ایک مہلک مرض جو مسلمانوں کے تمدن و تہذیب کو گھن کی طرح کھا گیا ہے اور کھائے جارہا ہے، ’’وراثت‘‘ کا مرض ہے۔ سب سے پہلے اس نے ہمارے نظامِ سیاست کو خراب کیا۔ اس کے بعد یہ گھاس تلے کے پانی کی طرح ہمارے نظم ملّت کے ہر شعبے کی جڑوں میں پھیلتا چلا گیا اور ہماری قوت کے جتنے مرکز تھے اِن سب کو اس نے فاسد کردیا۔ اسلام میں تو نبی کا بیٹا بھی وراثت میں نبوت نہیں پاتا، مگر یہاں وراثت کا قانون ایسا عالمگیر ہوا ہے کہ عالم کا بیٹا عالم ہے، مرشد کا بیٹا مرشد، قاضی کا بیٹا قاضی، امام کا بیٹا امام اور سپہ سالار کا بیٹا سپہ سالار۔ ہر شخص جس نے اپنے فضل و کمال سے جماعت میں اپنا ایک ممتاز مقام پیدا کیا، اُس کی ایک باقاعدہ مسند بن گئی اور اُس کے بعد اُس کے بیٹوں اور پوتوں کا اس مسند پر بیٹھنا لازمی ٹھیر گیا خواہ ان میں اہلیت ہو یا نہ ہو۔ وراثت کے اس غلط اور جاہلانہ طریقے نے اتنا زور پکڑا کہ جوہرِ کمال بے قیمت ہوگیا اور اکثر و بیشتر دینی و اجتماعی خدمات جن کی بجا آوری پر تمام ملّت کی صلاح و فلاح کا انحصار ہے، محض نسبی استحقاق کی بنا پر ناقابل لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئیں۔ علما کا اصلی کام علم حق کا پھیلانا تھا، مگر جب علم کے خانوادے بن گئے تو علماء حق کے بے علم جانشینوں نے جہالت کی تاریکی پھیلائی اور مسلمانوں کو گمراہ کردیا۔ مرشدوں کا اصلی منصب تزکیہ نفوس اور فضائلِ اخلاق کی اشاعت اور خلق اللہ کی ہدایت تھا، مگر جب مسندِ ارشاد ورثہ میں منتقل ہونے لگی تو ارشاد غائب ہوگیا اور اس مسند کے وارثوں کا کام صرف یہ رہ گیا کہ دست و پا کو بوسے دلوائیں، مریدوں اور معتقدوں اور زائروں سے نذرانے وصول کریں اور استخواں فروشی سے جو مال حاصل ہو اس کو فسق و فجور کی نذر کر دیں۔ قضاۃ اس لیے تھے کہ شریعت کی حدود قائم کریں، مگرجب منصبِ قضا مال و جائداد کی طرح باپوں سے بیٹوں کو ترکے میں ملنا شروع ہوا تو قاضیوں کا کام یہ ہوگیا کہ بزرگوں کی معاشوں سے دادِ عیش دیں اور اقامتِ حدود کے لیے سعی کرنا تو درکنار، خود اپنے کرتوں سے شریعت کی ایک ایک حد کو توڑ ڈالیں۔ یہی انجام دوسرے اہم مناصب کا بھی ہوا۔ مساجد کو مسلمانوں کی آبادیوں میں جو مرکزیت حاصل تھی وہ نالائق اماموں اور متولیوں کے ہاتھوں قریب قریب فنا ہوگئی۔ اوقافِ اسلامی جو کبھی خیرات و حسنات کے منابع تھے، اسی منحوس وراثت کی بدولت تباہ ہوگئے۔ اسلام کا عسکری نظام جس کی ہیبت وجبروت سے روئے زمین کانپ اٹھتی تھی، اسی وجہ سے غارت ہوا کہ امارت و قیادت کے اہم مناصب خاندانوں کی میراث بن گئے۔ غرض اسلامی تہذیب و تمدن کو اس چیز سے جتنے شدید نقصانات پہنچے اور پہنچ رہے ہیں ان کا حاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ جدھر نظر کی جاتی ہے دین، اخلاق اور معاملات کی اصلاح کے بڑے بڑے وسائل پر ایسے لوگ قابض پائے جاتے ہیں جو خود فساد کے سرچشمے اور مفاسد کے پشت پناہ بنے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں کوئی قدم آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک کہ اس سدِّراہ کو پوری قوت کے ساتھ اکھاڑ نہ پھینکا جائے۔
