فقہ السنۃ

نام کتاب: فقہ السنۃ
فقہی احکام و مسائل کا عظیم الشان انسائیکلوپیڈیا
تالیف: فضیلۃ الشیخ سید سابق رحمۃ اللہ علیہ مصری
اردو ترجمہ: پروفیسر ڈاکٹر عبدالکبیر محسن
تحقیق: علامہ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ
نظر ثانی: شیخ الحدیث حافظ عبدالستار الحماد
فقہ السنۃ جلد اوّل:صفحات 687،قیمت 1700روپے
فقہ السنۃ جلد دوم:صفحات 848،قیمت 1700روپے
ناشر:مکتبہ اسلامیہ۔ ہادیہ حلیمہ سینٹر، غزنی اسٹریٹ، اردوبازار، لاہور 042-37244973 – 37232369
بیسمنٹ بالمقابل شیل پیٹرول پمپ کوتوالی روڈ، فیصل آباد
041-2631204 – 2641204
فیس بک: facebook.com/maktabaislamia1
ویب سائٹ: www.maktabaislamiapk.com
یہ فقہی احکام و مسائل کا عظیم الشان انسائیکلوپیڈیا موسوعہ ’’فقہ السنۃ‘‘ آیت من آیات اللہ، فقیہ اسلام، فضیلۃ الشیخ، علامہ مجاہد کبیر سید سابق رحمۃ اللہ علیہ کی وہ صراط مستقیم پر چلانے والی کتاب ہے جس نے لاکھوں مسلمانوں کی زندگیوں میں انقلاب پیدا کردیا۔ یہ چار جلدوں میں عربی زبان میں لکھی گئی، جس کا ترجمہ انگریزی، فارسی، ترکی، ازبکی، روسی، بوسنیائی، تھائی، ملیالم اور اردو میں ہوگیا ہے۔
عرصہ ہوا سید سابق کی ایک بہت ہی مفید کتاب ’’اسلامنا‘‘ (ہمارا اسلام) راقم کے ہاتھ لگی۔ وہ ہم نے اپنے عربی کے استاد جناب ظہیر الدین بھٹی صاحب کی خدمت میں پیش کردی اور اُن سے اس کا اردو میں ترجمہ کرنے کی درخواست کی، جو انھوں نے کمالِ ذرہ نوازی سے قبول کرلی اور اس کا ترجمہ اردو میں کردیا، جو اسلامک پبلی کیشنز سے ’’اسلام دستورِ حیات‘‘ کے نام سے طبع ہوا۔ عرصے سے اس کا پہلا ایڈیشن ختم ہوچکا ہے۔ اسلامک پبلی کیشنز یا کسی دوسرے ادارے کو اس کا دوسرا ایڈیشن بھی چھاپنا چاہیے۔
ہماری خوش قسمتی کہ ہمارے ہاتھ ابومسعود عبدالجبار سلفی حفظہ اللہ کا گراں قدر سوانحی مضمون ’’فقیہ اسلام سید سابق مصریؒ… کنگ فیصل ایوارڈ حاصل کرنے والے جلیل القدر مصنف‘‘ لگا جو ماہنامہ ’’محدث‘‘ لاہور سے 2005ء میں شائع ہوا تھا۔ اس کو ہم اپنے اس تعارف میں قارئین کی ضیافتِ طبع کے لیے شامل کررہے ہیں:
’’سید سابق مصری مرحوم ان خوش نصیب مؤلفین میں سے ہیں جو اپنی بے مثال تصانیف کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ آپ روس میں منعقد کانفرنس میں اسلام کے موضوع پر لیکچر دینے کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ ماسکو ائرپورٹ پر ہوائی جہاز سے اُترے تو اپنے سامنے ایک بہت بڑا جلوس دیکھ کر حیران ہوگئے، جونہی آپ گیٹ سے نکلے تو اس جلوس کے شرکا آپ کو دیکھ کر پُرجوش ہوگئے اور بے اختیار آپ کے نام کے نعرے مارنے لگے، اور آپ کے سر اور ہاتھوں کو لپک لپک کر بوسے دینے لگے۔ آپ نے حیران ہوکر ان سے پوچھا کہ آپ مجھے کس طرح جانتے ہیں؟ تو ان روسی مسلمانوں نے جواب دیا کہ آپ کی کتاب فقہ السنۃ کی وجہ سے آپ کو جانتے ہیں۔ یہ سن کر بے اختیار آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور کہنے لگے: اے اللہ! یہ بات تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ دیارِ غیر کے مسلمان دیوانہ وار میرے استقبال کو نکلیں گے اور مجھے سر آنکھوں پر بٹھائیں گے۔
