر ہے کہ پاکستان کوئی ایسا منصوبہ لائے جس میں چین سرمایہ کاری کرے۔ وہ ہمیں قرض دینے کے بجائے باہمی تجارت کو ترجیح دے رہا ہے۔ چین 80 ارب سے زیادہ رقم ہاتھ میں لیے پاکستانیوں سے وہ منصوبے مانگ رہا ہے جن کی تکمیل اس کی سرمایہ کاری سے ممکن ہوسکے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے مخصوص تقاضے ہوتے ہیں، ٹھوس مفادات ہوتے ہیں۔ ایک مشکل یہ بھی سامنے آرہی ہے کہ حکومت کی ترجیحات ہی معلوم نہیں ہوسکیں۔ اسی بارے میں چینی میڈیا ماضی میں کچھ اشارے دے چکا ہے۔ چینی اسکالروں کا محتاط اعتراف یہ بھی ہے کہ پاکستان میں سی پیک کے بارے میں کچھ منفی جذبات پیدا کیے جارہے ہیں، کئی منصوبے ایسے بھی ہیں جن کا آغاز یا بروقت تکمیل وفاق اور صوبوں کے درمیان اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے ممکن دکھائی نہیں دے رہی۔ سب سے اہم بات یہ کہ سی پیک کو مفید تر بنانے کے لیے چند ’’آئینی اور قانونی‘‘ فیصلے درکار ہیں۔ ان قوانین کی عدم موجودگی میں خدشہ ہے کہ چین کی سرمایہ کاری سے شروع ہوئے کئی منصوبے عدالتی مداخلت کی بناء پر روکنا پڑیں۔ سابق حکومت کے دور میں چینی سفیر نے چیف جسٹس سے اس معاملے پر ملاقات بھی کی تھی۔
سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن نظرثانی کیس کی سماعت ہوئی۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویزالٰہی سے ریونیو ریکارڈ مانگا گیا ہے۔ ان سے بنیادی سوال اس 2210 ایکڑ پراپرٹی سے متعلق ہے جو ملک ریاض کو ٹرانسفر ہوئی ہے۔ ملک ریاض کا مؤقف ہے کہ 1741 ایکڑ اراضی دی گئی۔ چیف جسٹس دراصل وہ بات پوچھ رہے تھے جس میں ملک ریاض نے اراضی کا تبادلہ کیا۔ یہ اراضی چودھری شجاعت کی اہلیہ، چودھری سالک اور اپنے ملازم چودھری منیر کو منتقل کی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم حقائق منگوا لیں گے۔ ہم نیب، ایف آئی اے یا پھر جے آئی ٹی بنا کر تحقیقات کرا لیتے ہیں، آپ کو حد بندی کا اختیار نہیں تھا۔ حکومتِ پنجاب نے بھی کہا کہ اختیارات سے تجاوز کیا گیا ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے چیف جسٹس کی توجہ فیصلے کی جانب دلائی تو چیف جسٹس نے پرویز الٰہی سے کہا کہ آپ کے بارے میں عدالتی فیصلہ ہے، آپ کے خلاف فائنڈنگ آئی ہے، جج صاحب نے میری توجہ دلائی ہے۔ اس کے بعد فیصلہ پڑھا جس میں لکھا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کو سرکاری زمین پر قبضہ دلانے کے ذمہ داروں کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کیا جائے اور عمل درآمد بینچ فیصلے پر عمل کو یقینی بنائے۔ چیف جسٹس کی عدالت میں وزیراعظم عمران خان کے گھر سمیت بنی گالہ تعمیرات کیس کی بھی سماعت ہوئی۔ اس کیس میں چیف جسٹس نے کہا کہ ہر وہ شخص جو انصاف کے لیے کھڑا ہوتا ہے، حکومت اُسے نکال دیتی ہے۔