سید سلیمان اشرف بہاری اور دو قومی نظریہ

ڈاکٹر محمد سہیل شفیق
نام کتاب: سید سلیمان اشرف بہاری اور دو قومی نظریہ
مصنف: محمد احمد ترازی
ناشر: دارالنعمان لاہور
صفحات: 446، قیمت:1000روپے
رابطہ:04237228075 ،03331206301
صدیوں کا تاریخی تسلسل اس صداقت کا مظہر ہے کہ برعظیم میں دو قومیں باہم نشو ونما پاتی رہیں، لیکن وہ ایک دوسرے میں مدغم نہ ہوسکیں` اور دونوں کی مذہبی رسومات اور ذاتی و مجلسی زندگی میں واضح فرق موجود رہا۔ دونوں قوموں کی معاشرت، تمدن، زبان، رسم الخط، عقیدے و روایات، کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، پہننے اوڑھنے، وضع قطع، گفتار و کردار، طرزِ زندگی و اندازِ فکر، غرض یہ کہ ان دونوں میں کوئی ایک چیز بھی مشترک نہیں تھی۔ فکرو عمل کے ہر زاویۂ نظرکے اعتبار سے یہ دو قومیں دو الگ الگ تہذیب و ثقافت، معیشت و معاشرت اور فلسفہ و سیاسیات کی حامل رہیں، اور یہی وہ حقیقت ہے جو دو قومی نظریے کی اساس ہے۔
ہندوستان میں اکبری الحاد اور لبرل ازم کے مقابلے میں اسلامی قومیت کے عَلم بردار اور دو قومی نظریے کے محافظین میں سے ایک اہم نام پروفیسر سید محمد سلیمان اشرف بہاریؒ (استاذ دینیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) کا بھی ہے۔ پروفیسر سید محمد سلیمان اشرف بہاریؒ معقولات و منقولات، لسانیات، فقہ، ادب اور درس و تدریس کے ماہر اور علم و عمل کے جامع تھے۔ ایک ایسے وقت میں جب بڑے بڑے نامور لوگ متحدہ قومیت کے سیلاب میں بہے چلے جارہے تھے، سید سلیمان اشرفؒ بلاخوف لومۃ لائم دو قومی نظریے کی شمع روشن کیے مخالف ہوائوں سے نبرد آزما تھے۔ آپ کے شاگردِ رشید پروفیسر رشید احمد صدیقی بجا طور پر رقم طراز ہیں:
’’ مرحوم (سید سلیمان اشرف) مطعون ہورہے تھے لیکن نہ چہرے پر کوئی اثر تھا اور نہ معمولات میں کوئی فرق… سیلاب گزر گیا، جو کچھ ہونے والاتھا وہ بھی ہوا، لیکن مرحوم نے اس عہدِ سراسیمگی میں جو کچھ لکھ دیا تھا، بعد میں معلوم ہوا کہ حقیقت وہی تھی۔ اس کا ایک ایک حرف صحیح تھا۔ آج تک اس کی سچائی اپنی جگہ قائم ہے۔ سارے علماء سیلاب کی زد میں آچکے تھے۔ صرف مرحوم اپنی جگہ قائم تھے۔‘‘
پروفیسر سید سلیمان اشرفؒ کی بصیرت افروز نگاہیں یہ دیکھ رہی تھیں کہ اس وقت بلادِ اسلامیہ پر جو ظلم و ستم کے بادل چھائے ہوئے ہیں اس کا سبب یہی ہے کہ مسلمان خدا کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہیں۔ چونکہ ہماری قومیت صرف اسلام و ایمان ہی سے مراد ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک ہندی کو ایک عرب کا، ایک امریکی کو ایک افریقی کا، ایک حبشی کو ایک شامی کا، ایک چینی کو ایک یورپی کا، اور ایک نومسلم کو ایک صحیح النسب سید کا، محض کلمہ پڑھ لینا ہی ہم قوم بنادیتا ہے۔ آپؒ نے یہ بھی واضح کیا کہ اسلام صرف تزکیہ نفس ہی کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ سیاست سمیت جملہ شعبۂ ہائے زندگی کے لیے مکمل رہبری و رہنمائی کا سامان بھی فراہم کرتا ہے۔
متحدہ قومیت کا نظریہ صرف اسلامی تعلیمات سے دوری ہی نہیں بلکہ اپنے جداگانہ تشخص کی نفی اور دوقومی نظریے کی مسلمہ حقیقت سے انحراف بھی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ 1920-21ء کے ہیجانی دور میں آپ نے اس موضوع پر دو اہم کتابیں ’’الرشاد‘‘ اور ’’النور‘‘ تصنیف کیں اور ببانگِ دہل اس حقیقت کو آشکار کیا کہ حکومت انگریزوںکی ہو یا ہندوؤں کی، اسلام و اہلِ اسلام کے لیے اس میں کوئی فلاح نہیں ہے۔
پروفیسر سید سلیمان اشرف بہاریؒ ان علمائے ربّانین میں سے ہیں، جن کی بے مثال جدوجہد نے برعظیم میں جذبۂ اسلامی اور ملّی تشخص کو برقرار رکھنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ پیش نظر کتاب ’’سید سلیمان اشرف اور دوقومی نظریہ: برعظیم کی ملّی تحریکات کے تناظر میں ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘ فاضل محقق ومؤرخ ، صحافی و صاحبِ طرز ادیب جناب محمد احمد ترازی کی اپنے موضوع پر ایک عمدہ کاوش ہے۔
یہ کتاب درجِ ذیل سات ابواب پر مشتمل ہے: 1۔ کتابِ زندگی، 2۔ دو قومی نظریے کا آغاز و ارتقاء، 3۔ شعور بیداریٔ ملت،4۔ جدید عصری علوم اور جذبۂ آزادی،5۔ تحریکِ گائو کشی اور تحفظِ شعائرِ اسلامیہ، 6۔ ہندو مسلم اتحاد،7۔ ملّی تحریکات اور دو قومی نظریہ۔
پروفیسر سید محمد سلیمان اشرف بہاریؒ کی دو قومی نظریے کے حوالے سے خدمات، ان کی جرأت و استقامت، پیش بینی و سیاسی بصیرت کا تذکرہ ایک قرض تھا جسے ترازی صاحب نے ادا کرنے کی سعیِ مشکور کی ہے جس کے لیے وہ ہمارے شکریے کے مستحق ہیں۔فاضل محقق نے اختصار و جامعیت کے ساتھ پروفیسر سید محمد سلیمان اشرف بہاریؒ کے حالاتِ زندگی، ان کے بے داغ کردار، تعلیمی خدمات اور برعظیم کی ملّی تحریکات کے تناظر میں دو قومی نظریے کی بقا کے لیے ان کی بے مثال جدوجہد کا احاطہ کیا ہے اور مستند و معتبر ذرائع اور تاریخی حوالوں سے دو قومی نظریے کا نہ صرف تقسیم ہند سے پہلے بلکہ بعد کے بدلتے نظریات و حالات کے تناظر میں بھی بخوبی جائزہ لیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد بھی نام نہاد سیکولر بھارت کے مسلمانوں کو تہذیب و ثقافت کے حوالے سے انھی خطرات کا سامنا ہے جن خطرات کا سامنا متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کو تھا۔ لہٰذا آج اس بات کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے کہ نسلِ نو کو اپنی قومی و ملّی تاریخ سے آگاہی فراہم کی جائے۔ پیش ِ نظر کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