ایک معتبر جریدہ
صحافت کی عملی تربیت میری روز نامہ’’جسارت‘‘ میں ہوئی۔ رپورٹنگ ،سب ایڈیٹنگ ، کالم نگاری ، فیچر نگاری ، غرض یہ کہ مختلف شعبوں میں آزادانہ طریقے سے میں نے کام کیا اور وہ کچھ سیکھا جس کے سیکھنے کا موقع شاید کسی اور اخبار میں اس طرح مجھے نہ ملتا۔ چار سال تک میں اس اخبار سے وابستہ رہا۔ محمد صلاح الدین ، عرفان غازی ، پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ اور نیر علوی مرحوم جیسے جید صحافیوں کی صحبت اور فیض سے استفادے کا جو موقع ملا اس کے لیے میں’’جسارت‘‘ اخبار کا ہمیشہ ممنونِ احسان رہوں گا۔ کراچی یونیورسٹی سے وابستہ ہونے کے بعد بھی قلمی نام سے ایک عرصے تک میں اس اخبار میں کالم لکھتا رہا۔
’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ ابتدا میں روز نامہ’’جسارت ‘‘کا میگزین تھا جو ہر جمعے کو طلوع ہوتا تھا۔ چار پانچ برس بعد انتظامیہ نے اس میگزین کی مقبولیت کی بنا پر فیصلہ کیا کہ اسے ایک آزاد ہفت روزے کے طور پر نکالا جائے۔ یوں’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ ہفت روزہ جریدے کے طور پر نکلنے لگا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے سیاسی ہفت روزوں میں اپنا ایک ممتاز مقام بنا لیا۔ ہمارے ہاں اس نوعیت کے جرائد کی بنیاد’’ لیل و نہار‘‘ نے ڈالی تھی جو میاں افتخار الدین کے ادارے پروگریسو لمیٹڈ سے نکلتا تھا۔ پھر الطاف حسن قریشی نے ’’ زندگی‘‘ جاری کیا تو اس نوع کے جرائد یکے بعد دیگرے نکلتے چلے گئے۔ جب تک ملک میں سیاسی ہنگامہ آرائی جاری رہتی ایسے ہفت روزوں کی مارکیٹ میں مانگ باقی رہتی اور جب مارشل لا کے تحت سیاست پر پابندی عاید کر دی جاتی تو ان ہفت روزوں کی مقبولیت بھی ماند پڑ جاتی۔ فرائیڈے اسپیشل نے نئے جمہوری دور میں پڑھنے والوں کو پڑھنے کے لیے نہایت عمدہ مواد فراہم کیا ہے۔ اس میں معاصر سیاست ، عالمی صورت حال ، ملکی اور بین الاقوامی واقعات کے تجزیوں کے ساتھ ساتھ سیاست دانوں کے انٹرویوز ، کتابوں پر تبصرے اور صفحہ آخر پر زبان و بیان کی اصلاح کے حوالے سے ایک نہایت معلومات افزا مضمون پابندی سے چھپتا ہے۔ پڑھنے کے اس تمام مواد میں تنوع بھی ہوتا ہے۔ سیاسی ڈائریوں سے ملک کے اہم شہروں کے سیاسی درجہ حرارت کا بھی پتہ چل جاتا ہے۔ نئی کتابیں جو چھپتی رہتی ہیں ان کے موضوعات اور افادیت کا سراغ بھی ملتا رہتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ یہ جریدہ ایک مخصوص پالیسی اور مخصوس نقطہ نظر سے جملہ سیاسی ، تہذیبی ،معاشرتی اور معاشی معاملات کے حسن و قبح کو زیر بحث لاتا ہے۔ ادھر ایک عرصے سے رسالے کے صوری حسن میں بھی اضافہ ہوا ہے اور لے آؤٹ اور ڈیزائننگ پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ چوں کہ ادھر دو ایک برسوں سے اس خاکسار کے لکھے ہوئے مختلف شخصیات کے خاکے اوروفیات بھی رسالے کی زینت بنتے رہے ہیں اس لیے مجھے ادارتی پالیسی کا ’’ذاتی تجربہ‘‘ بھی حاصل ہے۔ جس بات نے مجھے ایک لکھنے والے کی حیثیت سے متاثر کیا وہ لکھنے کی وہ آزادی ہے جو رسالے میں حاصل رہی ہے۔ میں نے بائیں بازو کی شخصیات پر یا اْن لوگوں پربھی خاکے لکھے ہیں جو سیکولر ، لبرل یا مذہب بیزار سمجھی جاتی ہیں۔ ذاتی طور پر مجھے علم ہے کہ ایسی تحریروں پر ادارتی بورڈ یا خود ایڈیٹر کو تنقید کا نشانہ بننا پڑا ہے ، تلخ ترش اور تندو تیزمراسلات بھی چھاپنے پڑے ہیں لیکن قابلِ رشک بات یہ ہے کہ مجھ جیسے لکھنے والے کی تحریر کو نہ چھاپنے سے روکا گیا ہے اور نہ تحریر کے کسی حصے کو قطع و برید کے عمل سے گزارا گیا ہے۔ یہاں تک کہ بعض ایسی تحریریں بھی گوارا کی گئی ہیں جن میں جماعت اسلامی کی پالیسی کی بابت سخت ریمارکس دیے گئے۔ کشادہ دلی آزادی صحافت کی روح ہے اور یہ و صف میں نے اس جریدے میں پایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجھ سے جب بھی ادارے نے کچھ بھی لکھنے کی فرمائش کی ہے میں نے اسے پورا کرنے کو اپنے لیے عزت و سعادت جانا ہے۔ خدا وند تعالیٰ اس جریدے کو دن دونی رات چوگنی ترقی دے اور رائے عامہ کی تربیت میں یہ اپنا کردار بھر پور طریقے سے ادا کرے (آمین)۔ راقم الحروف اس ادارے کے جملہ اراکین کے لیے بھی دعا گو ہے۔
