دانشور حامد کمال الدین سے فرائیڈے اسپیشل کا مکالمہ

عرفان احمد بھٹی/عبدالرئوف
تدوین عبدالحمید رازی
آخری حصہ
حامد کمال الدین عربی اور علومِ اسلامی کے اسکالر ہیں۔ تعلیم و تدریس اور دعوتی و فلاحی اداروں سے وابستہ رہے۔ اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے فارغ التحصیل ہوئے۔ دورانِ طالب علمی ڈاکٹر عبداللہ عزام کے شاگرد رہے۔ عصرِ حاضر میں احیائے دین کی تحریکیں اور شخصیات آپ کی دل چسپی کا خصوصی موضوع ہے۔ بعض عربی جرائد میں عربی زبان میں تحریر و تصنیف کا آغاز کیا۔ 1999ء میں سہ ماہی علمی جریدہ ’’ایقاظ‘‘ جاری کیا جس کے ایڈیٹر ہیں۔ اس سے قبل کویت میں ایک فلاحی ادارے کے تعلیمی شعبے کے سربراہ رہے۔ 8 برس تک امریکہ میں ایک اسلامی سینٹر کے سربراہ بھی رہے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمانوں، جدید تعلیمی اداروں کے طالب علموں میں دعوتِ دین کا کام کیا۔ اس کے علاوہ نومسلموں کی تعلیم و تربیت اور دینی و نفسیاتی رہنمائی (Counseling) بھی کرتے رہے ہیں۔ 30 سے زائد کتب کے مصنف ہیں جن میں ابن تیمیہ اور محمد قطب کی کتابوں کے ترجمے بھی شامل ہیں۔ اسلامی تبدیلی کے معاشرتی پہلو، مسلمانوں میں وحدیت، گمراہی کی جدید شکلوں سے آگاہی پر زیادہ ارتکاز رہا ہے۔ حامد کمال الدین سے مسلمانوں اور اسلامی بیداری کے حوالے سے ہونے والی کوششوں کے بارے میں مکالمہ کیا گیا۔ اس کے اقتباسات ملاحظہ کیجیے۔

سوال:کیا یہ مولانا مودودیؒ کی ناکامی ہے کہ وہ ایسے آدمی پیدا نہیں کرسکے جو معاشرے میں اُن کے مشن کو آگے بڑھاتے؟
جواب: ایک آدمی سے آپ ہر طرح کی توقع نہیں لگا سکتے، بعض آدمی خود بہت کمال کے ہوتے ہیں لیکن وہ آگے یہ کمال منتقل نہیں کرسکتے، کچھ لوگ یہ کمال آگے منتقل کردیتے ہیں تو نتائج وہ نہیں آتے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں مختلف صلاحیتیں رکھی ہیں، اُس دور میں جب مولانا مودودیؒ زندہ تھے اور آج بھی جب وہ زندہ نہیں رہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ رجالِ کارکی تیاری کا ایکمنصوبہ بنایاجائے، آپ ایسا ادارہ قائم کریں جس میں لوگوں کو اسکالرشپ دیں اور اُن سے کہیں کہ آپ جس یونی ورسٹی میں چاہے پڑھیں لیکن شام کو آپ کو ہمارے ادارے میں آکر دین سیکھنا ہے اور آپ کی اسکالرشپ اسی بنیاد پر قائم رہ سکتی ہے کہ آپ کے مارکس یہاں پر بہترین ہوں۔ تو اس طریقے سے آپ ہر سال سیکڑوں ایسے طالب علم تیار کرسکتے ہیں جوآپ کے مشن کے حقیقی وارث قرار پائیں گے۔ اس طرح جو لوگ تیار ہوںگے وہ معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے بہت اہم ہوں گے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ یونی ورسٹی بنائیں، کالج بنائیں، بلکہ ان ہی کالجوں اور یونی ورسٹیوں سے لوگوں کو لیا جائے۔ اب چوٹی کے 500۔ 1000یا 100۔200 ایسے نوجوانوں کو منتخب کرلیں ،جو پہلے سے ہی دینی رجحان رکھتے ہوں۔ لاہور، اسلام آباد جیسے شہروں کے اندر آپ ایک ہوسٹل بنادیں کہ آپ کو یہاں رہ کر دین کا کچھ حصہ ہمارے یہاں پڑھنا ہے۔
ان میں سے اگر اچھے 10 ادیب بھی پیدا ہوگئے تو آپ کے لیے کافی ہیں۔ مولانا مودودی صاحب ہوسکتا ہے کہ بہت سی چیزوں کی قربانی دے کر یہ کام کرتے ہوں، ہوسکتا ہے اپنے بچوں کو وقت نہ دے پاتے ہوں۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ آپ چیز میں Outstanding ہوجائیں، اور ایک چیز میں Outstanding ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ 20 چیزوں میں صفر ہوگئے ہیں تب جاکر کہیں ایک چیز میں غیر معمولی رفعت اور کمال حاصل کرتے ہیں۔ ہر چیز میں آپ باکمال ہوجائیں تو پھر یہ حقیقی کمال ہے جو فقط انبیاء کو ہی حاصل ہے۔ میرے خیال میں ان (مولانا مودودیؒ) کے جو بس میں تھا وہ کیا، اورکچھ چیزوں میں ان کا کردار کمال کا ہے۔ عصری اسلوب اور سلیس پیرائے میں دینی لٹریچر کی تیاری، اتنی بڑی تحریک، سیاسی تحریک کی قیادت… یہ چیزیں ان کے کمال پر دال ہیں۔ ان کی سبھی مصروفیات بہت اہم تھیں، کیوں کہ وہ جنگ اُس مقام پر جائے بغیر لڑی نہیں جاسکتی تھی جو انہوں نے لڑ کر دکھائی۔ کہنے کو آپ کہہ سکتے ہیں کہ انہوںنے یہ نہیں کیا، وہ بھی نہیں کیا، لہٰذا یہ مولانا مودودیؒ کی ناکامی ہے، فلاں ناکامی ان سے منسوب ہے۔ کیوں بھائی کسی کی شخصیت کی جانچ کا آخر یہ کون سا طریقہ ہے! کیا وہ نبی تھے؟ کہ ہر معاملے میں ہی باکمال ہوتے! اللہ تعالیٰ نے اپنے خصوصی کرم سے یہ ایک Strength ان کے حق میں کردی اور اُن سے وہ کام کروادیا جو ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔
ۨسوال: آج اسلام کے مخالفین بطور پروپیگنڈہ یہ دلیل پیش کر رہے ہیں کہ ہماری تاریخ تو عیاشیوں کی تاریخ تھی، کیا یہ تاثر ٹھیک ہے؟
جواب :میرا خیال آپ سے مختلف ہے، میرے مطابق وہ اس سوچ کے نہیں تھے جو آپ کہہ رہے ہیں، لیکن لوگوں نے اُن کی تحریر سے جو اُن کو سمجھا ہے وہ بالکل ایسا ہی ہے۔ وہ ایک داعی بھی تھے اور لکھاری بھی تھے، اور ایسا بھی نہیں ہے کہ ایک بندے کو پتا ہی نہ چلے کہ جو لکھ رہا ہے اُس سے کیاپیغام جائے گا۔
اس حوالے سے میں کہوں گا کہ اُن کی تحریروںمیں جھول رہ گیا ہے، باوجود اس کے کہ سید قطب نے بھی ’’ عدل اجتماعیہ‘‘ میں اسی طرح کی باتیں لکھی ہیں جو مولانا نے ’’خلافت و ملوکیت‘‘ میں کی ہیں، لیکن سید قطب نے اس بات کا جواب دیا ہے کہ یہ گالی ہمیں مستشرقین نے دی ہے کہ ہمارا نظام(خلافتِ راشدہ کا نظام) صرف 30سال میں گول کر دیا گیا۔ تو یہ گالی مستشرقین نے بھی دی ہے کہ آپ اپنی تاریخ کے معاملے میں انتہائی معذرت خواہانہ،سہمے ہوئے،ڈرے ہوئے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ بھائی ہم نے صدیوں تک دنیا بھر میں اسلام کا ایک اعلیٰ تصور پیش کیا ہے، ہر سطح کے اوپر ایک اعلیٰ نقشہ اللہ کا شکر ہے پیش کیا ہے اور بطور انسان پیش کیا ہے، اور وہ جو 30سال ہیں وہ انسانیت کی بلند ترین سطح کا پتا دیتے ہیں۔ وہ حسن اور وہ کمال تو بعدمیں پیدا نہیں ہوا، کیوں کہ وہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تراشا ہوانظام تھا،اور آئیڈیل تھا۔ مولانا نے بھی آئیڈیل کو پیش کیا ہے، ورنہ اسلامی نظام کے تمام تر معاشی، معاشرتی، تعلیمی، تہذیبی اور تمدنی پہلو تو خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے تک قائم رہے ہیں، اور تہذیبی اور انسانی سطح پر صدیوںتک ہم تہذیب و تمدن کے آسمان پر چھائے رہے ہیں اور ساری قوموں نے ہمارا پانی بھرا ہے۔وہ پستیوں سے ہماری رفعتوں اور بلندیوں کا نظارہ کرتے ہیں۔
سوال: لبرل ازم کے خلاف جنگ میں ہمار ا جوابی نقطہ نظر کیا ہوگا؟
جواب: بطور اُمت ہماری پرفارمنس کمال کی رہی ہے، لیکن سیاست میں ایسا نہ ہوسکا۔ اسلام انسانیت کے لیے ہدایت ہے، اس حوالے سے اگر آپ تاریخ پر نظر ڈالیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مبعوث ہونا اور انسانوں کو جہالت کے گڑھوں سے نکال کر روشنی کے سفر پر گامزن کرنا… یہ بھی تو ایک تاریخی حوالہ ہے۔ آپ اس حوالے کو چھوڑ کر صرف سیاسی تاریخ اُٹھاکر بیٹھ جاتے ہیں۔ ہندوستان کی مثال لے لیں، لوگ کس قدر چھوت چھات، دیوی دیوتا اور ذات پات میں مبتلا تھے، اور عورتوں کی زندگی تو خرافات اور ضعیف الاعتقادی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی، کس طرح اسلام نے اس گندگی کو صاف کیا۔ اس سے پہلے اس نوع کی کوئی تاریخ دکھا دیں جس نے کوئی خاص کارنامہ انجام دیا ہو۔ آپ تھوڑا بہت تاریخی دلیل ماننے والے کسی لبرل سے پوچھ لیں تو آپ کو صاف پتا چل جائے گا کہ خطۂ ہند کو علوم و فنون سے متعارف کروانے والا اسلام ہی ہے۔ اندلس کی تاریخ پر سرسری سی نظر ڈال لیں، وہاں جو لائبریریاں، یونی ورسٹیاں، علوم و فنون اور دیگر شاہ کار نظر آئیں گے اُن کے پیچھے آپ اسلام کو کھڑا پائیں گے۔ آج کل جیسے آپ کے بچے آکسفورڈ اور کیمبرج میں پڑھنا قابلِ فخر محسوس کرتے ہیں اُس وقت قرطبہ کی یونی ورسٹی میں پڑھنا اپنے لیے موجب افتخار اور باعثِ اعزاز سمجھتے تھے۔
