بھارت کے سابق کرکٹر اور ریاستی وزیر نوجوت سنگھ سدھو کے بقول عمران خاں نے تین ماہ قبل جو بیج بویا تھا اس سے امید اور نئی صبح کا پودا نکل آیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بدھ کے روز کرتارپور راہداری کا سنگِ بنیاد رکھ دیا۔ اس راہداری کے لیے پاکستان اور بھارت کی سرحد سے چار کلومیٹر سے زائد طویل سڑک تعمیر کی جائے گی اور دریائے راوی پر پل بھی بنایا جائے گا۔ اس منصوبے کو چھے ماہ میں مکمل کرنے کا ہدف طے کیا گیا ہے، جس کے بعد بھارت سے سکھ یاتری بغیر ویزا کے دونوں ملکوں کی سرحد پر دستیاب ایک پرمٹ کے ذریعے پاکستان میں داخل ہوکر اپنی پانچ سو سال پرانی عبادت گاہ گوردوارہ کرتار پور صاحب تک براہِ راست آ جا سکیں گے۔ بات آگے بڑھانے سے پیشتر پاکستانی حکام اور حکمرانوں کی توجہ کے لیے اگر آغاز ہی میں یہ تجویز پیش کردی جائے تو شاید نامناسب نہ ہوگا کہ کرتارپور راہداری کے ذریعے آنے جانے والے یاتریوں کے لیے اگر داخلے کے وقت سو ڈالر فی کس راہداری فیس عائد کردی جائے، اور اس کے ساتھ ہی اس علاقے میں خرید و فروخت پاکستانی یا بھارتی روپے کے بجائے ڈالر میں کرنے کی پابندی لگا دی جائے تو اس سے یاتریوں پر تو کوئی بوجھ نہیں پڑے گا البتہ پاکستان کے لیے سالانہ کروڑوں ڈالر کے زرمبادلہ کے حصول کا ذریعہ ضرور نکل آئے گا جو پاکستانی معیشت کو زبوں حالی سے نکالنے کا سبب اور راہداری کے انتظام و انصرام پر اٹھنے والے اخراجات پورے کرنے میں ممدومعاون ہوگا۔
نارووال اور شکر گڑھ کے درمیان نالہ بئیں کے کنارے اور دریائے راوی سے چار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع پاک بھارت سرحد پر سفید رنگ کی ایک خوبصورت عمارت واقع ہے جو مغلیہ طرزِ تعمیر کا شاہکار ہے۔ اس کی بلندی 50 فٹ سے زیادہ ہے، اوپر سنہری رنگ کے جاذب نظر اور دلکش کلس دور سے ہی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیتے ہیں۔ اس عمارت کی 3 منزلیں ہیں۔ گنبدوں اور محرابوں سے بنی ہوئی یہ شاندار اور پانچ سو سال قدیم عمارت دراصل سکھ مذہب کا گوردوارہ ہے اور یہاں سکھ مذہب کے بانی گرونانک کی قبر اور مڑھی (آخری آرام گاہ) ہے، اس کے ساتھ ایک قدیم کنواں اور پچاس ایکڑ سے زائد زرعی اراضی ہے جو گوردوارہ کے نام وقف ہے، جب کہ یہاں یاتریوں کے لیے لنگرخانہ، گیسٹ ہاؤسز، سیکورٹی آفس اور گیانی کی رہائش گاہ ہے، جب کہ گوردوارہ کے باہر ریسٹورنٹس اور دکانیں بنی ہوئی ہیں۔ یہ عمارت جسے گوردوارہ کرتار پور صاحب کہتے ہیں، دراصل سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی عقیدت و محبت کا مرکز و محور ہے۔ سکھ مذہب کے بانی گرونانک نے اپنی زندگی کے آخری 18 برس یہیں نارووال کے قریب دریائے راوی کے کنارے آباد کرتار پور نامی گاؤں میں بسر کیے۔ یہاں وہ اپنی گزربسر کے لیے کھیتی باڑی کرتے تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر یقین رکھتے تھے اور ایک اللہ ہی کی عبادت کرتے تھے، اور لوگوں کو سچائی کی طرف بلاتے تھے۔ وہ خود کو پیغمبر یا اوتار قرار نہیں دیتے تھے، بلکہ گرو یعنی استاد کہلاتے تھے۔ روایات کے مطابق وہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی گہری عقیدت کا اظہار کرتے تھے اور انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام نامی اسم گرامی محمدؐ کو بھی دنیا کا سب سے پیارا نام قرار دیا۔ ان کی تعلیمات میں حقوق العباد اور اخلاقیات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
گرونانک صاحب کا انتقال اسی گاؤں میں 70 برس کی عمر میں 22 ستمبر 1539ء کو ہوا۔ ان کے پیروکاروں اور محبت کرنے والوں میں چونکہ سکھوں کے علاوہ مسلمان بھی شامل تھے چنانچہ گرونانک کے انتقال پر دونوں میں تنازع کھڑا ہوگیا۔ روایات کے مطابق مسلمان انہیں جنازہ پڑھا کر دفن کرنا چاہتے تھے، جب کہ سکھ انہیں نذرِ آتش کرکے ان کی راکھ کرتارپور میں دبانا چاہتے تھے۔ چنانچہ اس وقت کرتارپور میں ان کی ایک قبر بھی موجود ہے، جب کہ اس قبر سے 20 فٹ دور ان کی ’’مڑھی‘‘ بنائی گئی ہے۔ اس وقت سرحد کے دوسری جانب بھارتی پنجاب میں ایک چبوترہ بنا ہوا ہے جسے گرو درشن یا درشن پوائنٹ کہا جاتا ہے۔ بھارت میں سکھ مذہب کے پیروکار جو پاکستان نہیں آسکتے، وہ اس چبوترے پر کھڑے ہوکر گوردوارہ کرتا پور کا درشن یا دیدار کرتے ہیں۔
