محترم پروفیسر عنایت علی خان نے اپنے فکر انگیز مضمون ’’کل شب جہاں میں نکلا‘‘ (4 دسمبر) میں تہ بند یا تہمد کے لیے ’’تہمت‘‘ (بروزن زحمت، رحمت) استعمال کیا ہے۔ ایک بڑے بزرگ شاعر اور آفاقی ادیب نے ہم پر طنز کیا تھا کہ آپ کے مرشد سید مودودیؒ نے تہمد کو تہمت لکھا ہے۔ کاش ہمیں سید مودودیؒ کو مرشد بنانے کا شرف حاصل ہوتا۔ لیکن لغت کے اعتبار سے تہمت بھی صحیح ہے اور دِلّی والے تہمت ہی کہتے ہیں۔ اس پر ماہرالقادری نے تفصیل سے لکھا ہے۔ کوئی اہلِ زبان اسے غلط نہیں سمجھے گا۔ لیکن عنایت علی خان تو راجستھانی ہیں۔ ممکن ہے یہ لفظ دلی سے وہاں پہنچ گیا ہو۔ ہمارا گمان ہے کہ اس کا انحصار اس پر ہے کہ کیسے باندھا گیا ہے۔ اگر تہ جما کر باندھا تو تہ بند۔ اور یوں ہی لپیٹ لیا تو تہمد۔ تہمت کی وضاحت عنایت علی خان کریں۔ اسے دھوتی اور لنگی بھی کہتے ہیں۔ دھوتی عام طور پر ہندوئوں کی ہوتی ہے جو آگے سے نہیں بلکہ پیچھے اڑسی جاتی ہے۔ برسات میں تیز ہوا کا سامنا کرنے والے ایک پنڈت جی کو دیکھ کر کسی نے فی البدیہہ شعر کہا تھا:
برسات کا موسم بھی کس شان سے آتا ہے
اک ہاتھ میں دھوتی ہے اک ہاتھ میں چھاتا ہے
لنگی سر پر بھی باندھی جاتی ہے اور عموماً دھاری دار یا رنگین کپڑے کی ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے جب ڈاکو کسی کو اغوا کرکے تاوان طلب کرتے تھے تو اس میں کئی گز کی لنگی بھی شامل ہوتی تھی، اور ہم حیران ہوتے تھے کہ ڈاکوئوں کو تہمد یا دھوتی کی کیا ضرورت پیش آگئی! بھاگنا پڑا تو کیا کریں گے! لنگی فارسی میں لُنگ ہے۔ بہت مختصر ہو تو لنگوٹ بن جاتی ہے، اور اس سے بھی کم لنگوٹی۔ ایک محاورہ ہے ’’لنگوٹی میں پھاگ کھیلنا‘‘۔ یعنی غربت میں ہولی منانا۔ اس کا متبادل اردو کی یہ مثل ہوسکتی ہے ’’تن پہ نہیں لتّا، پان کھائوں البتہ‘‘۔ لیکن جن کو پان کی لت لگ جائے وہ کپڑے، لتّے کی پروا کب کرتے ہیں! پان سے روکو تو گٹکے پر آجاتے ہیں۔ لتّا تو ہندی کا لفظ ہے لیکن ’لت‘ فارسی کا ہے جس کا مطلب ہے کپڑا۔ لتّا عموماً چیتھڑے یا گودڑ کو کہتے ہیں۔ مثلاً ’’تمہارے کپڑے برسات میں سڑ کر لتّے ہوگئے‘‘۔ تاہم کپڑا، لتّا لباس کے معنوں میں آتا ہے۔ اور لتّے لینا کا مطلب ہے دھجیاں اُڑانا۔ آتشؔ کا شعر ہے:
آفریں صد آفریں دستِ جنوں
خوب ہی لتّے لیے پوشاک کے