اس کا تاریخی پس منظر دیکھیں گے تو پتا چلے گا کہ یہ علوم و فنون کہاں سے آپ کو مل رہے ہیں۔ عرب کے اکثر باشندے آخری درجے کے بدو تھے، جن کے اندر اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ یہی بدو جاکر اندلس میں یونی ورسٹیاں بنا کر بیٹھے ہیں۔ یہ کون سی طاقت ہے جس نے انہیں اس قابل بنایا؟ اس کا جواب دو اور دو چار کی طرح اسلام اور فقط اسلام ہی ہے۔ دیکھیے اسلام کے بہت پہلو ہیں، اس میں بلند پایہ اخلاقیات ہیں، سوسائٹی کے سدھار کی صلاحیت ہے، ہدایت فراہم کرنے کا پہلوہے، تہذیب و تمدن کی تعمیر اور نشوونما کا پہلو ہے۔ ان مختلف النوع میں سے ایک پہلو وہ ہے جسے ہم سیاست کہتے ہیں۔ یہ بھی اسلامی علوم کی ایک شاخ ہے جس کا انکار کوئی صاحبِ عقل و دانش نہیں کرسکتا، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ آپ جس حوالے سے اسلام کی تعبیر و تشریح کریں گے اسی حوالے سے آپ کو تاریخ ملے گی۔ ان حوالوں سے اگر آپ اسلام کی تاریخ پڑھیں گے تو آپ کو چہار سو روشنی ملے گی، اور اس ضمن میں بڑی صدیوں سے آپ کو اپنا کوئی ہمسر اور مدمقابل نظر نہیں آتا۔
اب اتفاق یہ ہے کہ بالکل آخری صدیوں میں یورپ میں نئی اٹھان شروع ہوئی ہے جسے آپ یورپ کی نشاۃ ثانیہ کا دور کہہ سکتے ہیں۔ یہ عین وہی وقت ہے جب ہمارے حکمرانوں نے سب کچھ سمیٹ کر تاج محل بنانا شروع کیا، اور اسی طرح انہوں نے باغات لگوائے اور مقبروں کی تعمیر پر اپنی ساری صلاحیتیں صرف کرڈالیں۔ ہماری تعلیمی، تحقیقی اور سائنسی بنیادوں پر کام نہیں ہوا، جبکہ کارگہِ حیات میں ترقی اور فلاح و بہبود کا راز انہی عناصر میں مضمر ہے۔
ایک غیر معمولی قسم کا ٹھیرائو اور جمود آپ کو عالم اسلام میں آخری صدی میں نظر آئے گا۔ اب یہ اتفاقی حادثہ ہے، اسے آپ بین الاسلامی سانحہ اور المیہ قرار دے سکتے ہیں۔ اب ایک متشکک انسان اس واقعے کو اس تناظر میں دیکھے گا کہ ایک طرف عالمِ اسلام پسپا ہورہا ہے تو دوسری طرف عالمِ مغرب دنیا پر چھاتا چلا جارہا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ مغرب کے پاس جادو کی کوئی ایسی چھڑی تھی کہ جس کا مقابلہ نہ کرسکنے کے نتیجے میں عالم اسلام کو پسپا ہونا ہی تھا۔ مطلب یہ کہ جوں جوں مغرب آگے بڑھتا گیا توں توں عالم اسلام پیچھے ہٹتا گیا، اور یہ کہ مسلمان من حیث الکُل قرون اُولیٰ کی خصوصیات کھو بیٹھے ہیں۔ میں اور آپ اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں اور تاریخ کے اوراق بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاضی پڑھائی اور نہ الجبرا پڑھایا، لیکن اُن لوگوں کے اندر حصولِ علم کی ایسی جوت جگا دی کہ سارے میتھ کو یوں چٹکیوں میں ہضم کرلیتے ہیں۔ یہ عرب ہی تھے جنہوں نے دنیا کے مختلف ممالک میں پائے جانے والے علوم بہت ہی قلیل وقت میں ازبر کرلیے۔ اصل میں آپ کے پاس ایک عظیم اور بامقصد زندگی ہوتی ہے، جب اس بامقصد زندگی کا شعور اور ادراک ہمیں ہوگیا تو پھر سارے علوم سے ہمارا دامن بھر گیا۔ اس طرح صدیوں تک آپ (مسلمان) نے دنیا کی راہ نمائی کا فریضہ سر انجام دیا۔
اب اس کا اور رُخ بھی دیکھ لیں۔ سرسید کے عہد میں جب یہ کہا جاتا تھا کہ اگر ہم نے ان اہلِ مغرب کے علوم کو نہ پڑھا تو ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے۔ گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے ہم ان کے علوم کو ہی پڑھ رہے ہیں پھر بھی پیچھے ہیں۔ یعنی وہ فاصلہ جو اُن میں تھا وہ بڑھ تو گیا ہوگا، گھٹا نہیں۔ وہ لوگ جہاں پر تھے وہ اُس سے زیادہ آگے چلے گئے۔ فاصلہ تو اتنا ہی ہے یا اس سے زیادہ برقرار ہے، البتہ ایک کام ہم نے ضرورکیا ہے، وہ یہ کہ اس کام کے لیے ہم نے اپنا دین ضرور دے دیا ہے، ملت کے مفاد کو ضرور بیچا ہے۔ اس کے عوض جو کچھ لینے کے ہم خواستگار تھے وہ ہمیں نہیں ملا۔ جب ہمارے پاس دین کا اثاثہ اپنی فاعلی حالت میں موجود تھا تو چند برسوں میں سب کچھ لے لیا تھا۔ اب دین کی پونجی ہمارے پاس نہیں ہے تو ڈیڑھ سو سال میں کچھ بھی نہ لے سکے۔ جب آپ کے اندرسے دینی حمیت ختم ہوجاتی ہے اور فاعلیت مرجاتی ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہر قوم سے منفرد ہونا آپ کا خاصا ہے، آپ کو مزا ہی اُس وقت آتا ہے جب آپ سوچتے ہیں کہ آپ اُس (مغرب) جیسے لگتے ہیں یا نہیں۔ وہ ایک غالب قوم ہے، اس کی نقالی میری اور آپ کی کمزوری ہے۔ میں اگر مکمل طور پر اُس جیسا لگوں تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے کہ ہاں اب ٹھیک ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ قوموں میں زندگی کی جوت جگائی جائے، اور زندگی کی جوت ہمارے ہاں اللہ کا شکر ہے بہت صدیوں تک جاگی رہی۔ اب یہ نہ سمجھیے کہ باقی قومیں بالکل نکمی تھیں۔ ہندو کو لے لیجیے، وہ دفعتاً میدان میں نہیں آگئے تھے، بلکہ انہوں نے ہماری ملّی اور سیاسی صورتِ حال کا گہرا ادراک حاصل کیا اور پھر میدانِ عمل میں ہمارے مقابل آگئے۔ برصغیر میں انگریز تو آیا ہی تھا، اس نے آکر ہندو کو بھی بیدار کیا، اسے مہمیز لگائی، حالانکہ انگریز کی آمد سے پہلے بھی ہندو تو موجود ہی تھے، اس لیے یہ خطہ ارضی انھی کے نام سے موسوم ہے۔ آبادی تو پہلے بھی تھی ہندوئوں کی، لیکن ان کا کہیں Contribution نظر نہیں آتا تھا۔ اُس وقت اتنی بڑی آبادی غیر متعلق ہوئی پڑی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم تہذیب و تمدن میں اُن سے نمایاں تھے، ثقافتی اعتبار سے ہمیں اُن پر برتری اور فوقیت حاصل تھی۔ تہذیب کے اندر Rich ہونا قوموں کو سب کچھ دے دیتا ہے۔ یہ جو ہاتھ کی چیزیں ہیں یہ آ بھی جاتی ہیں اور چلی بھی جاتی ہیں، مسلمان نفس کا غنی ہوتا ہے، استغنا مسلمان کی بہت بڑی دولت ہے۔ اس لیے میں آپ سے بہ اصرار کہتا ہوں کہ مسلمانوں کو نفس کا بڑا بنائیں، ان میں استغنا کی شان پیدا کریں۔
جو زوال تھا وہ اصل میں علم کا زوال تھا۔ آپ سے عرض کروں، باقی سب چیزیں چھوڑ دیں، علم ہی قوم کو مہمیز دیتا ہے، ترقی کی راہوں کا مسافر بناتا ہے۔ صحیح علم اور اس کا نسخہ بڑی دیر تک مسلمانوں کے پاس موجود رہا۔ علم کی دوئی مسلمانوں کے پاس نہیں تھی (مطلب دین اور دنیا کو الگ الگ تصور کرنا)۔ علم آپ کو صحیح فائدہ تب دیتا ہے جب اُس کے اندر حقائق ہوتے ہیں۔ جب علم ہی کے اندر آپ مقلد ہوں تو پھر بھلے پی ایچ ڈی ہوں، یہ علم کی Orignality نہیں ہے۔ آپ کے پاس علم کی اصالت کا ہونا ضروری ہے، اسی کے ذریعے آپ بالکل طبعی اور فطری انداز میں دین اور دنیا کو دیکھ سکتے ہیں، یعنی دنیا اور آخرت دونوں کے معاملات آپ کی نظروں کے سامنے ہوتے ہیں۔
قرآن کریم کی سادگی دیکھیے کہ اس میں ہر نوع کے علوم موجود ہیں، لیکن ان میں ابہام اور پیچیدگی نہیں ہے۔ قرآن نے انتہائی سادہ انداز میں ساری گتھیاں سلجھائی ہیں۔ گویا سادگی ہی قرآن مجید کا طرۂ امتیاز ہے، سادگی سے ہی علوم میں اصلیت پیدا ہوتی ہے۔ آپ ذرا یہود و نصاریٰ وغیرہ کے علوم پڑھ کر دیکھیں، دماغ گھوم جاتا ہے۔ نصاریٰ کے شرعی علوم پڑھنے میں آپ کو پتا نہیں کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، جب کہ اسلام کے سارے علوم سادہ ہیں۔ مطلب یہ کہ آج بھی آپ کو سارے علوم اس قدر خوش اسلوبی سے میسر ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بہت اچھے زمانے میںمدّون ہوگئے، اس طرح علمی روایت کا ایک تسلسل بن گیا۔ اسلام کے علوم میں ایک سادگی اور گہرائی تھی۔ مسلمانوں کو علمی حوالے سے سب سے پہلا جھٹکا عباسی دور میں لگا، جب دارالترجمہ کا قیام عمل میں لایا گیا اور باہر کی بہت سی چیزیں اس میں شامل کی گئیں۔