آخری دور کے بادشاہوں اور امراء و حکام نے کچھ تساہل، کچھ ناعاقبت اندیشی اور کچھ بے جا فیاضی کی بناء پر یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ علما، مشائخ، قضاۃ، ائمہ اور دوسرے اہلِ مناصب کے لیے جاگیریں اور معاشنیں مقرر کیں اور ان مناصب کو موروثی بنا دیا۔ اُس دور کے عام مسلمان بھی فقدانِ علم اور عدم تدبر کی وجہ سے اس غلطی میں مبتلا ہوئے اور اپنی عقیدتوں کو باکمال بزرگوں کے بعد ان کے بے کمال جانشینوں کی طرف منتقل کرتے چلے گئے۔ اس کے برے نتائج کو انہوں نے نہ سمجھا، یا سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ لیکن آج وہ نتائج بے نقاب ہوکر سامنے آگئے ہیں۔ اب اگر کوئی شخص شریعت یا رسم و رواج کی آڑ لے کر اس غلط قاعدے کی حمایت کرتا ہے تو اس کی عقل پر ہزار افسوس ہے۔ رواج کی آڑ تو مسلمان کی نگاہ میں سب سے زیادہ بے اصل اور بودی آڑ ہے۔ کوئی غلطی محض اس بنا پر برقرار رہنے کی مستحق نہیں ہوسکتی کہ اس کا ارتکاب سو دو سو یا ہزار برس پہلے کیا گیا تھا۔ رہی شریعت، تو اس کی نگاہ میں ہر چیز سے زیادہ اہم اور اقدم دین کی مصلحت اور امت کی بہتری ہے۔ اگر شرعی قانون کے مطابق کوئی فعل کیا گیا ہو اور بعد میں ثابت ہوجائے کہ وہ فعل مصلحتِ دینی کے خلاف اور جماعت کے لیے مضر تھا تو اس فعل کے جاری رکھنے کے لیے یہ کوئی محکم دلیل نہیں ہے کہ اصطلاحی حیثیت سے وہ فعل شرعی قانون کے مطابق کیا گیا تھا۔ خود شرعی قانون ہی اس کی اجازت دیتا ہے کہ ایسے فعل کو مٹا دیا جائے۔
(ترجمان القرآن، جلد نمبر 8، شمارہ نمبر1)
مُلاّئے حرم
عجب نہیں کہ خدا تک تری رسائی ہو
تری نگہ سے ہے پوشیدہ آدمی کا مقام
تری نماز میں باقی جلال ہے نہ جمال
تری اذاں میں نہیں ہے مری سحر کا پیام!
1۔ مُلاّ سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اگر خدا تک آپ کی رسائی ہے تو میرے لیے اس پر تعجب کی کوئی وجہ نہیں۔ ہوسکتا ہے یہ درست ہو، لیکن ایک حقیقت سے میں یقینی طور پر واقف ہوں اور وہ یہ ہے کہ حضرت! آپ کی نگاہوں سے انسان کا مرتبہ اور مقام پوشیدہ ہے۔
اس شعر کے پہلے مصرع میں خدا تک رسائی کے متعلق جو کچھ فرمایا گیا، وہ حقیقت میں طنز ہے۔ جس شخص کو آدمی کے مرتبے کا اندازہ نہیں وہ خدا تک کیا پہنچے گا؟ طنز کے طور پر فرماتے ہیں کہ مُلاّ اگر خدا تک پہنچنے کا دعویدار ہے تو اسے جھٹلانا بالکل فضول ہے، اس لیے کہ نتیجہ کچھ نہ نکلے گا۔ پھر کیوں ناں اس دعوے کو چھوڑ کر وہ حقیقت بیان کی جائے، جس سے مُلاّ یا کسی دوسرے شخص کو انکار کی جرأت نہ ہو؟
2۔ حضرت مُلاّ صاحب! آپ کی نماز جلال اور جمال دونوں جوہروں سے خالی ہوچکی ہے۔ یعنی نہ اس نماز میں شان و شوکت اور دبدبہ و ہیبت کا کوئی رنگ نظر آتا ہے، نہ اس میں حسن و خوبی ہے کہ اسے دیکھ کر لوگوں کے دل نماز کی طرف مائل ہوں۔ پھر ملا صاحب جو اذان دیتے ہیں، وہ بھی روح سے خالی ہوچکی ہے۔ اس میں کوئی ایسی بات نہیں کہ مسلمانوں کو اپنے زوال کی رات ختم اور عروج و ترقی کی صبح طلوع ہونے کا یقین پیدا ہو۔ اہلِ دل کی زبان سے صبح کے وقت اذان نکلے تو جو بھی سنے گا، اس میں خدا کے لیے ایک خاص ولولہ اور شیفتگی پیدا ہوجائے گی، لیکن ملا صاحب کی نماز کی طرح ان کی اذان بھی قطعاً کوئی جذبہ پیدا نہیں کرتی۔ ایسے دینی رہنما قوم کو کیونکر آگے لے جا سکتے ہیں؟
(’’مطالب کلام اقبال اردو‘‘…مولانا غلام رسول مہرؔ)