مغرب کا تصورِ’انسان‘ تضاد کی دو انتہاؤں پر ہے۔ ایک جانب مغرب کا یہ انسان کیڑے مکوڑے کی سی دماغی کارکردگی کا حامل ہے، بندروں کی جینیاتی برادری کا حصہ ہے، معاشرتی حیوان ہے، معاشی جانور ہے، سیاسی لومڑی ہے، ایک ایسا ارتقائی وجود ہے جوفطری انتخاب کا حادثاتی یا اتفاقی نتیجہ ہے۔ دوسری جانب یہی انسان مختارِ بے مہار ہے۔ آزاد پیدا ہوا ہے، کائنات کے سائنسی حقائق کا دریافت کنندہ ہے، مصنوعی ذہانت کا موجد ہے، سپرمین ہے، سپر ہیومن ہے، کسی بالاتر قوت کے تابع نہیں، جواب دہ نہیں، اور بڑے بڑے حقوق اور اختیارات کا دعوے دارہے۔ تضاد کی یہ دونوں صورتیں آج بھی پیکرِ خاکی میں متصادم ہیں۔ ان کی کوئی روح نہیں، محض کیمیائی اور حیاتیاتی تعامل کا مرکب ہیں۔ تضاد کی یہ انتہائیں سائنٹزم کے تصورِ’انسان‘ میں سمجھی جاسکتی ہیں، ان کا جائزہ لبرل اقدارکے تناظرمیں بھی لیا جاسکتا ہے۔
یہ سائنٹزم کیا ہے؟ جدید مغرب کا مذہب ہے: سائنس پر اُس کی اہلیت سے بہت زیادہ یقین کرنا، سائنس کے تجربات، نظریات اورکلیات کو حتمی سمجھنا، سائنسی نتائج کی سچائی پر ایمان لے اینا۔ مذاہب کے معروف عالم پروفیسر ہسٹن اسمتھ کتاب Why Religion Matters کے باب Scientism: The Bedrock of the Modern World View میں سائنٹزم کی تعریف یوں کرتے ہیں: ’’یہاں ہرشے کا انحصار تعریفوں پر ہے… اس لیے سائنس اور سائنٹزم کی اصطلاحات کا فرق نظروں میں رہنا چاہیے۔ سائنس وہ ہے جس نے جدید ٹیکنالوجی کی معیت میں دنیا کو بدل دیا۔ جدید سائنس وہ ہے جس نے عہدِ جدید کو روایتی معاشروں اور تہذیبوں سے ممتاز کردیا۔ اس کا مواد فطری دنیا کے دریافت شدہ حقائق پر مشتمل ہے۔ مگر سائنٹزم سائنس میں دو چیزوں کا اضافہ کرتا ہے، ایک یہ کہ سائنسی طریقہ سچائی تک پہنچنے کا واحد راستہ ہے، دوسرا سائنس جن مادوں کے تجربات کرتی ہے یا کرسکتی ہے، بنیادی طور پر بس وہی وجود رکھتے ہیں۔ سائنس میں سائنٹزم کے یہ دونوں رویّے من مانے ہیں، انہیں حقائق کی حمایت حاصل نہیں۔ یہ محض بہت اچھے فلسفیانہ قیاسات اور بہت بے وزن خیالات ہیں۔‘‘
سائنٹزم کا انسان کون ہے؟ یروشلم یونیورسٹی میں بائیولوجیکل ہسٹری کے پروفیسر یوول ہراری مشہورکتاب Sapiens میں سائنٹزم کے تصورِ ’انسان‘ کا ارتقائی نقشہ یوں کھینچتے ہیں: ’’تقریباً 3.8 ارب سال قبل ایک سیارہ جسے زمین کہا گیا، یہاں مالیکیولز مجتمع ہوئے اور ایک بہت بڑا پیچیدہ حیاتیاتی نظام تشکیل دیا، اسے Biology نام دیا گیا۔ تقریباً ستر ہزار برس پہلے، وہ زندہ اجسام جن کا تعلق انسانوں کی انواع سے تھا، معاشرتی سانچوں میں تشکیل پانے لگے، انہیں ثقافتیں کہا گیا۔ اس کے بعد ہونے والی پیش رفت تاریخ کہلائی۔ ماقبل تاریخ انسان کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ غیراہم (قابلِ ذکر شے نہ) تھا، ایسا حقیر جانور جس کا اپنے ماحول پرکوئی اثر نہ تھا، اس کی حیثیت گوریلوں، جیلی فش، یا بھنوروں سے زیادہ نہ تھی۔ ہم پسند کریں یا نہ کریں، ہمارا تعلق ایک بہت بڑے شور مچاتے بندروں کے خاندان سے ہے۔ ہمارے زندہ رشتے داروں میں چمپینزی، گوریلے اور ارنگٹن شامل ہیں۔ سب سے قریبی چمپینزی ہیں۔ ساٹھ لاکھ سال پہلے ایک بندریا کی دو بیٹیاں تھیں، جن میں سے ایک چمپینزی نسل کی پرنانی ہے، جبکہ دوسری ہم انسانوں کی پرنانی ہے۔ اس طرح ’انسان‘ کا اصل معنی ایک ایسا جانور ہے جس کا تعلق homo genusسے ہے۔ درحقیقت ہم نہیں جانتے کہ کب اور کہاں Homo sapiens اپنی ابتدائی حالت سے باقاعدہ انسان کی صورت میں ڈھلا؟ اکثر سائنس دان قیاس کرتے ہیں کہ ایسا ڈیڑھ لاکھ سال پہلے ہوا ہوگا۔ انسان کے سوچنے اور گفتگوکرنے کی ابتدا ستّر سے تیس ہزار سال قبل کسی موقع پر ہوئی۔ اس کا سبب کیا تھا؟ ہم یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے! جس کلیے کو قبولِ عام حاصل ہے، اُس کے مطابق انسانی دماغ کی وائرنگ کے جینز میں حادثاتی تغیرات پیدا ہوئے۔ داستانیں، دیومالائی کہانیاں، خدا، اور مذاہب اسی Cognitive Revolution عہد میں پہلی بار سامنے آئے‘‘۔ پروفیسر ہراری نے آگے چل کر زرعی انقلاب اور پھر سائنسی انقلاب میں انسان کے ارتقا کو کمال پردکھایا ہے۔ سائنٹزم کا یہ ’انسان‘ برطانوی ماہرِ فلکیات اسٹیفن ہاکنگ کی نظر میں ایک ایسا ترقی یافتہ جانور ہے، جو ایک طرف حشرات الارض کی سی استعداد کا حامل ہے، جسے اس کا اپنا بنایا ہوا مصنوعی ذہانت AI کا نظام تباہ و برباد کرسکتا ہے، اور دوسری جانب یہ انسان خلا میں نئی کالونیاں تلاش کرسکتا ہے (برطانوی استعماری سوچ یہاں بھی حرکت میں ہے)، تیس سال میں چاند کو بیس بناکر پچاس سال تک مریخ پرپہنچ سکتا ہے۔ سائنٹزم کی خصوصیت ہے کہ may may have might اور not sure کے بکثرت استعمال کے باوجود سائنسی نتائج پر نہ صرف اندھا ایمان لاتا ہے بلکہ باقی دنیا سے بھی یہی مطالبہ کرتا ہے۔ جبکہ خالقِ کائنات کے وجود پر سادہ سی منطق بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں (کائنات کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا نظام اور واقعہ اتفاق اور حادثے کا نتیجہ نہیں… کائنات کی تخلیق کس طرح اتفاقی حادثہ ہوسکتی ہے؟)
سائنٹزم کے عقیدت مند اور لبرلز نے اس تضاد (بہ یک وقت بندر اور سپرمین) کا یہ حل نکالا کہ ’فطرت کے چنیدہ انسان‘ کو مغرب کی خلعت پہنادی، جبکہ کیڑے مکوڑے نما انسان ’مشرق میں محصور‘ کردیے۔ جب چاہا مشرق میں انسان کی تذلیل کردی، جب چاہا مغرب میں تکریم کردی۔ یوں دنیا انسان کے لیے عدم مساوات کی دوزخ بن گئی۔ یہی موجودہ عالمی نظام ہے۔ اسے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم حملوں سے شام پر کیمیائی اور ڈپلیٹیڈ یورینیم بمباری تک مغرب کے ’انسان‘ کی دونوں انتہائوں ’وحشی پن‘ اور’ایٹمی طاقت‘‘ میں واضح طورپر دیکھا جاسکتا ہے۔
اسلام کا انسان کون ہے؟ خالق سے ہی رہنمائی حاصل کرتے ہیں:
’’انسان پر لامتناہی زمانے کا ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا‘‘۔(سورہ دہر، آیت نمبر1)