حضرت عمرؓ اس بارے میں بہت سختی برتا کرتے تھے۔ ان کے سامنے جب کوئی شخص دوسری شرایع کے علوم کی بات کرتا تھا، تو آپؓ فرماتے تھے کہ تمہیں پتا نہیں ہے کہ نبوت نے تمہیںکیسی کفایت عطا کردی ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ کا قول ہے کہ انبیاء علم کو کفالت عطا کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ جب کوئی قوم ہدایت سے ہٹتی ہے تو اُن کو ایک ’’جدل ‘‘ عطا کیا جاتا ہے۔ جدل فلسفے کے معنوں میں آتی ہے، مطلب یہ کہ اب آپ لوگ جدلیات میں پڑ گئے ہیں۔ ہماری علمی روایت وہیں سے زوال پذیر ہونا شروع ہوئی۔ بہت سارے اہلِ علم کو ان مجادلین کے اُٹھائے گئے سوالات کے جوابات دینے میں مصروف ہونا پڑا، تو پھر اس وقت آپ کے ہاتھ سے علوم کی اصلیت چھوٹ گئی۔ پھر یہ بھی ہوتا تھا کہ اُس وقت کے جو نامی گرامی علما تھے، اُن کے لیے یہ چیزیں بھی ضروری قرار پائیں کہ ان لوگوں کو عقلی علوم میں بھی دسترس حاصل کرنا پڑی تاکہ وہ اُن کے علوم کے ماہرین کو برابر کی سطح پر جواب دے سکیں۔ یہ ایسا وقت تھا کہ بے شمار اندرونی اور بیرونی فتنوں نے سر اُٹھایا۔ آج کل فلسفہ پڑھنا آپ کی ضرورت بن گیا ہے۔ پہلے فلسفہ پڑھنا، اس میں اہلیت پیدا کرنا ضروری نہیں تھا۔ بہت ہی سادہ انداز میں ہم دین پڑھتے تھے، اور بہت ہی سادہ انداز میں دنیا۔ وہ عصری علوم پڑھتے تھے۔ محمد قطب لکھتے ہیں کہ یہ جو تجرباتی سائنس ہے اس کے شیوع سے پہلے ہی میں ایک پختہ ایمان رکھنے والامسلمان ہوں۔ سائنس اور فلسفہ کو الگ کرنے والے مسلمان ہی ہیں۔ فلسفہ کیاہے، یہ مفروضوں کی دنیا ہے۔ یونانی اہلِ علم بیٹھے ہوئے ہیں اور قیاس کرکے فرضی باتوں پہ دماغ لڑا رہے ہیں۔ صدیوں تک مشغول رہے کہ دو الگ الگ وزن کے پتھر جو ہیں وہ الگ الگ بلندیوں پر سے گرائیں گے تو بھاری پتھر پہلے گرے گا یا دوسرا؟ ایسے فلسفیوں کے لیے ہمارا جواب فقط یہی ہے کہ بھائی گراکر دیکھو لو، تمہاری عقل تو مفروضوں کی بھول بھلیوں میں سرگرداں رہے گی۔ تم ان پتھروں کو اپنے سامنے گرتے دیکھ کر ہی کسی نتیجے پر پہنچنے والی قوم ہو۔ اُس وقت عقل یہ تھی مفروضے گھڑنے والی، تو انہوں نے تحقیق کا اسلوب متعارف کروایا، لوگوں کو تحقیق کا مزاج دیا، ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اُس چیز کے پیچھے مت جائو جس کا تمہیں علم نہیں ہے، چیزوں کی حقیقت جو ہے اس کو جانچنا دیکھنا… یہ دراصل مسلمانوں نے شروع کیا۔ فلسفے اور سائنس کو الگ کرنے والے مسلمان ہیں۔ مسلمانوں کے علوم سادہ ہیں، دنیاوی بھی، دینی بھی اور سائنسی بھی… اور رہن سہن بھی سادہ ہے۔ اگر دیکھا جائے تو مسلمانوں کی کامیابی ہی سادگی میں تھی۔ ان کے کھانے، طرزِِ بود و باش، پہناوے، رہن سہن… ہر چیز کے اندر اصلیت، سادگی اور ایک کھرا پن، خالص پن تھا۔ حقیقت کو سادگی سے لینا اور سائنس کو قرن اوّل کی نظرسے دیکھنا… تو جب تک ان دو چیزوں کااثر مضبوط رہا اور طاقت کا توازن مسلمانوں کے حق میں رہا، اُس وقت تک مسلمان مضبوط اور مستحکم رہے، جیسے جیسے اسلامی ذہن عقلیات کی طرف جاتا گیا، ویسے ویسے صحرا کے اندر گم ہوتا گیا۔ اس طرح اس کی فضیلت اور برتری ختم ہوگئی، پھر بہت عرصے بعد اس میں جمود بھی آگیا۔
مسلمانوں کی طرزِ معاشرت کی سادگی ملاحظہ فرمائیں کہ ہمارے اسلاف کہتے ہیں اسلام میں سب سے پہلی بدعت آٹا چھاننے کی آئی۔ یہ پورے مسلم طرزِ زندگی کی گویا ایک جھلک ہے۔ پھر رفتہ رفتہ تعیش آیا، اگرچہ اس طرح پائیداریبھی قائم ہوگئی، معیشت میں بہتری آئی، معاشرت کی بلند قدروں کو فروغ ملا۔ اس طرح اس کا عروج ہارون الرشید کے زمانے میں آتا ہے۔ الف لیلہ کی کہانیاں بھی اسی دور سے متعلق ہیں، تصوف بھی اسی عہد میں عام ہوا، اور تصوف بھی اسلام میں تعیش کا ردِعمل تھا۔ تعیش کی وجہ سے جو زوال آیا اس کا پہلا نتیجہ علم کے اندر ٹیڑھ اورکجی کی صورت میں نکلا، اسی دور میں لونڈیوں کی خریدو فروخت، شاعری اور قصہ گوئی وغیرہ یعنی نفس پرستی کے جو جو ذرائع ہوسکتے تھے، وہ سب استعمال کیے گئے۔ یہ سب تعیش ہی تھا، اسی کے رد میں تصوف آیا۔
