پاک چین تعلقات کے رنگا رنگ ’’ولن‘‘

عوامی جمہوریہ چین کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر چین کا مؤقف کبھی تبدیل نہیں ہوگا۔ چین خطے میں قیامِ امن کے لیے مسئلہ کشمیر کے حل کی وکالت کرتا آیا ہے اور کرتا رہے گا۔ پاکستان اور بھارت میں صلح کرانا ہماری خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔ پاکستان کو بھارت سے مذاکرات پر قائل کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے تاکہ مسئلہ کشمیر کے حل کی راہیں کھل سکیں۔ چین کو یہ دوٹوک انداز اپنانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ بھارتی میڈیا نے کراچی قونصلیٹ پر حملے کے بعدمسئلہ کشمیر پر چینی مؤقف کی تبدیلی کا پروپیگنڈا کرنا شروع کردیا تھا۔کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملے کا عقدہ یوں تو اُسی وقت سے کھل گیا تھا جب بھارت، افغانستان اور مغربی ملکوں کی پناہوں اور بانہوں میں جھولنے والے ایک شدت پسند بلوچ زیرزمین گروہ نے اس کی ذمے داری قبول کی تھی، مگر اس کی کئی پرتیں وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ کھلتی چلی جارہی ہیں۔ اس حملے کی کئی روز بعد بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا کہ چینی قونصلیٹ پر حملے کے بعدچین پاکستان سے خوش نہیں، اور اس ناخوشی کا اظہار حملے کی رپورٹنگ کے دوران چین کے سرکاری ٹیلی ویژن ’’چائنا گلوبل ٹی وی نیٹ ورک‘‘ پر آزادکشمیر کو پورے کشمیر کے ساتھ ملا کر بھارت کے نقشے میں دکھانا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ میں لکھا گیا تھا کہ یہ پاکستان کا ردعمل جاننے کے لیے چین کی دانستہ کوشش ہوسکتی ہے۔ اس کے لیے Test balloon یعنی ’آزمائشی غبارہ‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ عوامی جمہوریہ چین کا اسٹائل یہی ہے کہ وہ عالمی اور علاقائی معاملات میں ردعمل اور رائے جاننے کے لیے پہلے کوئی بات اپنے سرکاری نیٹ ورکس کے ذریعے منظرعام پر لاتا ہے۔ رپورٹ میں اس پر مزید بحث کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ یہ نچلے اسٹاف کی غلطی نہیں ہوسکتی بلکہ اس میں اعلیٰ حکام کی رائے بھی شامل ہوسکتی ہے، کیونکہ ملکوں کے نقشے چین میں ایک حساس معاملہ ہے۔ چینی حکام تواتر کے ساتھ بک شاپس کا معائنہ کرکے کتابوں اور رسالوں کی چھان پھٹک کرکے دیکھتے ہیں کہ تمام ملکوں کے نقشے اصل ترتیب کے ساتھ ہیں یا نہیں، اور اگر کوئی نقشہ سرکاری مؤقف سے مطابقت نہ رکھتا ہو تو اسے ضبط کرلیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ چین کی طرف سے آزادکشمیر کو بھارت کا حصہ دکھانے کی یہ کوشش اُس وقت ہوئی جب اس ماہ چین اور بھارت کی مشترکہ فوجی مشقیں ہورہی ہیں اور کرتارپور کا معاملہ بھی موضوع ِبحث ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ چین کے سرکاری ٹی وی نے جو نقشہ دکھایا، بھارتی میڈیا نے اس کی قطعی غلط تشریح کی۔ اس نقشے میں پاکستان کو بھورے رنگ میں، جبکہ کشمیر کو سفیدی مائل رنگ میں دکھایا گیا ہے، جبکہ بھارت کا اس میں نام ونشان ہی نہیں۔ اس طرح چینی ٹی وی نے پوری ریاست کو ایک متنازع علاقے کے طور پر دکھایا ہے، مگر بھارتی میڈیا نے یہ فرض کرلیا کہ پوری ریاست کو متنازع دکھانے کا مطلب اسے بھارت کا حصہ دکھانا ہے۔ یہ خواہش تھی جسے نہایت بھونڈے انداز سے خبر بنانے کی کوشش ہوئی۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹس کا مقصد چینی قونصلیٹ پر حملے کو پاکستان کی ناکامی ثابت کرنا اور اسے نہایت مہارت کے ساتھ دونوں ملکوں کے تعلقات میں دراڑ کے لیے استعمال کرنا تھا۔ اور یہ تاثر دیا جانا مقصود تھا کہ چین نے پوری ریاست جموں وکشمیر پر بھارت کے دعوے کو تسلیم کرنے کا مؤقف اپنانے پر غور شروع کردیا ہے۔ چینی قونصلیٹ پر حملے سے جو مقاصد حاصل کیے جانے تھے، بھارت حاصل نہ کرسکا۔ پہلی بات تو یہ کہ اس حملے کی منصوبہ بندی کے لیے بلوچستان لبریشن آرمی نامی دہشت گرد گروہ کا انتخاب کیا گیا جو پوری طرح پاکستان مخالف اور بھارت، امریکہ اور یورپ کی چھائوں میں موجود ہے۔ اس کے سربراہ حیربیار مری برطانیہ میں ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ روس نے چینی ایما پر ہی یہ سوال اُٹھایا کہ برطانیہ وضاحت کرے کہ حیربیار مری وہاں کیا کررہے ہیں؟ بنیادی طور پر یہ سوال ماسکو میں کام کرنے والے ایک سینئر پاکستانی صحافی سید اشتیاق ہمدانی نے ماسکو میں روسی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماریہ زخارووا کی ہفتہ وار بریفنگ میں پوچھا تھا، جس پر روسی وزارتِ خارجہ کی ترجمان نے تائیدی انداز میں حیر بیار مری کی برطانیہ میں سیاسی پناہ کے حوالے سے کئی اور سوال اُٹھا دئیے۔ کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملے کو پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے نہایت مہارت کے ساتھ ناکام بنایا تھا۔کسی ایک چینی باشندے کو خراش تک نہیں آئی، اس کے برعکس کئی پاکستانی محافظ پاک چین دوستی پر وارے گئے۔کیا چین کی ناراضی کی وجہ یہ بنتی تھی کہ پاکستانیوں نے اپنی جانوں کی قیمت پر چینیوں کو کیوں بچایا؟ اس حملے میں بلوچ تنظیم کی جگہ ٹی ٹی پی کو استعمال کیا جاتا تو ’’اچھے طالبان، برے طالبان‘‘ کی چھیڑی گئی بحث کے تناظر میں کچھ لمحوں کے لیے یہ مخمصہ رہ سکتا تھا کہ حملہ آور کون ہے اور اس کا شجرہ نسب اور ڈانڈے کہاں جا ملتے ہیں۔ مگر بی ایل اے کی جانب سے ذمے داری قبول کرنے اور حملہ آوروں کی شناخت ظاہر ہونے کے بعد تو کسی قسم کا شک ہی نہیں رہا۔ چین نے اس صلاحیت اور قربانی کا بھرپور اعتراف کیا، یہاں تک کہ متاثرہ پاکستانی خاندانوں کے لیے چندہ بھی جمع کیا گیا۔ یہ عوامی سطح پر تعلق کا فطری اور فوری اظہار تھا۔
رواں ماہ جہاں بھارت اور چین کی مشترکہ فوجی مشقیں ہورہی ہیں، وہیںعوامی جمہوریہ چین کے وزیر خارجہ یانگ ژی پاکستان کے دورے پر آرہے ہیں، تو اس سے دوستی اور تعلق کی تجدید ہوگی۔ چین نے اس سے پہلے ہی مسئلہ کشمیر پر اپنے روایتی اور دیرینہ مؤقف کا اعادہ کیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے فوجی مشقوں اور قونصلیٹ پر حملوں جیسے جس قدر دائو پیچ استعمال کرے مگر حقائق تبدیل نہیں ہوسکتے۔