اس مختصر مضمون میں لاکھوں کی تعداد میں چھپنے والی کتاب فقہ السنۃ کے جلیل القدر مصنف کی حیاتِ مبارکہ پر روشنی ڈالیں گے تاکہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی انہی کی پیروی میں خلوصِ دل سے خدمتِ اسلام کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
سید مرحومؒ مصر کے صوبہ منوفیۃ کے ضلع باجور کی بستی اُسطنہا میں جنوری 1915ء میں پیدا ہوئے، اور ابھی نو سال کی عمر کو نہ پہنچے تھے کہ قرآنِ کریم حفظ کرلیا، اور پھر قاہرہ کی جامعہ ازہر میں داخل ہوگئے، اور وہاں سے 1947ء میں شریعت کی اعلیٰ ڈگری حاصل کرکے ماجستیر (ماسٹریٹ) میں داخل ہوگئے، اور وہاں سے ممتاز پوزیشن لے کر فارغ ہوئے۔ اس کے بعد آپ نے جامعہ ازہر کے مختلف شعبوں میں پڑھانا اور لیکچر دینا شروع کردیا، پھر 1950ء کے آخر میں وزارتِ اوقاف سے منسلک ہوگئے اور مساجد کی نگرانی کا منصب سنبھال لیا۔ بعد ازاں آپ ’ثقافتِ اسلامیہ‘ کے ادارے سے وابستہ ہوئے اور وہاں اُس وقت تک دعوت و تربیت میں مشغول رہے تاآنکہ آپ کی نظربندی کے احکام جاری ہوگئے۔ ایسی صورت حال میں آپ وہاں سے مکہ مکرمہ منتقل ہوئے اور کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی میں پڑھانے لگے۔ بعد ازاں آپ کو اُم القریٰ یونیورسٹی میں شریعت کالج کے ’شعبہ عدل و قضا‘ کی سربراہی سونپ دی گئی، اور اس کے بعد آپ کو ریسرچ کے اعلیٰ شعبے کی مسند تفویض کردی گئی اور آپ تا حیات پروفیسر مقرر ہوگئے۔ اس عرصے میں آپ نے بہت سے لیکچرز دیے اور فقہ و اُصولِ فقہ کی تعلیم دی، اور ایک صد سے زیادہ مقالات پر نظرثانی کی، اور علما و اساتذہ کے جم غفیر کو سندِ فضیلت عطا کی۔ اس کے بعد آپ نے اپنی زندگی کے آخری تین سال وطن واپس آکر قاہرہ میں بسر کیے اور اپنی وفات تک وہاں سے پھر کسی جگہ نہ گئے۔
سید سابقؒ اپنی جوانی کے آغاز میں ہی الجمیعۃ الشرعیۃ کے بانی شیخ سبکیؒ سے منسلک ہوگئے اور ان کے خلف الرشید شیخ عبداللطیف مشتہری ؒ کی معیت میں اُن سے تعلیم و تربیت حاصل کرتے رہے، اور ان کی صحبت کی برکت سے آپ کے دل میں سنت کی محبت گھر کر گئی۔ یہاں آپ کی بلند ہمتی اور ذہانت و فطانت اور دِلی طہارت نے آپ کو اپنے ساتھیوں میں ممتاز مقام پر فائز کردیا، اور آپ فقہ کے بالاستیعات مطالعہ و تحقیق میں کمال حاصل کرگئے۔ جب آپ کے شیخ نے فقہی مسائل میں آپ کی فہم و فراست کا مشاہدہ کیا تو اُنہوں نے آپ کو شرح وبسط کے ساتھ فقہی دروس تیار کرنے اور اپنے ہم سبق ساتھیوں کو پڑھانے کا حکم دے دیا، حالانکہ اس وقت آپ 19 سال کی عمر کو بھی نہ پہنچے تھے۔
شیخ سبکیؒ مرحوم کی طرزِ فکر کا آپ کی شخصیت پر بڑا اثر تھا۔ چنانچہ آپ بیان کرتے ہیں کہ میرے عنفوانِ شباب میں جہادِ فلسطین شروع ہوگیا اور میں نے ایک دن جوش میں آکر اپنے شیخ سے دورانِ سبق ہی کہہ دیا کہ آپ کب تک ہمیں اخلاق و آداب کے درس دیتے رہیں گے؟ ہمیں جہاد کی ترغیب کس نے دینی ہے اور اس کی اہمیت کس نے بتانی ہے؟