دوسرا کام ترکِ جہاد تھا۔ ترکِ جہاد کوئی چھوٹا سا مسئلہ نہیں تھا، یعنی آدھی دنیا آپ نے فتح کرلی تھی۔ محمد قطب کہتے ہیںکہ ایک تو تعیش نے مارا، اور اس کے توڑ کے طور پر جو تصوف آیا اُس نے بھی اسلام کو نقصان پہنچایا۔ اس طرح دہری مار ہمیں پڑی۔ تصوف میں قرن اوّل کا جو پیکیج تھا یعنی حسن بصریؒ کے دور والا، وہ اور چیز تھی، لیکن اس کے بعد والا تصوف کا پیکیج چیزے دیگر تھا۔
یہ جو دین اور دنیا کی دوئی تھی اُس کا واحد سبب تصوف کا وہ تصور تھا جو بعد کے ادوار میں سامنے آیا۔ دنیا کی مذمت میں کہہ دیتے تھے کہ دنیا جاتی ہے تو جائے اُس کی قطعاً پروا نہ کرو۔ کوئی ان سے پوچھے اتنی مشکل سے حاصل کی گئی دنیا کو یوں کیسے تیاگ دیں! یہ موٹو اساساً باطل تھا۔ قرآن تو مال کو خیر کہتا ہے، کہ اگر مال خدا پرست کے پاس ہوگا تو سراپا خیر ہوگا، اور اگر دنیا پرست کے پاس ہوگا تو سراپا معصیت و مصیبت ہے۔ ملوکیت اور اس کے نتیجے میں تعیش کا مرض پیدا ہوا جس نے جہاد کے جذبات پر اوس ڈال دی، اور یوں مسلمانوں میں ترکِ جہاد کا مرض پیدا ہوا جو رفتہ رفتہ بڑھتا چلا گیا۔ یورپ جب اٹھا تو اس سے پہلے ہی اپنی فضیلت کھو چکا تھا۔
ہمارے کچھ لوگ، آخری دورکے لوگ یورپ کی روشن خیالی کو ہمارے زوال کا سبب قرار دیتے ہیں، حالانکہ یہ ایک بہت ہی سطحیذہنیت ہے۔ ہماری تہذیب جب علوم سے معمور ہوچکی تھی، اُس وقت یورپ کی روشن خیالی (Enlightment) شروع ہوئی تھی، وہ ہمارا کیا کرسکتی تھی؟ لیکن بلند پایہ اخلاقی اور تہذیبی قدروں سے جب ہمارا برتن خالی ہوگیا تب انہوں نے ہم پر غلبہ پالیا۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے پاس ایسی مدافعتی قوت نہیں تھی جو یورپ سے اٹھنے والی بیداری کے سامنے بند باندھ سکتی۔ یہ بات بہت گمراہ کن ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر قرونِ اولیٰ کی طرح مسلمانوں کا کلچر سادگی اور جہاد کے عناصر سے مزین ہوتا تو پھر وہ مسلمانوں کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے تھے۔
مسالک کی تاریخ کو دیکھیں تو تقریباً ڈیڑھ سو سال تک ملتی ہے۔ یہ وہی دور ہے جب ہمارا زوال ہوگیا تھا۔ ایک مذکورۃ الصدر سبب اور دوسرا ہمارا دورِ زوال ان مسالک کی تاریخ کا نقطہ آغاز ہے۔ اس سے پہلے کیا تھا، مجدد الف ثانیؒ کے دور میں دین میں تحریف کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہوا یہ کہ دین فروش اور جاہ پسند مولوی، اکبرکی گود میں جا کر بیٹھنا شروع ہوگئے۔ اسلام کا جو بنیادی عقیدہ ہے عوام کی سطح پر اُس میں کبھی اختلاف ہوا ہی نہیں، یہ اللہ کا بڑا شکر ہے۔ ڈیڑھ سو سال منفی کردیں تو مسالک کی تاریخ ہمیں زیرو پوائنٹ پر کھڑی نظر آئے گی۔ بہت سارے فرقے کتابوں میں ملتے ہیں۔
فقہ کا جو اختلاف ہے شافعی، مالکی،حنبلی اور حنفی کے درمیان… یہ اپنی اصلیت کے اعتبار سے ویسا ہی اختلاف ہے جو آپ کو عبداللہ ابن عمرؓ اور ابن عباسؓ میں نظر آتا ہے… جو حضرت عائشہؓ کے درمیان اور عبداللہ ابن مسعود ؓ کے درمیان نظر آتا ہے… یہ وہی اختلاف ہے جو By Nature حنفی اور شافعی میں نظر آتا ہے۔
اس کے علاوہ آپ کو کبھی ایسا نظر نہیں آئے گا کہ مسلمان سوسائٹی تقسیم ہوئی ہو، بلکہ زیادہ جنگیں آپ کو یورپ میں نظر آئیں گی۔ یورپ میں آپ کو کیتھولک اور آرتھوڈوکس کی جنگ بہت بڑے پیمانے پر دیکھنے کو ملے گی۔ صلیبی جنگ کی سات بڑی مہمات تھیں، جن میں سے ایک صلیبی جنگ کے دوران کیتھولک فرانس سے، اور بقیہ (یعنی آرتھوڈوکس) یورپ کے دیگر ممالک سے اُٹھے، اور جب وہ مسلمانوں سے لڑنے آ رہے تھے تو راستے میں ہی اُن کا خیال بدلا اور فرانسیسیوں نے کہا کہ مسلمانوں کو چھوڑو پہلے ان آرتھو ڈوکس کو ختم کرو، تو وہ قسطنطنیہ میں گھس گئے اور اتنی مارا ماری کی کہ ساری مہم ہی یہاں پر ختم ہوگئی۔
