اس وقت پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں حکومت، اپوزیشن اور سیاسی اہلِ دانش میں حکومت کی پہلے سو دنوں کی کارکردگی کے حوالے سے بحث مباحثہ جاری ہے۔ حکومت کے حامی اور مخالفین اپنی اپنی دلیلیں دے رہے ہیں۔ سب سے دلچسپ لطیفہ سابق وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے پیش کیا ہے اورکہا ہے کہ حکومت کے پہلے سو دن لوگوں پر قیامت سے کم نہیں تھے۔ لوگوںکی بات تو انہوں نے ویسے ہی کردی، اصل میں وہ یہ کہنا چاہتی تھیں کہ اس حکومت کے پہلے سو دن واقعی شریف خاندان پر قیامت سے کم نہیں گزرے، کیونکہ انہوں نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ ان کا پورا خاندان اس طرح قانونی گرفت میں آسکے گا۔ جبکہ دوسری طرف حکومت کے حامی بھی بہت جذباتی انداز میں ایسا منظر پیش کرتے ہیں جیسے انہوں نے سو دنوں میں پورے ملک کی کایا ہی پلٹ دی ہے اور ملک ترقی کی طرف بڑھ گیا ہے۔
دنیا میں حکمرانی کے نظام میں ایک نئی جہت پہلے سو دنوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا بنیادی مقصد کسی بھی نئیحکومت کی سمت، منصوبہ بندی اور حکمت عملی کو سمجھنا ہوتا ہے۔ دنیا میں حکمرانی سے جڑے بڑے بڑے ادارے ہوتے ہیں، وہ بہت سے ممالک کی پہلے سو دنوں کی حکمرانی کا تجزیہ کرکے اگلے پانچ برس کے سیاسی، سماجی اور معاشی فہم کا نتیجہ نکال کر ان ملکوں کی درجہ بندی کرتے ہیں۔ مقصد پہلے سو دنوں میں کوئی انقلاب نہیں ہوتا بلکہ ٹھوس منصوبہ بندی، حکمت عملی یا ترجیحات کی بنیاد پر مستقبل کی منصوبہ بندی کرنا ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان میں سو دنوں کی حکمرانی اور اس کے نتائج کو عملی طور پر ایک سیاسی مذاق سمجھا گیا کہ بگڑا ہوا نظام کسی جادوئی عمل سے ٹھیک ہوجائے گا۔ اس میں بہت حد تک قصور خود تحریک انصاف کا بھی ہے جس نے جذبات کی بنیاد پر ایسا نقشہ پیش کیا کہ فوری تبدیلی نظر آئے گی۔ حالانکہ نظام کی اصلاح کا عمل مرحلہ وار ہی ممکن ہوسکتا تھا۔ لیکن جب سیاست دان عقلی پہلو کم اور جذباتی رنگ زیادہ استعمال کریں گے تو یہی ہوگا جو اس وقت قومی سطح کی سیاست میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عمران خان کی حکمرانی کے پہلے سو دنوں میں عوام کو فوری طور پر کوئی بڑا ریلیف نہیں ملا، بلکہ پہلے سے موجود مہنگائی اور مسائل میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہیہ ہے کہ یہاں اقتدار میں آنے سے قبل سیاسی جماعتوں کا اقتدار کے تناظر میں کوئی ٹھوس ہوم ورک اور منصوبہ بندی نہیں ہوتی۔ ہماری سیاست عمومی طور پر ردعمل کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ پہلے سو دنوں میں حکومت کے معاشی اور سیاسی ماہرین سمیت ریاست کا نظام عام آدمی کو فوری طور پر کوئی بڑا ریلیف نہیں دے سکا۔ وزیر خزانہ اسد عمر کا کوئی جادو بھی دیکھنے کو نہیں مل سکا۔ مسئلہ یہی ہے کہ ہم اگر معاشی معاملات کو روایتی طور طریقوں اور عالمی فریم ورک میں چلانے کی کوشش کریں گے تو اس سے کوئی بڑی تبدیلی ممکن نہیں ہوگی۔ قرضوں اور سود میں ڈوبی معیشت، عالمی برادری پر انحصار کا عمل، ہمیں کسی بڑی مثبت تبدیلی کی طرف نہیں لے جاسکے گا۔ مسئلہ معاشی ماہرین کا نہیں، بلکہ معاشی ماہرین کو پہلے سے موجود نظام کے فریم ورک سے نکل کر سوچنے اور متبادل نظام کی طرف خود کو راغب کرنے سے جڑ ا ہونا چاہیے۔
