تحریک ِ انصَاف حکومت کے 100دن

حکومت کے پہلے سو دن مکمل ہوئے۔ اپوزیشن ان سو دنوں کے بارے میں حکومت کی ناکامیوں پر ایک وائٹ پیپر شائع کرنے کا اعلان کرچکی ہے، لیکن یہ کام شاید وہ نہ کرسکے۔ وجہ یہ ہے کہ آج کی سب سے بڑی حقیقت سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حکومت، عدلیہ اور عسکری قوت کسی بھی قسم کے ابہام کے بغیر ایک صفحے پر ہیں، اور تینوں یکسو ہیںکہ حکومت کے ہر فیصلے کا ہدف ملکی سلامتی ہی ہونا چاہیے۔ تحریک لبیک کے خلاف کارروائی بھی مشترکہ سوچ کا نتیجہ ہے، اور یہ یقین کرلیا گیا ہے کہ تحریک لبیک ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے، لہٰذا اس سے متعلق فیصلہ جہاں بھی ہو، عمل حکومت کرے گی، اور اس کی ذمہ داری بھی قبول بھی کرے گی۔ عمران خان کی حکومت کے بارے میں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) اور دیگر اپوزیشن جماعتیں جو بھی مؤقف اختیار کریں یہ اُن کا سیاسی اور جمہوری حق ہے، لیکن سول اور عسکری ادارے ایک جگہ کھڑے ہیں اور ان میں کوئی نفاق نہیں ہے۔ اور عمران خان کی حکومت کو یہ صورتِ حال اعتماد فراہم کررہی ہے۔
اگر حکومت کے لیے مشکلات اور چیلنجز کا جائزہ لیا جائے تو آسیہ کیس کے فیصلے سے پہلے، حکومت کے سامنے صرف اور صرف معیشت کی بحالی کا چیلنج تھا، لیکن آسیہ کیس کا فیصلہ حکومت کے لیے ایک نیا دبائو ہے، جس کے اثرات ملک میں دیکھے جاسکتے ہیں اور بیرونی ممالک بھی اس کا جائزہ لے رہے ہیں۔ پاکستان میں کوشش یہ ہورہی ہے کہ بیرونی دنیا اس معاملے کو پاکستان میں ٹیسٹ کیس نہ بنائے اور حکومت کو یہ بات ثابت کرنے کا موقع دیا جائے کہ پاکستان میں ہر شہری قانون کے مطابق زندگی گزارنے کا حق رکھتا ہے، آسیہ کیس اس وقت صرف حکومت کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے پاکستانی معاشرے کے لیے ایک امتحان کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ پارلیمنٹ کو منتخب جمہوری ادارے کی حیثیت سے ایک مضبوط کردار ادا کرنے کے لیے خود کو تیار کرنا چاہیے اور وہ امریکہ اور یورپ کو باور کرائے کہ پاکستان میں توہینِ رسالت پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا، ٹھوس دلیل کے ساتھ یہ بات کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ یورپی ممالک پاکستان میں ایسے کیسز میں ملوث افراد کے لیے سیاسی پناہ کے دروازے کیوں کھولتے ہیں؟
میلادالنبیؐ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے عندیہ دیا کہ وہ اقوام عالم کے ساتھ ایک ایسے سمجھوتے پر بات چیت کے لیے تیار ہیں کہ توہینِ رسالت کسی بھی معاشرے کے لیے قابلِ قبول نہ ہوسکے۔اس مقصد کے لیے احمد بلال صوفی کو انہوں نے اپنا معاون خصوصی بھی بنایا ہے۔ اب وہ بیرونی ممالک کی حکومتوں اور تھنک ٹینکس سے رابطے کریں گے۔
اب جہاں تک ملکی معیشت کی بحالی کے لیے حکومت کے اقدامات کا سوال ہے تو حکومت کی کوشش اپنی جگہ، مگر پرنالہ وہیں پر گررہا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے پہلے تین ماہ کے دوران 7 کھرب کا قرض لیا ہے، نگران حکومت بھی تین ماہ میں 13 کھرب کا قرض ورثے میں چھوڑ کر گئی تھی۔ یوں گزشتہ چھ ماہ میں پاکستان کی حکومت 19 کھرب کا قرض لے چکی ہے، حالیہ تین ماہ میں لیے جانے والے قرض کی تفصیلات یہ ہیں کہ رواں مالی سال کے پہلے تین ماہ جولائی تا ستمبر کے دوران بجٹ خسارہ 5 کھرب 41 ارب 67کروڑ رہا۔ یہ خسارہ جی ڈی پی کا 1.4فیصد ہے ۔ رواں مالی سال کے پہلے تین ماہ جولائی تا ستمبر 11 کھرب 2 ارب روپے کُل محاصل جمع ہوئے، ان میں 9کھرب 75 ارب 20 کروڑ روپے ٹیکس ریونیو ملا جس میں ایک کھرب26 ارب 89 کروڑ روپے نان ٹیکس ریونیو الگ سے ہے، یوں وفاقی ٹیکس ریونیو 8 کھرب 86 ارب 58 کروڑ روپے ملا۔ صوبائی ٹیکس ریونیو میں 88 ارب 62کروڑ روپے جمع کیے گئے۔ جولائی تا ستمبر مجموعی اخراجات 16 کھرب 43 ارب 77 کروڑ روپے ہوئے۔ قرض پر سود کی مد میں 5 کھرب7 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی۔ پہلے تین ماہ میں 7 کھرب 38 ارب 42 کروڑ روپے کا قرضہ لیا گیا ہے۔ بیرونی قرضہ 2 کھرب 10 ارب 77 کروڑ روپے لیا گیا۔ مقامی طور پر 5 کھرب 27 ارب 65کروڑ روپے کا قرضہ لیا گیا۔ مجموعی بیرونی قرضہ 3 کھرب 81 ارب 31 کروڑ 50 لاکھ روپے کا لیا گیا، ایک کھرب 70 ارب 54 کروڑ 50 لاکھ روپے کا قرضہ واپس کیا گیا۔ حکومت جسے معاشی مشکلات کا سامنا ہے، سیاسی محاذ پر بھی سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔
نوازشریف کے آخری مرحلے میں ہیں، امکان یہی ہے کہ وہ ایک بار پھر سزا پائیں گے۔ ان کے دوبارہ جیل جانے کی صورت میں مسلم لیگ(ن) کی قیادت کس کے ہاتھ میں ہوگی یہ ابھی طے نہیں ہوا۔ شہبازشریف نیب کو بھگت رہے ہیں، نوازشریف بھی جیل چلے جاتے ہیں تو مسلم لیگ(ن) کی قیادت تلخ اور شیریں مزاج کے حامل شاہد خاقان عباسی کے سپرد ہوسکتی ہے۔ کیا وہ حکومت کے خلاف کوئی بڑا محاذ کھول پائیں گے؟ کچھ ایسی ہی صورتِ حال نے پیپلزپارٹی کو گھیر رکھا ہے۔ آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے بعد بلاول بھٹو کو بھی نوٹس بھجوائے جارہے ہیں۔ پارلیمنٹ کی ان دو بڑی جماعتوں کے خلاف محاذ کھول کر تحریک انصاف حکومت خود کیسے پھولوں کی سیج پر بیٹھ سکے گی؟ لیکن حیران کن حد تک وزیراعظم عمران خان کے لہجے میں شدت آتی جارہی ہے، اور اپوزیشن بھی انہیں ٹارگٹ بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی کا نام چونکہ پاناما لیکس میں نہیں ہے اس لیے وہ حکومت کے خلاف محاذ آرائی کے معاملے میں ایک حد میں رہنا چاہتی ہے۔ اب جب کہ حکومت اپنے پہلے سو دن مکمل کرچکی ہے تو اسے یہ احساس ہوچکا ہے کہ اپوزیشن کرنا آسان اور حکومت میں آکر ملک چلانا ایک مشکل کام ہے، تحریک انصاف کے اندر سے ایک ہلکی سی آواز یہ بھی اٹھی ہے کہ اس کے پاس حکومت ہے اقتدار نہیں، اگر کسی موقع پر پارٹی نے یہ محسوس کرلیا کہ اسے وہ طاقت حاصل ہونی چاہیے جو حکومت کو حاصل ہوتی ہے تو پھر تحریک انصاف بھی دوسری سیاسی نے واضح کیا کہ ملک کو دو دہائیوں میں کئی قسم کے خطرات کا سامنا کرنا پڑا، تاہم ان خطرات پر مؤثر انداز میں قابو پایا جاتا رہا ہے، مگر اب ایک بار پھر بعض عناصر کی جانب سے مذہبی، فرقہ وارانہ، لسانی اور سماجی بغاوت برپا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کے ذہنوں کو منفی پروپیگنڈے سے بچانے کے لیے اقدامات ناگزیر ہیں، اور ان حالات کے سبب ہماری ذمہ داریاں پہلے سے کہیں زیادہ ہیں، صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ عوام اور خاص طور پر نوجوانوں کو اس جارحانہ پروپیگنڈے کے پس پردہ کارفرما ناپاک عزائم سے آگاہ کیا جائے جس کے ذریعے مذہبی، فرقہ وارانہ اور لسانی منافرت کو فروغ دے کر ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ پاکستانی قوم اور افواج نے بڑی بہادری اور کامیابی سے ان چیلنجز کا مقابلہ کیا ہے، اب ہمیں آگے بڑھنا اور تیزی سے ترقی کرنی ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ خطاب اس لحاظ سے بھی خصوصی توجہ کا مستحق ہے کہ انہوں نے اس عزم کا پھر اعادہ کیا ہے کہ قوم اور مسلح افواج نے بے بہا قربانیوں کے بعد جو پُرامن ماحول فراہم کیا ہے اس کو ہر قیمت پر بحال رکھا جائے گا تاکہ قوم اپنی پوری توجہ دیگر مسائل کے حل اور ملکی معیشت میں استحکام لانے پر مرکوز کرسکے۔ بلاشبہ منافرت پر مبنی منفی پروپیگنڈے کا مسکت جواب دیا جانا وقت کی ناگزیر ضرورت ہے، اس حوالے سے حکومت کی میڈیا سے بہت توقعات ہیں کہ وہ نوجوان نسل کی رہنمائی کے لیے بڑا کردار ادا کرے۔ جس میڈیا سے حکومت بڑے کردار کی توقع کررہی ہے اسے مالی وسائل کا شکار بناکر اسی شاخ کو کاٹا بھی جارہا ہے۔ اپوزیشن گلہ کررہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان سعودی عرب کے بعد چین میں یہ بات دہرا چکے ہیں کہ ملک میں کرپشن بہت زیادہ ہے اور ان کی حکومت احتساب کررہی ہے۔ اب یہی بات ملائشیا میں پھر دہرائی ہے کہ کرپٹ لوگوں کو جیلوں میں جانا ہے اور حکومت اُن سے کوئی رعایت اور سمجھوتا نہیں کرے گی، وزیراعظم عمران خان کا مؤقف اپنی جگہ، حکومت کو یہ بھی دیکھنا ہے کہ ملک میں وسائل کی کمی کیوں ہے؟ عوام ملک میں اچھی گورننس سے کیوں محروم رہ جاتے ہیں؟ بیرونِ ملک دوروں میں خطابات سے سے عمران خان کے پختہ سیاسی وژن کی عکاسی نہیں ہوتی۔ ایک بات بالکل واضح ہوجانی چاہیے کہ حکومت خود کیوں شور مچا رہی ہے اور کرپٹ لوگوں کے خلاف کارروائی میں کون سا امر مانع ہے؟ مرکز، پنجاب، کے پی کے میں تحریک انصاف خود حکومت میں ہے، بلو چستان میں اسے اتحادی میسر ہیں، سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ وفاقی حکومت یہ واضح کرے کہ سندھ حکومت اسے کہاں تعاون فراہم نہیں کررہی؟ ایک جانب تو بری گورننس کا رونا رویا جارہا ہے، دوسری جانب پنجاب میں آئے روز وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدارکی انتظامی کمزوریاں سامنے آرہی ہیں۔ ان کے اپنے آبائی ضلع میں ان کے خلاف پروٹوکول کے معاملے پر عوام نے راستہ روک کر نعرے بازی کی ہے۔ وزیر داخلہ شہریار آفریدی نے صرف راولپنڈی کے تھانوں میں چھاپے مارے ہیں کہ یہ شہر ان کے سسرالیوں کا ہے۔ راولپنڈی میں میر بادشاہ خان آفریدی مرحوم ایم پی اے رہے ہیں اور وزیر داخلہ کی اس خاندان سے عزیزداری ہے، اسی لیے وزیر مملکت سے پوچھا جانے والا یہ سوال بہت جائز ہے کہ راولپنڈی کے تھانوں میں چھاپوں کا ہدف کیا تھا؟ وزیراعظم عمران خان نے آج تک اپنے وزیر مملکت سے نہیں پوچھا۔ میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو والی پالیسی ماضی میں بری گورننس دے کر گئی، اور اب بھی اس کا نتیجہ مختلف نہیں نکلے گا۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ حکومت ماضی کا رونا رونے سے گریز کرے اور ملک میں معاشی ترقی کے لیے اپنے منصوبے پارلیمنٹ کے سامنے رکھے۔ وزیراعظم عمران خان چین گئے تو وہاں چینی حکام سے بجٹ خسارہ کم کرنے کے لیے قرض پر گفتگو ہوئی، لیکن چین نے جواب دیا کہ حکومت کوئی ایسے منصوبے لائے جس میں چین سرمایہ کاری کرے۔ چین کے سوال پر وزراء ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے اور یہ لمحہ اس دورے کا تکلیف دہ لمحہ تھا۔ چینی حکومت نے ہی وفد کو تجویز کیا کہ پاکستان چین کی گوشت اور چاول کی ضرورت پوری کرے۔ تجارتی عمل سے قرض لیے بغیر پاکستان کے زرمبادلہ میں خودبخود اضافہ ہوجائے گا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار گزشتہ ہفتے لندن گئے، جہاں وہ اپنے صاحب زادے نجم الثاقب کی گریجویشن تقریب میں شریک ہوئے، برطانوی پارلیمنٹ کی کارروائی بھی دیکھی۔ برطانیہ کے دورے میں انہیں تحریک انصاف کے ہائوسنگ منصوبے کے عہدیدار انیل مسرت اور جہانگیر صاحب زادہ نے عشائیہ دیا اور تحریک انصاف کے عہدیداروں نے ائرپورٹ پر استقبال بھی کیا۔ ایک نجی دورے کو تحریک انصاف کے ان عہدیداروں نے کیوں سیاسی رنگ دیا؟ وزیراعظم عمران خان کیا پارلیمنٹ کو اس معاملے میں جواب دہ ہوں گے؟