مغرب ارتقا کی گتھی میں پھر الجھ گیا ہے۔ زندگی کا مستقبل فطرت کے انتخاب پر چھوڑ دینا چاہتا ہے۔ مگر ایک سوال ہے جو پریشان کررہا ہے۔ حیاتیاتی تاریخ Sapiensکے باب “There is no justice in history” میں پروفیسر نوح ہراری لکھتے ہیں: ’’انسانی تاریخ کی تفہیم میں زرعی انقلاب کے بعد کا ہزاریہ ذہن کو ایک عجیب سوال سے دوچار کردیتا ہے کہ انسانوں نے کس طرح بڑے پیمانے پر معاون نیٹ ورکس منظم کیے؟ جبکہ انسان ایسی حیاتیاتی جبلتوں سے کسی قدر عاری ہے جو ایسے معاشرے منظم کرنے کے لیے لازم ہیں؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ انسان نے ’تخیلاتی احکامات‘ اور’صحیفے وضع‘ کیے۔ یہ وہ دو انسانی ایجادات ہیں جنہوں نے حیاتیاتی ورثے میں موجود خالی پن کو دورکیا ہے (بے روح حیاتیاتی تسلسل کو تہذیبی معنویت عطاکی ہے)۔ تاہم انسانی معاشروں کا منظم ہونا بہت سوں کے لیے پراسرار سی نعمت ہے۔‘‘
غریب سائنس کا سارا انحصار قیاس آرائیوں اور اندازوں پر ہے۔ ہر بار’کیا‘ کا جواب پاکر یوں چرچا کیا جاتا ہے جیسے ’کیسے‘ اور ’کیوں‘ کا جواب پالیا ہو۔ ہربار’تخلیق‘ کے جس مرحلے پر پہنچتے ہیں، وہیں خدا تراش لیتے ہیں۔ یہ مسئلہ صرف سائنٹزم ہی کو درپیش نہیں، انسانی گروہوں کا اجتماعی فہم جس مقام تک رسائی پاتا ہے، وہیں سجدہ ریز ہوجاتا ہے۔ ماضیِ قریب کے سب سے بڑے سائنس دان آنجہانی اسٹیفن ہاکنگ نے Is There a God کا جو جواب دیا ہے، اس میں فطرت کے قوانین کو ہی اپنا خدا تسلیم کیا ہے۔ مگر ’انسانوں کے غیر فطری منظم معاشروں‘ کے سوال پر ’پراسرار نعمت‘ کا گمان رکھنے والوں میں محترم ہاکنگ صاحب بھی شامل ہیں۔ Artificial Intelligence کی اہلیت پر جواب میں انہوں نے انسانی دانش کے مستقبل کے لیے نیک خواہش کا اظہارکیا ہے۔
یہ متناقض نقطہ نظر وہ فیصلہ کن دوراہا ہے جس کی ایک راہ سائنٹزم اور انفو بائیوٹیکنالوجی میں گم ہورہی ہے، جبکہ دوسری راہ انسانی دانش اور روشن روحوں سے منور ہے۔ انسانی دانش الٰہیاتی اقدار کا وہ فطری نظم ہے، جسے انسان میں ودیعت کیا گیا ہے۔ یہ انسانی دانش روح کا وہ کھلا راز ہے، جسے ہرانسان جانتا ہے، محسوس کرتا ہے۔
’’اور اے نبیؐ، لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپرگواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا ’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟‘ انہوں نے کہا ’ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں‘۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ’ہم تو اس بات سے بے خبر تھے‘‘۔
(سورہ اعراف آیت 172)