پنجابی میں لتّا کا متبادل ’’لیر‘‘ اور جمع میں ’’لیروں لیر‘‘ کیا جاتا ہے۔ ایک پنجابی گانے کے بول ہیں ’’تن تے لیراں، سروچ خاکاں عاشق دی بڑیائی (بڑائی) ہے۔ لیلیٰ مجنوں کی فلموں میں ایسے پھٹے حال عاشق نظر آجاتے ہیں، مگر فلم کی حد تک۔
آج کل ایک نیا لفظ یا اس کا نیا املا دیکھنے میں آرہا ہے اور وہ ہے ’’بال آخر‘‘۔ یہ لفظ فرائیڈے اسپیشل میں بھی نظر سے گزرا۔
(جغرافیائی اکتشاف۔ بحوالہ ڈاکٹر یوسف مروح)
آجکل چونکہ ایک بار پھر کرکٹ کا بخار چڑھا ہوا ہے اس لیے شاید یہ ’’بال‘‘ وہیں سے آئی ہو، مگر یہ نوبال ہے۔ اگر بالآخر لکھنے میں کوئی امر مانع تھا تو ’’بل آخر‘‘ لکھ دیا ہوتا، کم از کم تلفظ تو ٹھیک ہوجاتا۔ اب اگر بالآخر کو ’’بال آخر‘‘ ہی لکھنا ٹھیرا تو ایسے کئی اور الفاظ ہیں، ان کی بھی تصحیح ہوجانی چاہیے۔ مثلاً بال قصد، بال ارادہ، بال جبر، بال فرض، بال مشافہہ، بال ضد، بال یقین، بال مقابلہ، بال کل، بال عموم، بال اعلان وغیرہ۔ لیکن ’باللہ‘ کا املا کیا ہوگا؟ ویسے بالکل تو اب’’ بلکل‘‘ لکھا جانے لگا ہے۔ ایسے تمام الفاظ میں لام پر جزم ہے اور الف ساکن ہے۔
یہ تو ورقی ذرائع کی بات ہے مگر برقی ذرائع ابلاغ پر طرح طرح کے تلفظ سننے میں آتے ہیں۔ ایک بہت وجیہ عالم مفتی اکمل صاحب ایک چینل پر پیدل اور سواری پر حج کے ثواب کا تقابل کررہے تھے مگر بار بار سوار اور سواری کے ’س‘ پر پیش لگارہے تھے یعنی سُوار۔ اب فارسی میں یہ سُوار ہی ہے یعنی جو پیدل نہ ہو۔ لیکن اردو میں یہ ’س‘ پر زبر کے ساتھ مستعمل ہے اور زبر کے ساتھ ہی سواری گانٹھی جاتی ہے۔ اسی طرح سُوال ہے۔ عربی کا لفظ ہے اور ’س‘ پر پیش ہے۔ اہلِ پنجاب سُوال ہی کرتے ہیں، مگر اردو میں ’س‘ پر زبر ہے۔ ایک محاورہ ہے ’’سُوال آسماں، جواب ریسماں‘‘۔ عربی، فارسی کے ایسے کئی الفاظ ہیں جن کا املا اور تلفظ اردو میں بدل گیا ہے۔ مثلاً ’’محبت‘‘۔ اس کے پہلے حرف پر زبر ہے لیکن عوام کی زبان پر پیش کے ساتھ ہے یعنی مُحبت۔ عربی کا لفظ عیال بہ کسر اول ہے یعنی ’ع‘ کے نیچے زیر۔ اردو میں یہ ’ع‘ پر زبر کے ساتھ ہے۔
بیڑا (بی ڑا) اٹھانا عموماً غلط لکھا جارہا ہے۔ سمندری بیڑا (بے ڑا) ہو یا پان کا بیڑا، جو اٹھایا جاتا ہے، دونوں کے آخر میں الف ہے، ’ہ‘ نہیں ہے۔