’’اے انسان کس چیز نے تجھے اپنے اس ربِّ کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا، جس نے تجھے پیدا کیا، تجھے نک سک سے درست کیا، تجھے متناسب بنایا، اور جس صورت میں چاہا تجھے جوڑ کر تیار کیا؟‘‘ (سورہ الانفطار6۔8)
’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا، جس میں توازن و تناسب حسین ترین مقام تک پہنچ گیا۔‘‘ (سورہ التین، آیت 4)
’’اس نے انسان کی تخلیق کی ابتدا گارے سے کی، پھر اس کی نسل ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح کا ہے۔ پھر اس کو نک سک سے درست کیا اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی، اور تم کو کان دیے، آنکھیں دیں۔‘‘ (السجدہ، آیت 7۔9)
’’ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی، اور انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں، اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا، اور مخلوقات پر نمایاں فضیلت بخشی۔‘‘ (سورہ بنی اسرائیل، آیت 70)
’’یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کررہا تھا تو اس نے کہا ’’بیٹا خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔ حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے‘‘۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھاکر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔ میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجالا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔ لیکن وہ اگر تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ تُو کسی ایسے کو شریک کرے جسے تُو نہیں جانتا تو اُن کی بات ہرگز نہ مان۔ دنیا میں اُن کے ساتھ نیک برتاؤ کر مگر پیروی اُس شخص کے راستے کی کر جس نے میری طرف رجوع کیا ہے۔ پھر تم سب کو پلٹنا میری ہی طرف ہے، اُس وقت میں تمہیں بتادوں گا کہ تم کیسے عمل کرتے رہے ہو۔ لقمان نے کہا تھا کہ ’’بیٹا کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر بھی ہو اور کسی چٹان میں یا آسمانوں یا زمین میں کہیں چھپی ہوئی ہو، اللہ اسے نکال لائے گا۔ وہ باریک بیں اور باخبر ہے۔ بیٹا نماز قائم کر، نیکی کا حکم دے، بدی سے منع کر، اور جو مصیبت بھی پڑے اس پرصبر کر۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔ اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر، نہ زمین میں اکڑکر چل۔ اللہ کسی خودپسند اور فخر جتانے والے کو پسند نہیں کرتا۔ اپنی چال میں اعتدال اختیار کر، اور اپنی آواز ذرا پست رکھ، سب آوازوں سے زیادہ بری آواز گدھوں کی ہوتی ہے۔‘‘ (سورہ لقمان)