ایک مسئلہ یہ دیکھنے میں آیا کہ وزیراعظم جس قوت کے ساتھ معاملات کی درستی کے لیے اپنی سیاسی اسپیڈ کو بڑھائے ہوئے ہیں اُس کا ساتھ اُن کی کابینہ، پارٹی اور بالخصوص بیوروکریسی دیتی نظر نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے معاملات میں وزیراعظم کو خود ہی سیاسی لیڈ لینی پڑتی ہے اور اپنی ہی سیاسی اور معاشی ٹیم کو جگانا یا فعال کرنا ہوتا ہے۔ کچھ اہم شعبوں میں جن افراد کو بڑی ذمہ داریاں دی گئیں اُن پر بھی جائز تنقید کی جاسکتی ہے۔ بعض معاملات میں اس میں صلاحیتوں کے فقدان کا بھی مسئلہہے، کیونکہ ان کی ٹیم میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کی تقرری میرٹ سے زیادہ اقربا پروری کی بنیاد پر کی گئی ہے، اور اس سے حکومتی تاثر منفی پڑرہا ہے۔ بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو حکمرانی کا وہ تجربہ اور اہلیت بھی نہیں رکھتےجو اس بحران سے نکلنے کے لیے درکار ہے۔ بنیادی طور پر اچھی حکومت تجربہ کار اور نئے لوگوں کے درمیان ایک توازن قائم کرکے کی جاتی ہے، اور سب ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر حکمرانی کے نظام کو مؤثر اور شفاف بناتے ہیں۔
اگر دیانت داری سے سو دنوں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ کوئی بری حکمرانی کی کہانی نہیں۔ بہت سے ایسے امور دیکھنے کو ملتے ہیں جن کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ وزیراعظم سے لے کر وزیراعلیٰ، گورنرز اور وفاقی وزارتوں کے صوابدیدی فنڈ کا خاتمہ کوئی معمولی فیصلہ نہیں۔ اس صوابدیدی فنڈ نے ماضی میں حکمرانوں کی کرپشن اور بدعنوانی کے کئی معاملات کو نمایاں کیا۔ اسی طرح سے سادگی کی جو مہم چلائی گئی وہ بھی قابلِ تعریفہے۔ پہلے سو دنوں میں وزیراعظم، وفاقی وزراء اور وزارتوں سمیت پنجاب اور خیبر پختون خوا میں سرکاری اخراجات سمیت وزیراعظم، گورنر، وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ اور ہائوسز کے اخراجات میں ماضی کے مقابلے میں بہت حد تک کمی کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔ اگرچہ اخراجات کی کمی کے تناظر میں کئی سطح پر وزیراعظم کا مذاق اڑایا گیا اور ان کی تضحیک بھی کی گئی، مگر وزیراعظم سیاسی طور پر ڈٹے رہے۔ مثال کے طور پر لائیواسٹاک کے حوالے سے انڈے، مرغیوں اور بکری پر وزیراعظم کا مذاق اڑایا گیا، اور وہ لوگ جن کو ہماری دیہی معاشی حالت کا اندازہ ہی نہیں، وہ مذاق اڑا رہے ہیں۔ حالانکہ ہماری دیہی معیشت اسی لائیواسٹاک کے کام سے جڑی ہوئی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے جس سنجیدگی کے ساتھ وفاق اور دو صوبو ں میں براہِ راست حکمرانی کے نظام کی نگرانی کی، اور بروقت منصوبہ بندی کی، اس عمل کو بھی پذیرائی ملنی چاہیے۔سعودی عرب اور چین کے ساتھ متبادل معاشی نظام کا جو راستہ تلاش کیاگیا وہ آگے جاکر ہمیں معاشی طور پر استحکام دے سکتا ہے۔ فوری طور پر آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر قرضہ لینے سے گریزکی پالیسی بھی متبادل معاشی حکمت عملی سے جڑی ہوئیہے۔ اصل چیلنج حکومت کے پاس آنے والے عرصے میں متبادل معاشی پالیسی، مقامی اور عالمی سرمایہ کاری سمیت ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہوگا۔ کیونکہ جب تک ہم خود داخلی سطح پر معاشی استحکام اور مربوط پالیسی اختیار نہیں کریں گے، موجودہ روایتی طریقے سے معاشی اصلاح ممکن نہیں ہوگی۔ پورے ملک میں محض سو دنوں میں طاقت ور طبقات سے ہزاروں ایکڑ سرکاری املاک، زمینیں، اور قبضہ مافیا سے جگہ چھڑوانے کا کام ایک طاقت ور سیاسی حکومت ہی کرسکتی ہے۔ ماضی میں سیاسی سمجھوتوں کی بنیاد پر حکمرانی کے نظام نے طاقت ور لینڈ مافیا کو مضبوط کیا تھا۔ گرین پاکستان مہم، صفائی مہم، ماحولیات، پبلک ٹوائلٹ، بے گھروںکے لیے بڑے شہروں میں سونے کے لیے آرام گاہ، غریب اور ضرورت مند لوگوں کے لیے چھوٹے گھروں کی تعمیر کا آغاز، غیر ملکی دوروں پر فوج در فوج کے بجائے وفود میں کم سے کم افراد کا جانا، کابینہ کے باقاعدگی سے اجلاس، جوابدہی کا تصور، ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات، کرتار پور راہداری کا سنگِ بنیاد اور سول ملٹری تعلقات، جنوبی پنجاب صوبے کے اقدامات کی جھلک حکومت کی کارکردگی کو نمایاں کرتی ہے، اور خاص طور پر اشتہارات کی مدد سے سب اچھا پیش کرنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی بھی کی گئی ہے۔
وزیراعظم کی، کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف سیاسی کمٹمنٹ بھی مضبوط دکھائی دیتی ہے۔ابتدائی مرحلے میں 26ممالک سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے معاہدے، 375ارب کے جعلی اکائونٹس کو بے نقاب کرنا اور طاقت ور طبقات کو گرفت میںلانا معمولی عمل نہیں۔ لیکن اس کے لیے ہمیں نئے قانون اورادارے بنانے ہوں گے۔کیونکہ موجودہ قوانین میں سقم ایک بڑے احتساب کے عمل میں رکاو ٹ ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ حکومت پر تنقید کررہے ہیں اُن میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو پچھلی حکومتوں کا حصہ رہے، یا اُن کے اپنے مفادات ان حکومتوں سے جڑے رہے ہیں۔ حکومت پر تنقید ہونی چاہیے مگر اس میں سچ بھی ہونا چاہیے۔ محض الزامات اور سیاسی کردارکشی مسائل کا حل نہیں۔
جہاں تک حزبِ اختلاف کا تعلق ہے، وہ اپنے سیاسی وجود کو مضبوط انداز میں پیش کرنے میں ناکام رہی۔ بلاول بھٹو ضرور عمران خان سے سو دنوں کا حساب مانگیں،مگر وہ پہلے سندھ کی حکمرانی کا بھی حساب دیں کہ وہاں کون سی خوشحالی لائی جاسکی ہے؟ماضی کے حکمرانوں نے حکمرانی کا جو نظام چھوڑا اگر وہ واقعی شفاف اور پائیدار ہوتا تو آج حکمرانی کے نظام میں موجود بگاڑ نہ ہوتا۔یہ جو بگاڑ ہے وہ آج کی حکومت سے زیاد ہ ماضی کی تجربہ کار حکومتوں کا کیا دھرا ہے۔ اس وقت حزبِ اختلاف کا انتشار نمایاں ہے اوراس کی کمزوری احتساب کا نظام ہے جو ان کی گردنوں پر لٹک رہا ہے۔
بہرحال تحریک انصاف بدستور ایک بڑے امتحان میں ہے۔ بالخصوص بڑا چیلنج کمزور اور غریب طبقوں کو سیاسی اور معاشی ریلیف فراہم کرنا ہے۔ وزیراعظم کے دعوے کے مطابق ان کی حکمرانی کا اہم نکتہ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی حالتِ زار کو بدلنا ہے۔ یہ واقعی مشکل کام ہے، اور اگر حکومت اس سلسلے میں کچھ کرسکی تو یہ ایک منفرد کام ہوگا اور حکمرانی کی ساکھ کو بھی مضبوط بنائے گا۔ بالخصوص نوجوان طبقہ اور اُس کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنا حکومت کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ وہ اگر صوبوں میں مضبوط مقامی حکومتوں کا حقیقی نظام لاسکے تو یہ حکمرانی کے نظام کو مؤثر بناسکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو کبھی ماضی کے حکمرانوں کی کڑی نگرانی نہیں کرتے تھے بلکہ حکمرانی کے نظام سے خود بھی فائدہ اٹھاتے رہے ہیں، وہ بھی سو دنوں کا کڑا حساب مانگ رہے ہیں جو اچھی بات ہے۔ حکمرانی کے نظام پر کڑی نگرانی ہونی چاہیے اور حکمرانوں کے کمزور اور غلط فیصلوں پر تنقید ہو، کیونکہ یہی عمل ایک اچھی حکمرانی کو یقینی بناتا ہے، اور اس کا فائدہ کمزور طبقات کو بہتر حکمرانی کی صورت میں دیکھنے کو ملتا ہے۔