خارجی رہنما کی ضرورت ہر زمانے میں انسان نے تسلیم کی ہے، کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا گیا کہ انسان کے لیے محض اس کے اپنے باطنی رہنما کی ہدایت کافی ہے۔ آباو اجداد، خاندان اور قبیلے اور قوم کے بزرگ، اساتذہ، اہلِ علم، مذہبی پیشوا، سیاسی لیڈر، اجتماعی مصلحین اور اسی قوم کے دوسرے لوگوں کو جن کی دانش مندی پر بھروسا کیا جا سکتا تھا، ہمیشہ رہنمائی کا منصب دیا گیا ہے اور ان کی تقلید کی گئی ہے۔ لیکن جو چیز ایک رسول کو ان دوسری قسم کے رہنمائوں سے ممتاز کرتی ہے وہ ’علم‘ ہے۔ دوسرے رہنمائوں کے پاس علم نہیں ہے۔ وہ محض ظن و تخمین کی بنیاد پر رائے قائم کرتے ہیں اور اس رائے میں ہوائے نفس کے عناصر بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ اس لیے جو عقائد و قوانین وہ وضع کرتے ہیں، ان کے اندر حق اور باطل دونوں کی آمیزش ہوتی ہے۔ پورا پورا حق ان کے قائم کیے ہوئے طریقوں میں نہیں ہوتا۔ اسی حقیقت پر قرآن مجید بار بار متنبہ کرتا ہے:
(ترجمہ) ’’وہ جس چیز کی پیروی کرتے ہیں وہ بجز گمان اور خواہشاتِ نفس کے، اور کچھ نہیں ہے۔‘‘ (النجم، 23:53)
’’اور ان کے پاس حقیقت کا کوئی علم نہیں ہے۔ وہ صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں، اور گمان کا حال یہ ہے کہ وہ حق کی ضرورت کو کچھ بھی پورا نہیں کرتا۔‘‘ (النجم، 28:53)
’’مگر ظالموں نے اپنی خواہشاتِ نفس کی پیروی کی، بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی علم ہو۔‘‘ (الروم، 29:30)
’’اور لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جو تکبر کے ساتھ منہ موڑے ہوئے اللہ کے بارے میں بغیر کسی علم و ہدایت اور کتابِ منیر کے جھگڑتا ہے تاکہ اللہ کے راستے سے بھٹکا دے۔‘‘ (الحج، 9-8:22)
’’اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہوگا جس نے اللہ کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کے بجائے اپنی خواہش کا اتباع کیا۔‘‘ (القصص 50:28)
بخلاف اس کے رسول کو اللہ کی طرف سے ’علم‘ عطا کیا جاتا ہے۔ اس کی رہنمائی گمان اور ہوائے نفس کی بنا پر نہیں ہوتی بلکہ وہ خدا کے بخشے ہوئے نورِ علم سے جس سیدھے رستے کو صاف اور واضح دیکھتا ہے اسی کی طرف ہدایت کرتا ہے، چنانچہ قرآن مجید میں جہاں کہیں انبیاؑ کو ’رسالت‘ کے منصب پر سرفراز کرنے کا ذکر آتا ہے وہاں یہی کہا جاتا ہے کہ ان کو ’علم‘ بخشا گیا۔ مثلاً حضرت ابراہیمؑ سے نبوت کا اعلان اس طرح کرایا جاتا ہے:
(ترجمہ)’’اے پدرِ عزیز! یقین جان کہ میرے پاس وہ علم آیا ہے جو تیرے پاس نہیں آیا، لہٰذا تُو میری پیروی کر، میں تجھے سیدھے راستے پر چلائوں گا۔‘‘ (مریم43:19)
لوطؑ کو نبوت بخشنے کا ذکر اس طرح کیا جاتا ہے:
’’اور لوطؑ کو ہم نے قوتِ فیصلہ اور علم بخشا۔‘‘(الانبیا، 74:21)
حضرت موسیٰؑ کے متعلق ارشاد ہوتا ہے:
’’اور جب وہ اپنی پوری جوانی کو پہنچا اور پورا آدمی بن گیا تو ہم نے اسے قوتِ فیصلہ اور علم عطا کیا۔‘‘ (القصص، 14:28)
دائود و سلیمان علیہما السلام کے نبوت پر سرفراز ہونے کا ذکر بھی اسی طرح کیا جاتا ہے:
’’ان میں سے ہر ایک کو ہم نے حکم اور علم عطا کیا۔‘‘ (الانبیاء، 79:21)
نبی عربی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا جاتا ہے:
’’ اور اگر تم نے اس علم کے بعد جو تمہارے پاس آیا ہے ان کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ سے تم کو بچانے والا کوئی حامی و مددگار نہ ہو گا۔‘‘ (البقرہ 120:2)
منصب ِ رسالت اور عام رہنمائوں کے مقابلے میں رسولؐ کے امتیازی مقام کی توضیح کے بعد اب ہمیں ان اصولی امور کی طرف توجہ کرنی چاہیے جو رسالت کے بارے میں قرآن مجید نے پیش کیے ہیں۔
[اسلامی تہذیب اوراس کے اصول و مبادی، اکتوبر 2002، ص 163-160]
……٭٭٭……
حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی خواہش اس دین کے تابع نہ ہوجائے جسے میں لے کر آیا ہوں۔
(شرح السنۃ، کتاب الحجۃ، نووی، اربعین نووی)
دنیا کے اندر جتنے ادیان ہیں ان کی دو ہی قسمیں ہیں: باطل ادیان، یعنی دینِ ھویٰ (خواہش نفسِ کے دین)اور دینِ حق ایک ہے اور وہ ہے دینِ ھدیٰ، دینِ حق، دینِ اسلام ۔ آدمی اسی وقت مومن ہوگا جب اپنی خواہشِ نفس کو دینِ حق کے مقابلے میں چھوڑ دے گا اور اسی وقت مسلمان شمار ہوگا جب باطل نظام کو دینِ حق کے مقابلے میں چھوڑ دے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں جو رہنمائی فرمائی ہے وہ ہمیشہ کے لیے ہے لیکن آج کے دور میں اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ آج عالمِ اسلام اس ہدایت کا محتاج ہے۔ اس ہدایت پر عمل ہو تو اسلامی انقلاب برپا ہوجائے گا۔ دنیا میں اسلامی تحریک اس ارشاد کی تعمیل میں سرگرمِ عمل ہے۔ اس گروہ کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری اُمت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا، ان کے مخالف ان کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکیں گے‘‘۔