سوال: ہمارے ہاں میڈیا کے بل بوتے پر بننے والے دانش ور اور اینکر پرسن بیٹھ کر ٹی وی پر کہتے ہیں کہ مسلمان آپس میں ہی ہمیشہ لڑتے رہے۔ اس بارے میں آپ کا نقطہ نظر کیا ہے؟
جواب: کبھی شافعی اور حنبلی کے درمیان جنگ ہوئی ہو یا فلاں فرقے کی فلاں سے جنگ ہوئی تو آپ اس کی ضرور نشاندہی کریں۔ آپ سنیں گے بادشاہوں کی بادشاہوں سے جنگیں ہوئی ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ ان جنگی سلسلوں کی اصل وجہ تو مفاد پرستی تھی۔ ہر بادشاہ اپنی انا اور مَیں (Ego)کے چکر میں دوسرے بادشاہ سے لڑا۔ بادشاہ چونکہ کسی نہ کسی قوم سے ہوتا ہے تو ان میں تاتاری تھے، ایرانی تھے، ترک تھے۔ اسی طرح سلجوقی، غزنوی بھی تھے، انھوں نے کفار سے بھی بڑی جنگیں لڑیںاور آپس میں بھی لڑیں۔ وجہ یہ بنتی تھی کہ یہ سلجوقی ترک ہیں، پٹھان ہیں، تاتاری ہیں، بوہوی ہیں۔ یہی آپس میں لڑتے بھڑتے رہے۔ کوئی ایک مثال دکھا دیں کہ فرقوں کا باہمی تصادم ہوا ہو، یعنی کسی حنبلی یا شافعی کے مابین جنگ ہوئی ہو، ایسی مثال آپ کو ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گی۔ جنگ جمل اورصفین میں 30ہزار مسلمان شہید ہوئے تھے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ بھی ایک سیاسی نوع کا اختلاف تھا۔
سوال: تصوف پر مزید روشنی ڈال دیجیے!
جواب: تصوف کا ایک پہلو تو پہلے بتایا جا چکا۔ اتنی بات ضرور ذہن میں رکھیں کہ اہلِ تصوف نے ہی امت کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے، چاہے وہ شاہ ولی اللہ ہوں یا مجدد الف ثانی۔ جب آپ کوئی بات کرتے ہیں تو غالب رجحان کے حوالے سے کرتے ہیں۔ دوسری چیز یہ ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ایک چیز کا اتنا غلبہ ہوگیا کہ تصوف ہی سکہ رائج الوقت بن گیا۔ تو پورا خطۂ ہند تصوف میں شامل تھا۔ اگر امام احمد سرہندی اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں تو اب اُس کو یہ کہنا کہ تصوف کا کردار تھا، درست نہیں ہوگا۔ اگر باقی لوگ تصوف کی صفوں میں شامل نہیں ہیں اور صرف یہی موجود ہیں اور انہوں نے ہی تحریک شروع کی تو کوئی بات نہیں، لیکن اسلام نے ہمیں جو تعلیم دی ہے اُس کے مطابق ہماری اپروچ حقیقت پسندہوتی ہے، ہم نہ کسی کا مقام بڑھاتے ہیں اور نہ کسی سے تعصب رکھتے ہیں کہ اُن کے کام کی نفی کریں۔ تصوف والے چیزوں کو حقائق کی نظر سے دیکھنے سے کچھ نہ کچھ ضرور روکتے ہیں۔
سوال: جب ہر طرف ایک چیز کا غلبہ ہے اور مثبت منفی دونوں پہلو نکل رہے ہیں تو اُس کی مخالفت میں کھڑے ہونا ایک پوری الگ حکمت عملی ہے۔ کمیونٹی کو اپنے ساتھ لا کھڑا کرنے کے بجائے مخالفت میں دھکیلتے ہیں، کیا یہ کوئی اچھی بات ہے؟
جواب: تصوف نے بہت بڑے حلقے کو صدیوں سے متاثر کررکھا ہے۔ کسی علمی بحث میں ہوسکتا ہے میں نے اس سے تعارض کیا ہے، لیکن عوام الناس کے اندر دعوتی میدان میں اس سے زیادہ بڑی غلطی نہیں ہوگی کہ ہم کسی بھی دینی گروہ کو خود اپنے مخالف کھڑا کردیں۔ یہ کام ہم نے پچھلے 50۔60 برسوں میں کیا ہے۔ تعلیم اور دعوت الگ الگ چیزیں ہیں۔ اگر آپ جہاد کررہے ہیں تو اُس کی نزاکتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اس وقت تو یہی اوّلین ترجیح ہونی چاہیے کہ اگر میں کسی کافر کو شکست سے دوچار کردوں، یہ میرے لیے بہت بڑی بات ہے۔ جس جماعت نے کفرکے نظام سے ٹکرلی ہوئی ہو، چاہے دعوت کے اندر، چاہے تعلیم کے اندر، چاہے میدانِ جنگ میں… حقیقت یہ ہے کہ اُسے اُس چیز کا خیال رکھنا پڑے گا، اس لیے بہت ساری چیزیں جو کہنے کو ہوسکتی ہیں، ان کا نہ کہنا ہی بہتر ہوگا۔
سوال : جہاد کے حوالے سے ہمارے ہاں جو ماحول بنا دیا گیا ہے اس میں دینی تحریکوں کی کیا ذمہ داری ہے؟