جدید سائنس کے غیر محقق بیانیے میں الٰہیاتی اقدار کا فطری نظم ’تخیلاتی احکامات‘ اور’وضع کردہ صحیفوں‘ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جبکہ یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ انسانی تہذیب وثقافت کی تشکیل و تنظیم میں ان احکامات اور صحیفوں کا کردار نہ صرف مرکزی ہے بلکہ سکون بخش بھی ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ سائنس کا بیانیہ غیر محقق یا تعصب زدہ کیوں ہے؟ یہ وضع کردہ احکامات اور صحیفے کہاں سے آئے ہیں، سادہ سا جواب ہے: جدیدیت اور سائنٹزم کی دنیا میں مذاہب پر تمام تحقیق کا انحصار عیسائیت، یہودیت، ہندومت اور بدھ مت وغیرہ پر ہی رہا ہے۔ اسلام کے سوا تمام مذاہب کی تعلیمات اور مقدس کتابیں ’وضع کردہ‘ ہیں۔ یہ سائنٹزم کے بیانیے کو تضحیک و تحقیر کا بھرپور سامان فراہم کرتی ہیں۔ اس کی پوری تاریخ ہے۔ آیئے قرآن حکیم سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں: ’’انہوں نے اللہ کی آیتوں کو بہت کم قیمت پر بیچ دیا اور اس کی راہ سے روکا۔ بہت برا ہے جو یہ کررہے ہیں۔‘‘ (سورہ توبہ آیت 9)
’’پس ہلاکت اور تباہی ہے اُن لوگوں کے لیے، جو اپنے ہاتھوں سے شرع کا نوشتہ لکھتے ہیں، پھر لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے آیا ہوا ہے، تاکہ اس کے معاوضے میں تھوڑا سا فائدہ حاصل کرلیں۔ ان کے ہاتھوں کا یہ لکھا بھی ان کے لیے تباہی کا سامان ہے، اور ان کی یہ کمائی بھی ان کے لیے موجب ہلاکت۔‘‘ )سورہ بقرہ، آیت 79)
’’حق یہ ہے کہ جو لوگ ان احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں نازل کیے ہیں، اور تھوڑے سے دنیوی فائدوں پر انہیں بھینٹ چڑھاتے ہیں، وہ دراصل اپنے پیٹ آگ سے بھررہے ہیں۔ قیامت کے روز اللہ ہرگز ان سے بات نہ کرے گا، نہ انہیں پاکیزہ ٹھیرائے گا، اور ان کے لیے دردناک سزا ہے۔‘‘ (البقرہ، آیت 174)
’’اور بے شک اہلِ کتاب میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اللہ کے آگے عجز و نیاز کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ پر بھی ایمان رکھتے ہیں، اُس کتاب پر بھی جو تم پر نازل کی گئی ہے، اور اُس پر بھی جو ان پر نازل کی گئی تھی، اور اللہ کی آیتوں کو تھوڑی سی قیمت لے کر بیچ نہیں ڈالتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کے پاس اپنے اجر کے مستحق ہیں۔ بے شک اللہ حساب جلد چکانے والا ہے۔‘‘ (سورہ آل عمران 199-200)
یہ آیتیں واضح کررہی ہیں کہ آسمانی صحیفوں اور تعلیمات میں بگاڑ لایا گیا۔ ان احکامات کو خواہشات اورمفادات کی نذر کیا گیا۔ بنی اسرائیل ’الٰہیاتی احکامات‘ کو ’تخیلاتی احکامات‘ اور ’صحیفوں‘ کو ’وضع کردہ صحیفوں‘ میں ڈھالنے کا کام مسلسل کرتے رہے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام دینِ حنیف لے کر آئے تھے، مگر اسے یہودیت اور عیسائیت بنادیا گیا۔ بائبل کے حوالے سے رومن ایمپائر کے یہودی درباری جان پال کی تحریفات اور انحرافات ایک ایسی علامتی مثال ہے، جو آیتیں بیچنے والے تمام کرداروں پر صادق آتی ہے۔ ایسا ہمیشہ درباری کاسہ لیس علمائے سو کے ذریعے کیا گیا۔ انبیا ورسل پر ان احکامات کے ذریعے مفادات کا حصول ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ جدید مغرب یہ ثابت کرنے سے یکسر قاصر ہے کہ انبیا و رسل نے ذاتی مفادات یا اقتدار کے لیے کلام الٰہی وضع کیے اور احکامِ آسمانی اختراع کیے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تک کسی پیغمبر کی زندگی کا کوئی گوشہ ’ذاتی مفاد‘ سے داغدار نہیں۔ وضع کردہ صحیفے اور تخیلاتی احکامات اقتدار یا ذاتی مفادات کی خاطر وجود میں آئے تھے۔ یہی وہ ایک صورت حال تھی، جس کا تذکرہ پروفیسر نوح ہراری نے جدید حیاتیاتی تاریخ Sapiens میں دو مثالوں کے ذریعے کیا، لیکن یہ تذکرہ یہاں خالص مذہب کی تحقیق کے لیے نہیں بلکہ مذہب کی تحقیر کے لیے آیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’1776 قبلِ مسیح میں بے بی لون(بابِل)دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا۔ یہ غالباً اپنے وقت کی سب سے بڑی ایمپائر تھی، جس میں دس لاکھ سے زائد لوگ آباد تھے۔ میسوپوٹیمیا کے بیشتر حصے پر اس کی حکومت قائم تھی، اس میں جدید عراق، شام کے کچھ علاقے، اور ایران شامل تھے۔ اس ایمپائر کا سب سے مشہور بادشاہ حمورابی تھا۔ اس کی وجہ شہرت وہ تحریر شدہ قوانین ہیں، جنہیں Code of Hammurabi کہا جاتا ہے۔ یہ قوانین اور عدالتی فیصلوں کا مجموعہ ہے… مستقبل کی نسلوں نے اس کوڈ آف حمورابی کی پیروی کی۔ غرض یہ میسوپوٹیمیا ایمپائرکے معاشرتی نظم کے لیے آئیڈیل قانونی کوڈ قرار پایا۔ اس کا متن کچھ اس طرح شروع ہوتا ہے کہ دیوتاؤں انو، انلیل، اور مردوخ نے حمورابی کو زمین پر انصاف کے نفاذ کاکام سونپا ہے۔ قوانین کی تفصیل لکھنے کے بعد، جو عدم مساوات اور ناانصافی پرمبنی تھے، حمورابی اعلان کرتا ہے کہ یہ قوانین اور فیصلے ایک ایسے بادشاہ کے نافذ کردہ ہیں، جس نے انصاف کا بول بالا اور زمین پردرست طرزِ زندگی کا رخ متعین کیا… اور یہ سب دیوتا انلیل اور مردوخ کی بخشش ہے۔ حمورابی کی موت کے ساڑھے تین ہزار سال بعد شمالی امریکہ کی 13 برطانوی کالونیوں نے محسوس کیا کہ انگلینڈ کا بادشاہ ان کے ساتھ انصاف نہیں کررہا۔ ان کالونیوں کے ترجمان شہر فلاڈیلفیا میں جمع ہوئے، اور 4 جولائی 1776ء کو اعلان کیا کہ وہ اب برطانوی شاہی حکومت کے تابع نہیں۔ انصاف کے کائناتی، ابدی اور ربانی اصولوں پر مبنی اعلانِ آزادی ہوا کہ ہم ان تسلیم شدہ سچائیوں کے ساتھ ہیں، جن کے مطابق تمام انسان برابر ہیں۔ اور انہیں ان کے رب کی جانب سے حقوق عطا کیے گئے ہیں۔ ان حقوق میں زندگی، آزادی، اور خوشی کا حصول ہے۔ حمورابی کوڈ کی طرح امریکہ کا اعلانِ آزادی بھی آنے والی نسلوں کے لیے مثال بن گیا۔ دوسو سال سے اسکول کے بچے یہ اعلانِ آزادی لکھ رہے ہیں، پڑھ رہے ہیں، زبانی یاد کررہے ہیں‘‘۔ ان دو مثالوں کے بعد پروفیسر ہراری لکھتے ہیں کہ قدیم اور جدید دنیا کے دونوں ہی قوانین اور اصولِ انصاف غلط ہیں، مگر انہیں ربانی اور آسمانی قرار دے کر جواز مہیا کیا گیا۔ مذہب کے سہارے استعماری معاشروں کا غیر فطری انتظام کیا گیا۔