ڈاکٹر طاہر مسعود
مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی ہے کہ ہمارے شہر کراچی سے شائع ہونے والے ایک ہفت روزہ میگزین فرائیڈے اسپیشل نے اپنے قیام کے 19سال مکمل کرلیے ہیں۔ ویسے تو سالگرہ کے موقع پر انسان کی عمر کم ہوتی چلی جاتی ہے، لیکن کسی ادارے کی عمر سال گزرنے پر بڑھتی ہے، اس میں استحکام اور ترقی کی جانب سفر بڑھتا جاتا ہے، اس لیے اس بات کی خوشی زیادہ ہوتی ہے کہ کسی ادارے نے تسلسل کے ساتھ اپنے ہدف کے مطابق پیش رفت کی ہے۔ اس موقع پر اس ادارے کو مبارک باد، تعریفی کلمات، داد و تحسین بلکہ کوئی ایوارڈ بھی دیا جانا چاہیے، کیونکہ 19سال ایک لمبا عرصہ ہے۔ پاکستان میں اس دوران چار مختلف حکومتیں برسراقتدار رہیں۔ فرائیڈے اسپیشل نے کراچی سمیت ملکی و بین الاقوامی ایشوز پر اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کیا ہے، فرائیڈے اسپیشل نے زرد صحافت اور اس مقدس پیشہ کو بدنام کرنے والے ہر عمل سے اپنے آ پ کو پاک رکھا ہے اور ملک و ملّت کے مفاد میں بطور ریاستی ستون خرابیوں کی جانب متوجہ کرنے اور ان کا سدباب کرنے کی جانب ہمیشہ مثبت اور تحقیقی انداز سے رہنمائی کی ہے۔ میں بنیادی طور پر تو کاروبار سے منسلک ہوں اورکراچی میرا آبائی شہر ہے، اس لیے حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنا، مختلف تجزیوں اور آراء کو جاننا میری ضرورت ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ فرائیڈے اسپیشل ایک معیاری رسالہ ہے، جس کی ترقی اور ابلاغی دائرے میں وسعت کے لیے میری جانب سے نیک تمنائیں اور دُعائیں شامل ہیں۔
محمد یحییٰ پولانی
چیئرمین، پولانی گروپ آف ٹریول کمپنیز
خوبصورت اور سنجیدہ رسالے ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کی 19ویں سالگرہ پر دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ میرا مشاہدہ ہے کہ اس وقت جو زیادہ تر پاکستان میں رسائل شائع ہورہے ہیں، ان میں انٹرٹینمنٹ، فیشن اور شوبز یا صرف کاروباری سرگرمیوں کو ہی موضوع بنایا جاتا ہے جس کا صحافت سے تعلق نہیں جوڑا جانا چاہیے۔ عوام کو زندہ مسائل، ملک و قوم کو درپیش چیلنج اور ہلکے پھلکے انداز میں معاشرتی تربیت جیسے سنجیدہ موضوعات فرائیڈے اسپیشل کا خاصہ ہیں۔ میں لاہور میں مقیم ہوں، یہاں یہ شمارہ ہفتہ کو پہنچتا ہے لیکن ہر بار اس میں کچھ مضامین ایسے ہوتے ہیں جو میرے لیے ہفتہ بھر کے نیوز چینلز کے ٹاک شوز اور خبروں پر بھی بھاری ہوتے ہیں۔
شیخ الیاس مجید/بانی و چیف ایگزیکٹو آفیسر، ایگل گروپ آف کمپنیز، لاہور
“فرائیڈے اسپیشل‘ کی اشاعت کے 19سال مکمل ہونے پر مدیر اور سینئر صحافی یحییٰ بن زکریا کو اس موقع پر خصوصی مبارکباد پیش کروں گا جنہوں نے اس پودے کے تناور درخت بننے کے عمل میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ آج سے 19سال قبل جس زمانے میں فرائیڈے اسپیشل نے کراچی کی مخصوص سیاسی فضا میں آنکھ کھولی اور پروان چڑھنا شروع کیا، وہ خود ایک بہت چیلنج تھا۔ ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل عوام کو ایک منفرد اور تفصیلی انداز سے سیاسی شعور و آگہی کا سفر طے کروانے میں کامیاب رہا ہے۔ اس کے مضامین اور موضوعات کو میں سیاسی توازن اور صحافتی ذمہ داری پر مبنی رپورٹنگ قرار دیتا ہوں۔ اپنے شمارے میں صحت کے حوالے سے ان کا خصوصی گوشہ مختص کرنا خود اس بات کی علامت ہے کہ فرائیڈے اسپیشل معاشرے میں صحت مند اور مثبت اقدار کا فروغ چاہتا ہے۔ میں شکریہ ادا کرتا ہوں فرائیڈے اسپیشل کی انتظامیہ کا، جنہوں نے میرے خیالات کو اپنے شمارے کے لیے قابلِ اشاعت سمجھا۔
عبد الرؤف تابانی
بانی وصدر، ٹی ٹی آئی گروپ