عہد نو

فرائیڈے اسپیشل نے اپنی عمر کے 19 برس پورے کرلیے ہیں، لیکن یہ 19 برس باقاعدہ آزاد ہفت روزے کے ہیں۔ اس سے قبل یہ سیاسی و سماجی جریدہ روزنامہ ’’جسارت‘‘ کراچی کے ہفت روزہ میگزین کی صورت میں شایع ہوتا رہا تھا۔ جسارت کے میگزین کی شکل میں جس وقت یہ ہفت روزہ شایع ہونا شروع ہوا تھا اُسی وقت یہ ہدف طے کرلیا گیا تھا کہ اسے ایک آزاد جریدے کی شکل دینی ہے۔ اور یہ خواب 1999ء میں پورا ہوا۔ ذرائع ابلاغ کی دنیا بدل گئی ہے، اس کے باوجود صحافیوں، تجزیہ کاروں اور اسکالرز کی ایک موثر تعداد اس سفر کا حصہ رہی۔ فرائیڈے اسپیشل کے نئے سفر کا آغاز کرتے ہوئے ہمارے مرحوم ایڈیٹر عبدالکریم عابد نے جو پہلا اداریہ تحریر کیا تھا اسے ہم اپنی اور اپنے قارئین کی تذکیر کے لیے ’’دوبارہ‘‘ شایع کررہے ہیں:

’’فرائیڈے اسپیشل‘‘صاف ستھری ذہنی غذا فراہم کرتا ہے

’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ اِس شمارے سے ایک الگ ہفت روزہ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اب تک بھی یہ میگزین آپ کو صاف ستھری ذہنی غذا فراہم کرتا رہا ہے۔ یہ قارئین کے سیاسی تصور کے ارتقاء میں مفید رہا ہے، اور اب ہماری خاص کوشش یہ ہے کہ اس کے ذریعے آپ اپنے باطن کو روشن کریں اور اپنی شخصیت کے اخلاقی، روحانی پہلو اجاگر کریں۔ اس مقصد میں ہمیں کچھ نہ کچھ کامیابی ضرور حاصل ہوئی ہے، اور اس پر اب ہم اور بھی زیادہ توجہ مرکوز کریں گے۔
دنیا میں پریس کی ایجاد سے پہلے ’’علم‘‘ بہت کم اور محدود دائرے میں تھا۔ یقیناً پرنٹنگ مشینوں نے علم کو زیادہ پھیلایا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ علم سے زیادہ جہل کو اور تہذیب کے مقابلے میں بدتہذیبی کو اس سے ترقی حاصل ہوئی ہے، اور آج کا میڈیا تو سراسر ایک شیطانی اور تخریبی قوت بن گیا ہے اور اس کے اثرات نے ہر گھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ان حالات پر مستزاد یہ ہے کہ دنیا سے اب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے اور کم ہوتا جارہا ہے۔ اس کے مقابلے میں ’’دیکھنے‘‘ کے لیے طرح طرح کی چیزیں ملتی ہیں۔ ٹی وی ہر گھر کی ضرورت ہے اور اس پر بہت کچھ دیکھا جاسکتا ہے، اس لیے مطالعے کے کلچر کا خاتمہ ہورہا ہے، مگر یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے، کیونکہ مطالعے ہی سے انسان کے ذہن میں گہرائی پیدا ہوتی ہے، سوالات پیدا ہوتے ہیں اور ان کے جوابات کے لیے مزید مطالعہ اور مزید ذہنی کاوش کرنی ہوتی ہے۔ اگر کسی معاشرے کے پڑھے لکھے لوگوں میں مطالعے کی عادت ختم ہورہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پر مُردنی طاری ہورہی ہے، اور فکر و نظر کی اس مُردنی کا علاج یہی ہے کہ روزانہ پابندی سے کچھ نہ کچھ مطالعے کو ہم عادت بنالیں اور مطالعہ صرف ’’نیوز‘‘ کا نہ ہو، ’’ویوز‘‘ کا بھی ہو۔ اس طرح کا مطالعہ اُن لوگوں کے لیے خاص طور پر ضروری ہے جو تحریکی لوگ ہیں۔ دنیاکی تمام بڑی تحریکیں پڑھنے پڑھانے کے کلچر سے پیدا ہوئی ہیں اور اسی کے نتیجے میں یہ معاشرے میں تبدیلیوں کا سبب بنی ہیں۔ آج کے معاشرے کو بہت زیادہ اور بہت بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے، اس لیے لوگوں کو پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ سوچنا اور پڑھنا ہوگا۔ اور صرف سطحی یا سرسری مطالعے سے کام نہیں چلے گا۔ مگر ایسے مضامین جو بہت زیادہ فلسفہ آرائی پر مبنی ہوں اور ذہن کے لیے بوجھل ہوں، انہیں بھی ہمارا معاشرہ قبول نہیں کرے گا۔ اس حقیقت کو فرائیڈے اسپیشل نے پہلے بھی محسوس کیا ہے اور اس میگزین کی تحریریں فکر انگیز ہونے کے ساتھ شگفتہ بھی رہی ہیں، اور اب ہم اس پر بھی توجہ مرکوز کریں گے کہ اس میں یکسانیت نہ ہو اور مضامین کے اعتبار سے تنوع اور رنگارنگی ہو۔ اس طرح کی ہماری نئی کوشش آپ کے سامنے ہے اور امید ہے پسند کی جائے گی۔
یہ حقیقت ہے کہ جس طرح انسان کے جسم کو غذا کی ضرورت ہے، اسی طرح ذہن بھی غذا کا طلب گار ہے، اور انسان کو جب اچھی غذا نہیں ملتی تو وہ ناقص اور مضر صحت غذا کھانے پر مجبور ہوتا ہے۔ ایسے ہی اگر صحیح ذہنی غذا نہ ملے تو انسان جو بھی خراب یا نقصان دہ ذہنی غذا ہوگی اُسے استعمال کرے گا۔ اس اعتبار سے ہمارا کام مشکل ہے کہ مطالعے کی طرف لوگوں کو نئے سرے سے راغب کیا جائے اور مطالعے پر آمادہ لوگوں کے لیے دلچسپ مواد پیش کیا جائے، اور یہ مواد ایسا ہو کہ آپ کے سیاسی شعور اور اخلاقی و ثقافتی وجود کو نئی طاقت فراہم کرسکے۔
اس کام کے لیے ہمیں نئے لکھنے والوں کی بھی ضرورت ہے اور ہم قارئین کا نیا حلقہ بھی چاہتے ہیں۔ ہماری اس ضرورت کی تکمیل اس طرح ہوسکتی ہے کہ آپ فرائیڈے اسپیشل کو ایک عام میگزین خیال نہ کریں، اسے ایک تحریک کی حیثیت سے دیکھیں اور عام کرنے کی کوشش کریں۔ کیا اس سلسلے میں ہم آپ سے تعاون کی امید رکھنے میں حق بجانب ہیں؟