ان دومثالوں سے صاف ظاہر ہے کہ وقت کی مقتدر قوتوں نے خود ساختہ اور وضع کردہ احکامات اپنے مفادات کے لیے استعمال کیے۔ مذاہب کے نام پر اپنا نظام مستحکم کیا۔ یہ صورت حال محض تاریخِ ماضی نہیں، بلکہ آج بھی موجود ہے۔ صہیونی اور پروٹسٹنٹ عیسائی،مذہب کی جس وضع قطع پر عامل ہیں، وہ فتنہ وفساد ہے۔
مشرق کے مذاہب کی مثال لے لیجیے۔ ہندو تہذیب، چینی تہذیب، فارسی تہذیب، اور دیگر تہذیبوں کی بنیادیں ان ہی ’مسخ شدہ‘ تعلیمات سے بگاڑی گئیں۔
مسخ شدہ صحیفوں اور غصب شدہ احکامات کے باوجود انسانی دانش کا سفر تعظیم وتکریم کے ساتھ جاری رہا۔ کیا جدید سائنس ثابت کرسکتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا موسیٰ علیہ السلام یا ابراہیم علیہ السلام جوتعلیمات لائے تھے، وہی مغربی مذاہب کی بنیاد ہیں؟
یقیناً یہ مسخ شدہ مواد ہی ہے جو’وضع کردہ‘‘ دیومالائی محسوس ہوتا ہے، اس کا ایسا ہی تعارف ممکن ہے۔ مگر قرآن حکیم کی آیات اور اسلام کے الٰہیاتی احکامات کا رد ممکن نہیں۔
صورتِ حال یہ ہے کہ آج علمِ حیاتیات اور ٹیکنالوجی وہاں پہنچ گئی ہے، جہاں زمین پر انسان کی بقا دشوار نظر آرہی ہے۔
سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ Will we survive on earth کے جواب میں مکمل مایوس نظر آتے ہیں، کہتے ہیں: بلاشک وشبہ یہ واضح ہے کہ دنیا بدترین سیاسی بحران سے گزر رہی ہے۔ لوگ بڑی تعداد میں معاشی اور معاشرتی طور پردیوار سے لگے نظر آرہے ہیں۔ نتیجتاً وہ پاپولسٹ ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے سیاست دان ابھر رہے ہیں جنہیں حکومت چلانے کا بہت محدود تجربہ ہے، جن میں فیصلہ سازی کی صلاحیت نہیں۔ لگتا ہے قیامت کی گھڑی قریب آلگی ہے۔ دنیا کئی حوالوں سے خطرے میں ہے۔ میرے لیے بہت مشکل ہے کہ دنیا کے مستقبل کے معاملے میں مثبت بات کرسکوں۔ خطرات بہت ہولناک اور بہت زیادہ ہیں۔ ہمارے مادی وسائل تیز رفتاری سے ختم ہورہے ہیں۔ اس پر ہم نے دنیا کو موسمی تبدیلی جیسی تباہی کا تحفہ عنایت کیا ہے۔ عالمی حدت کے ذمے دار ہم انسان ہیں۔ ہم گاڑیوں اور پُرتعیش زندگی کی دوڑ میں لگے رہے ہیں۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوا کہ تباہی سر پہ آکھڑی ہوئی ہے۔ زندگی کے لیے زمین پر جگہ کم ہورہی ہے۔ ہمیں دوسری دنیاؤں کی جانب دیکھنا ہوگا۔
بلاشبہ اسٹیفن ہاکنگ کے خدشات اس بات کا اعتراف ہیں کہ جدید سائنس انسانوں کے لیے کسی بہتر مستقبل کا پیغام نہیں ہے۔ یہ صرف عالمی اشرافیہ کے لیے مصنوعی ذہانت اور ڈیجیٹل طرزِ زندگی کا انتظام کررہی ہے، اور جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے موت کو شکست دینے کی راہ ڈھونڈ رہی ہے۔
اب انسانوں کا معاشرہ کہاں جائے؟ تہذیب کا مستقبل کہاں تلاش کرے؟ الٰہیاتی اقدار کا فطری نظم ہی وہ انسانی دانش ہے، جس کا انحصار ’احکام الٰہی‘ اور ’قرآن فرقان پر ہے۔ انسانوں کو خالص احکامات پر عمل کرنا ہوگا۔ اسی میں انسانی تہذیب کی بقا ہے۔