پاکستان میں جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے بعد جب عمران خان نے بطور وزیراعظم حلف اٹھایا تو مدعو کیے جانے کے باوجود بھارت سے کسی اور قابلِ ذکر شخصیت نے تو اس تقریب میں شرکت نہیں کی، البتہ سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے ایک سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو جو آج کل ریاستی وزیر بھی ہیں، عمران خان کی تقریبِ حلف برداری میں ذاتی حیثیت میں شریک ہوئے۔ اس موقع پر پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے انہیں گلے سے لگایا اور نہایت فراخ دلی سے پیشکش کی کہ پاکستان بھارتی سکھ برادری کو اُن کے مقدس مقام گوردوارہ کرتارپور تک آسان رسائی فراہم کرنے اور سرحد سے کرتارپور تک راہداری کھولنے پر تیار ہے۔ یہ بلاشبہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی سکھ برادری خصوصاً بھارتی سکھوں کے لیے بہت بڑی خوش خبری تھی، چنانچہ اس کا دنیا کے ہر گوشے میں آباد سکھ برادری نے زبردست خیرمقدم کیا، تاہم بھارتی حکومت اور ذرائع ابلاغ نے حسبِ روایت اپنی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پیشکش کا مثبت جواب دینے کے بجائے نوجوت سنگھ سدھو کو پاکستانی فوج کے سربراہ سے گلے ملنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ تاہم بھارتی حکومت پوری دنیا کے سکھوں کے شدید دباؤ کے سامنے زیادہ دیر ٹھیر نہ سکی اور آخرکار اپنی جانب سے بھی سکھوں کو کرتارپور تک آمدورفت کی سہولت دینے پر آمادگی ظاہر کردی۔
پاکستان کی جانب سے بھارت کو کرتارپورتک بغیر ویزا آسان رسائی فراہم کرنا یقیناًخیرسگالی کا اظہار ہے، تاہم یہ بات بھی فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ یہ سو فیصد یک طرفہ خیرسگالی ہے۔ پاکستان کی جانب سے اتنی بڑی پیشکش اور اب 28 نومبر کو وزیراعظم عمران خان کی طرف سے راہداری کا سنگِ بنیاد رکھے جانے کے عملی اقدام کے باوجود بھارت نے پاکستان کے بارے میں اپنا معاندانہ طرزِعمل تبدیل نہیں کیا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی ریاستی دہشت گردی مسلسل جاری ہے اور کشمیری مسلمانوں خصوصاً نوجوانوں کو آزادی کے حق میں نعرے لگانے پر ظلم و جبر کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور ان پر اندھا دھند فائرنگ کی جاتی ہے، ان کے گھر نذرِ آتش کیے جا رہے ہیں اور خواتین کی بے حرمتی معمول بن چکی ہے۔ خیرسگالی کے ان تین دنوں میں 18 نوجوانوں کو شہید، جب کہ درجنوں کو زخمی کردیا گیا ہے۔ کشمیر میں سیز فائر لائن پر آئے روز جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستانی دیہات پر گولہ باری کی جاتی ہے، جس سے پاکستان کا بھاری جانی و مالی نقصان ہوچکا ہے۔ جنوبی ایشیا کی علاقائی تنظیم ’سارک‘ کا اجلاس گزشتہ دو سال سے محض اس وجہ سے نہیں ہورہا کہ اسے شیڈول کے مطابق اسلام آباد میں منعقد ہونا ہے اور بھارتی قیادت اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان آنے سے انکاری ہے۔ اب کرتارپور کی راہداری کھولنے کے موقع پر بھی بھارت نے منفی طرزِعمل ترک نہیں کیا۔ پاکستانی وزیراعظم کی جانب سے راہداری کا سنگِ بنیاد رکھنے کی اس تقریب میں شرکت کی دعوت پہلے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مسترد کی، پھر وزیر خارجہ سشما سوراج نے بھی اس تقریب میں شرکت سے انکار کردیا، جب کہ بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ امریندر سنگھ نے تو دعوت قبول نہ کرتے ہوئے تمام سفارتی آداب اور اخلاقی حدود و قیود پامال کردیں اور پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے بے سروپا الزامات کی بوچھاڑ کردی۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے خلاف دباؤ بڑھانے کے لیے ممبئی حملوں کے دس سال مکمل ہونے پر اپنے آقا امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے یہ بیان دلوایا کہ پاکستان ممبئی حملوں کے ذمہ داروں کے خلاف سلامتی کونسل کی پابندیوں پر عمل درآمد کرے۔ پاکستان سے مطالبات در مطالبات کرنے والے کفریہ اتحاد کے سربراہ امریکہ بہادر کو دوسری جانب نہ تو آئے روز پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیاں دکھائی دیتی ہیں، نہ کلبھوشن یادیو اور اُس جیسے دوسرے بھارتی تخریب کاروں کی سرگرمیاں نظر آتی ہیں، اور نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں طویل عرصے سے جاری بھارتی فوج کے مظالم اور وہاں کے عوام کو حقِ خودارادیت دلانے کے لیے منظور کردہ اقوام متحدہ کی قراردادیں یاد آتی ہیں۔ ان حالات میں سوال یہ ہے کہ بھارت اور اُس کے سرپرستوں کے جارحانہ، معاندانہ اور منافقانہ رویّے کے باوجود پاکستان کی جانب سے خیرسگالی کا یہ یک طرفہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا اور آخر اس کا جواز کیا ہے۔۔۔؟؟؟