بِیڑا پر یاد آیا کہ اب پان لگانا استعمال ہونے لگا ہے جب کہ صحیح ہے ’’پان بنانا‘‘۔ جوش ملیح آبادی بڑے زبان شناس اور زبان دان تھے۔ اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ حسب معمول طوائف کے کوٹھے پر پہنچے اور نائیکہ سے کہا پان لگادیجیے۔ نائیکہ نے اپنی گرگابی پر ہاتھ مار کر پوچھا ’’جوش صاحب! کے لگیں گے؟‘‘ جوش کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور کہا ’’پان بنادیجیے‘‘۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب زبان سکھانے کے لیے شرفا اپنے بچوں کو طوائف کے کوٹھے پر بھیجتے تھے جہاں وہ اور بھی کچھ سیکھ لیتے تھے۔ اب اس کام کے لیے بچوں کو ٹی وی کے سامنے بٹھادیا جاتا ہے۔ جوش ہی کے بارے میں یہ واقعہ پڑھا تھا کہ انہوں نے لکھنؤ میں ایک پنواڑی کو پان لگانے کے لیے کہا تو اس نے حیران ہوکر پوچھا ’’کیا ملیح آباد میں اب کوئی اردو جاننے والا نہیں رہا؟‘‘ ٹی وی چینلوں پر مسخ کو مَ۔ سخ کہنا عام ہے یعنی بروزن شفق۔ جب کہ مسْخ میں ’س‘ ساکن ہے اور اس پر جزم ہے، اور مسخ کا وزن بھی جزْم ہے۔
حِرز اور حرز جاں اردو میں عام استعمال ہوتا ہے۔ ’ح‘ بالکسر ہے اور حِرز کا مطلب ہے پناہ گاہ، پناہ کی جگہ، مامن۔ مجازاً تعویذ کو بھی کہتے ہیں جو لوگ شیطان یا اس کی ذریات سے بچنے کے لیے گلے میں ڈال لیتے ہیں یا بازو پر باندھ لیتے ہیں۔ پنجابی میں تعویذ کا تلفظ ’’تویت‘‘ ہوگیا ہے، چھوٹا سا ہو تو ’’تویتڑی‘‘۔ لیکن اس طرح تعویذ کا مطلب بدل جاتا ہے۔ عربی کا لفظ ہے اور مطلب ہے پناہ دینا، پناہ میں لینا۔ وہ نشان جو قبروں پر بنایا جاتا ہے۔ یہ ’تعوذ‘ سے ہے جس کا مطلب ہے پناہ لینا، اعوذباللہ کہنا۔ اب یہ کام تویت یا تویتٹری تو نہیں کرسکتے۔
خواجہ منظورالحسن، عربک لینگویج ٹیوٹر نے اپنے محبت نامے میں فرمایا ہے کہ ’’میرا خیال تھا کہ آپ توجہ دلائیں گے لیکن انتظار کے بعد اب خود یہ فریضہ انجام دینے لگا ہوں۔ آپ کسی طرح فواد چودھری کو بتادیں کہ فوّاد کوئی لفظ نہیں ہے، یہ دراصل ’’فُوَاد‘‘ ہے‘‘۔ لیکن بھائی منظورالحسن، آپ براہِ راست چودھری صاحب کو لکھ دیں۔ ہم کسی کے نام کی تصحیح اُس وقت کرتے ہیں جب ہمارے سامنے لکھا ہوا آئے، ہر ایک کو پکڑ پکڑ کر یہ کام نہیں کرتے۔ البتہ جب کبھی ہمارے سامنے طحہٰ کا نام آیا تو اس کی تصحیح کردی کہ صحیح ’طٰہٰ‘ ہے، مگر اب تک تو یہی صحیح نہیں ہوپایا۔ حالانکہ قرآن کریم کی ایک سورۃ طٰہٰ ہے۔ اسے طاہا بھی لکھا گیا ہے۔ ویسے فواد کا مطلب دل ہے۔