پیشکش: ابوسعدی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’آدمی کسی برتن کو نہیں بھرتا جو پیٹ کے برتن سے بُرا ہو۔ انسان کے لیے تو چند لقمے کفایت کرسکتے ہیں، جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھ سکیں، لیکن اگر زیادہ کھانا ضروری ہے تو پیٹ کا ایک تہائی کھانے کے لیے، ایک تہائی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے ہو۔‘‘ (ترمذی)
اسلام سے پہلے عورت
اسلام سے پہلے تمام کرۂ ارضی پر عورت کو انسان کی ماں ہونے کے باوجود خیر نہیں شر کا سرچشمہ سمجھا جاتا تھا۔ یونانی کہتے تھے کہ آگ کے جلے اور سانپ کے ڈسے کا علاج ممکن ہے، لیکن نہیں تو عورت کے شر کا مداوا ممکن نہیں۔ افلاطون کا قول تھا کہ ذلیل و ظالم مرد عورتوں کے روپ میں بدل جائیں گے۔ رومۃ الکبریٰ میں 90 لاکھ عورتوں کو محض اس لیے زندہ جلایا گیا کہ وہ شیطان کی آلۂ کار ہیں۔ ایران میں بیوی اور بہن کے درمیان امتیاز نہ تھا۔ ہندوستان میں عورت کو قمار بازی کی شرط پر لگادیا جاتا تھا۔ ایک ہی عورت کئی بھائیوں کی دھرم پتنی ہوسکتی تھی۔ خود عرب اپنی بیٹیوں کو زمین میں زندہ گاڑ دیتے تھے، لیکن حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد جب اسلام نے اپنا سفر شروع کیا تو عورت مرد کی باقاعدہ شریکِ سفر ہوگئی۔ حتیٰ کہ اس کو نصف کائنات کا درجہ حاصل ہوگیا۔ اللہ کی حکمتوں اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی فراستوں کے سامنے عقل سپر انداز ہوگئی۔
جب عورت کی سرفرازی کا یہ عقدہ کھلتا ہے کہ جس دنیا میں بیوہ عورت کے لیے خاوند کے ساتھ ستی ہوجانا لازم تھا اور وہ موت کے گھاٹ اُتار دی جاتی تھیں، اس دنیا میں آخرالزماں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی شادی ایک بیوہ سے ہوئی اور انھی سے اولاد کا سلسلہ چلا۔ حقیقت یہ ہے کہ عورت کو جو منزلیں اور مقامات حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی تعلیمات نے عطا کیے ہیں وہ اس سے پہلے نہ اُسے حاصل تھے اور نہ پھر اُس سے زیادہ حقوق و فرائض اُسے سونپے گئے۔ (شورش کاشمیری)
بھیڑ یا اوربکری کا بچہ
ایک بھیڑیا کسی ندی میں پانی پی رہا تھا۔ کیا دیکھتا ہے کہ ہزار قدم کے فاصلے پر ندی کے بہائو کی طرف بکری کا ایک بچہ بھی پانی پی رہا ہے۔ بکری کے بچے کو دیکھ کر بھیڑیے کا جی للچایا اور اس بات پر آمادہ ہوا کہ کوئی الزام لگا کر اس کو مارے۔ یہ سوچ کر بکری کے بچے کے پاس جاکر کہنے لگا: ’’کیوں بے، بدتمیز تُو نے ندی کے پانی کو گدلا کرکے آخر ہم کو پیاسا مارا۔‘‘
بکری کا بچہ بھیڑیے کی ہیبت ناک صورت دیکھ کر اور اس کی گھرکی سن کر کانپنے لگا اور گڑگڑا گڑاگڑا کر عرض کیا: ’’جناب اتنی بڑی تو ندی ہے کہ اِس پار سے اُس پار کا آدمی نظر نہیں آتا۔ دوسرے آپ ہزار قدم چڑھائو کی طرف پانی پیتے تھے۔ مجھ شامت زدہ نے ایک چلو پانی یہاں سے بے خبری کی حالت میں اگر پی بھی لیا تو اس سے تمام ندی کا پانی گدلا نہیں ہوسکتا۔‘‘
بھیڑیے نے یہ جواب سن کر کہا: ’’ہاں میں جانتا ہوں تُو منطق پڑھا ہوا ہے۔ تمہاری ذات بڑی حجتی ہے۔ تم ہر بات میں پہلو سوچا کرتے ہو۔ ہم بھیڑیوں ہی پر نہیں بلکہ جنگل کے تمام جانوروں پر بڑا ظلم کرتے ہو۔ اور جب تم کو کوئی قائل کرنا چاہتا ہے تو تم پیچ دار باتوں سے اُلٹا اسی کو خطا وار ٹھیراتے ہو۔ اسی طرح تیرے باپ نے اس جنگل کے بھیڑیوں کا دم ناک میں کر رکھا تھا۔ آخر کو میں نے مجبور ہوکر اُس کو مارا اور خدا خدا کرکے اس کے عذاب سے نجات پائی۔ کیا تجھ کو یاد نہیں اور تُو نہیں جانتا اور پھر بھی تُو باز نہ رہا۔‘‘
بکری کے بچے نے عرض کیا کہ: ’’جناب میرا باپ تو کسی بھیڑیے کے ہاتھ سے ہلاک نہیں ہوا بلکہ ہمارے مالک کے گھر بیٹا پیدا ہوا تھا (خدا کرے جیتا رہے) اس کے عقیقے میں میرا باپ قربان ہوکر حقِ نمک سے ادا ہوا۔
بھیڑیے نے کہا: ’’ہاں تُو بڑا حاضر جواب ہے اور کسی سے قائل ہونے والا نہیں۔ لیکن جو سنے گا وہ بخوبی سمجھ لے گا کہ تُو نے آج ایسا بڑا بھاری قصور کیا ہے جس کے عوض تجھ کو مار ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس سے زیادہ بحث کرنے کی مجھ کو ضرورت نہیں۔‘‘
یہ کہہ کر بے رحم بھیڑیے نے بے گناہ اور معصوم بکری کے بچے کو پھاڑ ڈالا۔
حاصل
ظالم جب ظلم کرنے پر آمادہ ہوتا ہے تو کوئی ثبوت اور کوئی عذر اس کے ہاتھوں سے پناہ نہیں دے سکتا۔
(’’منتخب الحکایات‘‘۔ نذیر احمد دہلوی)