سوال: اب تو حالات یہ ہیں کہ سارا کچا چٹھا آپ کے سامنے ہے۔ پچھلے دنوں جہاد وغیرہ کے نام پر جو ہورہا تھا، اُس کے اندر دنیا کی کون سی ایجنسی ہے جس نے اپنا حصہ نہ ڈالا ہو۔ یہ آپ کا جذبہ اور ہمت تھی جسے D-Track کیا گیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ جذبے کے پیچھے علم، دانائی نہ ہو تو وہ جذبہ خیر بہت کم لاتا ہے اور تخریب زیادہ پھیلاتا ہے۔ آپ کے دشمن کے پاس جتنی سمجھ اور منصوبہ بندی ہے اُس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے کہ وہ آپ کو D-Track کردے، لیکن ہماری دینی قیادت اس کھیل کو نہیں سمجھ سکی۔ اس کھیل کو بروقت نہ سمجھ سکنا اتنی بڑی علمی غلطی تھی کہ اس نے ہمارے پورے دینی طبقے کو 50۔60 سال پیچھے دھکیل دیا۔ میں آپ کو بتائوں، آج سے 15سال پہلے دینی طبقہ اتنی اچھی پوزیشن میں تھا، یہ پرانی بات نہیں ہے، نوازشریف ہی پچھلے عہدِ اقتدار کے اندر وعدے کرتا تھا کہ میں سود ختم کردوں گا اور شریعت لے کر آئوں گا، اور اُس وقت ہمیں یہ وعدہ کرتا ہوا زہر لگتا تھا کیونکہ ہمیں علم تھا کہ جھوٹ بول رہا ہے۔ اب ہم تمنا کرتے ہیں کہ کاش کوئی جھوٹا ہی وعدہ کردے لیکن کر تو دے کہ میں اسلام لے کر آتا ہوں۔ اب ہم تمنا کرتے ہیں کہ کاش کوئی پاکستانی لیڈر ہو جو کہے کہ میں اسلام لے کر آرہا ہوں۔ مگر ایسا نہیں۔ اب کیوں نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اُس پانی میں نہیں رہے کہ وہ کوئی ہماری ناز برداری کرے۔ یہ جو ہمارے خلاف پروپیگنڈے کے ذریعے زہر پھیلایا گیا ہے، ہر دین دار مجرم تصور ہورہا ہے۔ داڑھی ہے کسی شخص کی تو کوئی گڑبڑ ہے۔ ان سے پوچھا جائے کہ آخر مسئلہ کیا ہے؟کیا یہ بات ایک مسلمہ حقیقت نہیں کہ داڑھی والوں نے اس ملک کے لیے ہر طرح کی قربانی دی ہے۔ مشرقی پاکستان کی تاریخ ابھی تک چیخ رہی ہے، روز پھانسی کے پیغامات آرہے ہیں۔ ہماری جو پرانی نیکیاں ہیں وہ بھی پس منظر میں چلی گئی ہیں۔ یہ ہماری قابلیت اور کمیونی کیشن کی کمی کا نتیجہ ہے۔ ہمیں اندازہ ہونا چاہیے کہProactive کیسے ہوا جاتا ہے، بروقت ایک معاملے کو اپنے رُخ پر کیسے لے کر آیا جاتا ہے، اور جو دشمن ہے اُس کے راستے کو تنگ کیسے کیا جاتا ہے، اپنے راستے کو کھلا کیسے کیا جاتا ہے۔ جو خالص مذہبی میدان ہے، بڑے بڑے مولوی موجود ہیں اُن کا اپنا کام ہے، اپنا میدان ہے، اُس میں وہ ٹھیک ہیں۔ مطلب یہ کہ مدرسوں میں جو پڑھانا ہے وہ پڑھا رہے ہیںلیکن مدارس ہمارے ایک طرح سے Isolated ہیں۔ مدارس کی جو ایک دنیا ہے اور سوسائٹی کا جو ایک عمل چل رہا ہے اُس میں پُل بننے والے بھی کچھ گروہ تھے۔ مسئلہ یہ ہے آپ اس تعلق کو بنالیں۔ ہمارے اتنے سارے Factor ہیں، اسلام کوبالادستی دلوانے والے فیکٹر ہی بہت زیادہ ہیں، اگر آپ اس لنک کو میدان میں لے آئیں، جو ایک بہتر کمیونی کیشن کے ذریعے ہی ممکن ہے، اس طرح ہوسکتا ہے چند برسوں میں یہاں پر حالات کچھ اور ہوجائیں۔ بالعموم دین داری کا گراف پاکستان میں اوپر گیا ہے، نیچے نہیںگیا۔ گزشتہ پندرہ بیس برسوں میں پردہ کرنے والی خواتین کی تعداد کہیں زیادہ بڑھی ہے۔ نمازیوں کی تعداد بڑھی ہے۔ یہ چیز کس طرف اشارہ کررہی ہے؟ یہ اس جانب اشارہ ہے کہ نوجواںنسل میں اسلام کے اندر سماجی طور پر انفرادی کردار بڑھ گیا ہے۔ کوئی بخاری پڑھ رہا ہے، کوئی عقیدے کی کلاس لے رہا ہے، کوئی قرآن سیکھ رہا ہے۔ اس طرح ہمارے نوجوانوں کو دین سے وابستگی کا انفرادی موقع میسر آتا ہے، اور یہی ان کی دنیا اور عاقبت کے لیے بہتر ہوگا۔ اجتماعی منصوبے تو تخلیق ہوجاتے ہیں، انفرادی سطح پر ایسے پراجیکٹس کی کمی کا احساس شدت سے نمایاں ہورہا تھا۔ اگر آپ افراد کو کوئی چیز ڈیزائن کرکے دے ہی نہیں پارہے، تو پھر ان سے گلہ بھی نہ کریں۔ اسی طرح ایک اور چیز ہمارے ہاں مفقود ہے اور وہ ہے حالات کا بروقت اندازہ کرنا۔ یہ صلاحیت تقریباً ہے ہی نہیں۔ اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے ابہام نے ہمیں پچاس سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