صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کاپہلا دورۂ پشاور

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے پہلے دورۂ پشاور میں گورنر خیبر پختون خوا شاہ فرمان، اور صوبائی وزیراطلاعات شوکت یوسف زئی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ لاپتا افراد کے معاملے پر نظرثانی کی ضرورت ہے، اور یہ معلوم کیا جائے کہ ان افراد کو کس نے اٹھایا اور کہاں رکھا ہے۔ ملاکنڈ ڈویژن میں کامیاب آپریشن کے بعد امن کی بحالی اور اختیار سول انتظامیہ کے سپرد کرنے کے بعد قبائلی اضلاع میں بھی کامیابی حاصل ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب صوبے کا قیام آسان کام نہیں، جبکہ فاٹا کا انضمام بھی مشکل اقدام تھا جو اب مکمل ہوچکا ہے۔ شدت پسندی کے خلاف جنگ کے دوران خیبر پختون خوا اور قبائلی اضلاع کے عوام نے سب سے زیادہ جانی اور مالی قربانیاں دی ہیں، سیکورٹی اداروں نے بھی جان کے نذرانے پیش کیے ہیں، ان قربانیوں کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ شدت پسندی کے خلاف جنگ سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ اور دہشت گردی کے متاثرین کی آبادکاری آسان کام نہیں تھا، تاہم یہ کام بڑی جانفشانی اور محنت سے انجام دیا جارہا ہے۔ قبائلی اضلاع کو صوبے میں انضمام کے بعد 30 ہزار نوکریاں دی جائیںگی۔ لیویز اور خاصہ دار فورس کو بے روزگار نہیں کیا جائے گا۔ صوبائی وزیر سیاحت محمد عاطف کی جانب سے صوبے میں 20 نئے سیاحتی مقامات کی دریافت کے اقدام کو صدر مملکت نے خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ امن قائم ہونے سے سیاحت کو فر وغ حاصل ہوا ہے۔ خیبر پختون خوا اور گلگت بلتستان سمیت ملک کے مختلف سیاحتی مقامات کی سیر کے لیے آنے والے سیاحوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ خیبر پختون خوا کی سطح پر سیاحت کی ترقی کے لیے ٹورازم پالیسی 2015ء کے تحت خاصا کام ہوا ہے۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لاپتا افراد کا مسئلہ انتہائی سنگین ہے اور اس ضمن میں انہوں نے بلوچستان کے اختر مینگل سے بات بھی کی ہے، چاہتے ہیں کہ لاپتا افراد کا مسئلہ ختم ہو۔ صدرِ مملکت نے خیبر پختون خوا میں شعبہ تعلیم کی ترقی کے لیے جاری اقدامات پر بھی اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ یکساں نصابِ تعلیم اور بعض دیگر حوالوں سے خیبر پختون خوا دیگر صوبوں کے لیے قابلِ تقلید ہے۔ اسی طرح مدرسوں میں زیر تعلیم طلبہ و طالبات کے لیے سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے خیبر پختون خوا حکومت کی کاوشیں بھی لائقِ تحسین ہیں۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے خیبر پختون خوا حکومت میں شامل وزراء اور ارکانِ اسمبلی کو مشورہ دیا کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ معاملات میں الجھنے کے بجائے اپنی کارکردگی پر توجہ دیں اور اس کارکردگی پر مثبت گفت و شنید کے رجحان کو فروغ دینے کی کوشش کریں۔ انہوں نے کہا کہ صدر کی بنیادی اور آئینی ذمہ داری صوبوں کے مابین روابط قائم کرنا ہے جس کے لیے میں اپنا کردار ادا کررہا ہوں۔ اٹھارہویں ترمیم کو رول بیک کرنے پر کسی قسم کا کوئی غور نہیں ہورہا، تاہم صوبوں کو حاصل اختیارات میں توازن لانے اور ان کی استعداد میں اضافے کے لیے مرکز بعض امور پر غور کررہا ہے۔
گورنر ہائوس میں پریس کانفرنس کے دوران بی آر ٹی منصوبے کا تذکرہ کرتے ہوئے صدرِ مملکت نے کہا کہ پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبہ جون2019ء یا اس کے ایک ماہ بعد مکمل ہونے کا امکان ہے۔ تاہم حتمی تاریخ کا انہوں نے ذکر نہیں کیا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل صوبائی حکومت نے آخری بار بی آر ٹی منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے 23 مارچ 2019ء کی ڈیڈ لائن دی تھی جبکہ اس سے قبل سابقہ اور موجودہ صوبائی حکومت کی جانب سے اس منصوبے کی تکمیل کے لیے پانچ مرتبہ ڈیڈلائن دی جا چکی ہے۔
صدرِ پاکستان عارف علوی اپنے دورۂ پشاور کے دوران مولانا سمیع الحق مرحوم کی تعزیت کے لیے اکوڑہ خٹک بھی گئے جہاں انہوں نے مولانا سمیع الحق مرحوم کے اہلِ خانہ سے تعزیت کی۔ صدر مملکت عارف علوی نے مولانا سمیع الحق شہید کی قبر پر فاتحہ خوانی کی اور مرحوم کو زبردست الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا۔
ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے دورۂ پشاور میں بلور ہائوس پشاور کا دورہ بھی کیا اور حاجی غلام احمد بلور سے اُن کے بھتیجے ہارون بلور کی وفات پر تعزیت کی، جو گزشتہ جولائی میں عام انتخابات سے چند دن قبل ایک خودکش حملے میں شہید ہوگئے تھے۔
ڈاکٹر عارف علوی نے بطور صدرِ مملکت پشاور کا اپنا حالیہ دورہ ان حالات میں کیا ہے کہ وہ قبائلی علاقے جو انضمام کے فیصلے سے قبل براہِ راست صدر کی زیر نگرانی تھے اب صوبے کا حصہ بن کر آئینی لحاظ سے صدرِ مملکت اور گورنر کے انتظامی دائرۂ کار سے نکل کر وزیراعلیٰ کے ماتحت آگئے ہیں۔ اسی طرح صدرِ مملکت قبائلی علاقوں کی پسماندگی اور یہاں کے لوگوں کو درپیش بے پناہ معاشرتی اور اقتصادی مسائل کا رونا تو رو چکے ہیں لیکن یہ مسائل کب حل ہوں گے، ان کو کون حل کرے گا، اس حوالے سے وہ ماضی کے حکمرانوں کی طرح یقیناً ایک واضح روڈمیپ دینے میں قطعاً ناکام رہے ہیں۔ موجودہ حکمران اپوزیشن میں ہوتے ہوئے قبائلی علاقوں میں اصلاحات اور یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے بلند بانگ دعوے تو بہت کرتے رہے ہیں، لیکن اس حوالے سے ان کی گزشتہ تین ماہ کی کارکردگی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ موجودہ حکومت فاٹا انضمام کو عملی شکل دینے اور اس سلسلے میں درپیش مشکلات اور رکاوٹوں کو دور کرنے میں کتنی سنجیدہ ہے اس کا اندازہ ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے آئے روز بنائی جانے والی کمیٹیوں کی تعداد اور ان کی ہیئتِ ترکیبی سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ انضمام کے عمل کی نگرانی اور عمل درآمد کے لیے جہاں وفاق کی سطح پر ورکنگ گروپ کام کررہا ہے، وہیں یہ کام صوبائی سطح پر بھی ایک سے زائد کمیٹیوںکے حوالے کیا گیا ہے، جن میں آئے روز ردو بدل سے یہ انتہائی حساس اور سنجیدہ عمل غیر سنجیدگی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