مغرب اور اسلام کے دونوں ’انسان‘ آمنے سامنے آگئے… اب سائنٹزم اور لبرل مغرب جس کا انسان خود کو جانور سمجھتا ہے، حقیر اور درندہ صفت ہے، وحشت و دہشت کی پستیوں میں گرچکا ہے، جو ایسا مثالی نمونہ (Model) پیش کرتا ہے جو جنسِ بازار ہے، جسے بندر کی طرح نچایا جارہا ہے، بچہ جمہورا بنایا جارہا ہے، بے شمار حقارتوں سے گزارا جارہا ہے۔ مغرب کا یہ ’انسان‘ کس طرح اشرف انسان کو قبول کرسکتا ہے؟ جو نہ صرف حشرات الارض اور جانوروں سے اعلیٰ و ارفع ہے، بلکہ فرشتوں اور جنّات پر مقدم ہے۔ جس کی تخلیق احسنِ تقویم پر ہوئی ہے، جس کی درجہ بندی اعمالِ صالح پر ہے، نہ کہ فطری چناؤ اور اعلیٰ نسل و نسب پر۔ جو اعتدال پر ہے، متوازن ہے۔ یہی وہ واحد تصورِ انسان ہے جو عالمی مساوات کا ضامن ہے۔ یہ انسان ہی عالمگیر تہذیب کا وارث ہے۔ مگر یہ ’انسان‘ کہاں ہے؟ اکثر مسلمان اس ’انسان‘ کا مثالی نمونہ پیش نہیں کررہے۔ چنانچہ مغرب نے اسلام کا یہ تصورِ ’انسان‘ تسلیم نہیں کیا۔ حال کے مسلمانوں نے مغرب کے اس مؤقف کو بھرپور تقویت پہنچائی ہے۔ مسلمان کردار کا عام بحران مغرب کے لیے پروپیگنڈا ایندھن بن گیا۔ ایک ایسا ایندھن، جسے اسلام کے تصورِ ’انسان‘ کے خلاف استعمال کیا جاسکے۔ جسے بہترین انسان ’محسنِ انسانیتؐ‘ کے خلاف ہتھیار بنایا جاسکے۔ جسے شانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے لیے جواز بنایا جاسکے۔
مگر مقام ِمحمد صلی اللہ علیہ وسلم وہاں ہے جہاں جبریل علیہ السلام کے بھی پَر جلتے ہیں۔ مقام ِمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں انبیا صف بہ صف ہوئے، وہ مقام جسے سدرۃ المنتہیٰ تک باریابی عطا ہوئی، وہ مقام جسے مقامِ محمود فرمایا گیا۔
مغرب بخوبی سمجھتا ہے کہ جب تک مقامِ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کم نہ ہوگا، جب تک شانِ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) میں کمی نہ آئے گی، جب تک محسنِ انسانیت (صلی اللہ علیہ وسلم) کا بہترین نمونہ مثال بنا رہے گا، اور جب تک یہ تصورِ ’انسان‘ زندہ رہے گا، تب تک مغرب کا ’انسان‘ عالمگیر نہیں ہوسکتا۔
یہی وجہ ہے کہ پورے مغرب کی ساری دولت، ساری طاقت توہینِ رسالت محمدیؐ پر لگادی گئی ہے۔ جو توہینِ رسالت کا مرتکب ہے، وہ مغرب کا ہیرو (سلمان رشدی) ہے۔ یہاں تک کہ اگر وہ توہینِ رسالت کا محض ملزم یا ملزمہ (آسیہ) بھی ہے، وہ مغربی پروپیگنڈے کے لیے ایسا موقع ہے جسے کسی صورت ضائع نہیں کیا جاسکتا۔ مگر سادہ سی بات مغرب نہیں سمجھ سکا، کہ خواہ محبوب ہوں یا ملعون، شانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ انسانوں کا اختیار ہی نہیں۔ یہ معاملہ ربِّ کائنات کا ہے، اور اس کا فیصلہ یہ ہے کہ ’’(اے پیغمبرؐ) ہم نے تمہیں تمام جہان والوں کے حق میں رحمت بنا کر بھیجا ہے‘‘ (سورہ الانبیاء: 107)۔ ’’بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو تم بھی ان پر درود اور سلام بھیجو‘‘ (سورہ الاحزاب: 56)۔ ’’بے شک ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمائی ہے۔ پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔ بے شک آپ کا دشمن ہی بے نام و نشان ہے۔‘‘ (سورہ الکوثر: 1۔3)