فرماتے ہیں کہ میرے شیخ نے مجھے بیٹھ جانے کا حکم دیا تو میں نے جواب دیا کہ ہم کب تک بیٹھے رہیں گے؟ اُنہوں نے کہا: میرے بیٹے! اگر تُو عالم کے سامنے اَدب کا مظاہرہ کرنے پر صبر نہیں کرسکتا تو جہاد فی سبیل اللہ میں کیسے صبر کرے گا؟
فرماتے ہیں کہ ان کے اس فرمان نے مجھے ہلاکر رکھ دیا اور میں اب تک اس کا اثر اپنی زندگی میں محسوس کرتا ہوں۔ اس کے بعد سید سابق مرحوم کا شیخ حسن البناؒ سے تعارف ہوگیا تو آپ ان سے بیعت ہوگئے۔ ان کی دعوت میں شریک ہوکر ان کے معاون بن گئے اور آپ نے اخوان المسلمین کی تعلیم و تربیت کا بیڑا اُٹھالیا اور عرصۂ دراز تک انہیں تعلیم دیتے رہے۔ ایک دن شیخ حسن البنا مرحوم نے بذاتِ خود آپ کا درس سنا تو انہیں آپ کا اُسلوب بہت پسند آیا اور انہوں نے ان دروس کو کتابی صورت میں مدوّن کرنے کا حکم دے دیا، اور یہیں سے فقہ السنۃ کی تالیف کا آغاز ہوگیا۔
یوں تو آپ کی دیگر مؤلفات بھی نہایت وقیع ہیں، لیکن آپ کو اپنی کتاب فقہ السنۃ بہت ہی محبوب تھی، کیونکہ آپ نے اس کو روایتی اسالیب کے اُسلوب سے ہٹ کر صحیح منہج کے مطابق تالیف کیا اور کتاب و سنت کے قوی دلائل سے جس امام کے مذہب کی تائید ہوتی تھی اسے دل کھول کر ترجیح دی، اور جہاں کہیں کسی کا مؤقف قرآن و سنت کی رُو سے غلط ثابت ہوا اس کی تردید کردی اگرچہ وہ جمہور علمائے اُمت کا مذہب ہی کیوں نہ ہو۔
فقہ السنۃ کے عمدہ اُسلوبِ بیان، محکم استدلال اور حسن ترتیب نے سید سابق کی شہرت کو چار چاند لگادیے، اور آپ کا نام آپ کی کتاب کا لاحقہ بن گیا۔ جونہی کسی عالم کی زبان پر فقہ السنۃ کا نام آتا ہے تو آگے خودبخود سید سابق کا نام زبان پر آجاتا ہے۔ یہ آپ کے خلوصِ نیت کی برکت ہے کہ یہ کتاب لاکھوں کی تعداد میں چھپ رہی ہے اور مسلم و غیر مسلم ممالک کے لاکھوں مسلمان اس سے فقہی رہنمائی حاصل کررہے ہیں، بلکہ 1994ء میں اس شاندار کتاب کی تالیف پر آپ کو ’’کنگ فیصل ایوارڈ‘‘ بھی دیا گیا اور مصریوں نے بھی اپنے ملک کے اس قابلِ قدر پروفیسر اور مصنف کو بہت پذیرائی بخشی، اور بہت سے گولڈ میڈل عطا کیے۔
آپ کی دیگر مؤلفات یہ ہیں:
-1مصادر القوۃ فی الاسلام
-2الربا والبدیل: بعض معاصرین کے سود کے جواز کے فتووں پر محاکمہ
-3رسالۃ فی الحج
-4رسالۃ فی الصیام
-5تقالید و عادات یجب أن تزول فی الأفراح المناسبات
-6تقالید و عادات یحجب أن تزول فی المأتم
ان میں چار کتابیں تو آپ نے وزارتِ اوقاف کے زیراہتمام قائم شدہ ادارہ ثقافت کی علمی سرگرمیاں سرانجام دیتے ہوئے لکھیں، جبکہ آخری دو کتابیں الجمعیۃ الشرعیۃ سے تعلق کے دوران لکھیں۔ یہ کتابیں آپ کے رجحانات کو ظاہر کرتی ہیں کہ شیخ سید سابق کو بدعات سے کس قدر نفرت اور سنت سے کس قدر محبت تھی۔‘‘
کتاب اس قابل ہے کہ ہر گھر میں موجود رہے اور اس کا مطالعہ کیا جائے، اس کو سمجھا جائے اور اس پر صدقِ دل سے ایمان کے ساتھ عمل کیا جائے کہ صراط مستقیم ہے اور جنت کا سیدھا راستہ ہے۔
کتاب خوبصورت سفید کاغذ پر عمدہ طبع ہوئی ہے اور بڑے سائز کی ہے، مجلّد ہے اور رنگین و حسین سرِورق سے آراستہ ہے۔