اکتوبر2001ء میں صدر بش نے دنیا کی سب سے مضبوط فوج کو غریب ترین ملک افغانستان فتح کرنے کے لیے بھیجا تھا، جس نے پورے ملک کو ملبے کا ڈھیر بنادیا۔ جناب بش کا تعلق ری پبلکن پارٹی سے ہے، اور اب 17 سال بعد اسی ری پبلکن پارٹی کے ایک اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیل کانٹے سے لیس مسلح افواج کو میکسیکو کی سرحد پر خانہ جنگی، کرپشن، بے روزگاری اور بھوک سے پریشان ہوکر امن و خوشحالی کی تلاش میں امریکہ کا رخ کرنے والے نہتے بلکہ بھوکے اور ننگے ہسپانویوں کو روکنے کے لیے تعینات کردیا۔
ان بدحالوں کا تعلق وسطی امریکہ(Central America)سے ہے۔ بلیز (Belize)، کوسٹاریکا، السلواڈور، گوئٹے مالا، ہنڈوراس، پیرو اور پاناما پر مشتمل پٹی وسطی امریکہ کہلاتی ہے جو نام کی مناسبت سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ (USA) اور جنوبی یا لاطینی امریکہ کے درمیان واقع ہے۔ یہ خطہ مغرب سے بحرالکاہل (Pacific Sea) اور مشرق میں بحرکیریبین (Caribbean Sea) سے گھرا ہوا ہے۔ کیریبین کو برصغیر کے جغرافیہ دان غرب الہند کہا کرتے تھے۔ اس علاقے کی زیرزمین ارضیاتی ساخت کچھ اس طرح ہے کہ یہاں زلزلے کے جھٹکے بہت عام ہیں اور کبھی کبھار یہ ارتعاش خوفناک بھونچال کی شکل بھی اختیار کرلیتا ہے۔ وسطی امریکہ کا مجموعی رقبہ سوا پانچ لاکھ مربع میل ہے، جہاں 4 کروڑ 75 لاکھ نفوس آباد ہیں۔ ایک کروڑ 66 لاکھ آبادی والا ملک گوئٹے مالا وسطی امریکہ کا سب سے بڑا لیکن علاقے کا غریب ترین ملک ہے۔ اس خطہِ ارض کا سب سے خوشحال ملک Belize ہے جو آبادی کے اعتبار سے سب سے چھوٹا یعنی ساڑھے3 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ خطے کا واحد ملک ہے جہاں سرکاری زبان ہسپانوی کے بجائے انگریزی ہے۔ معلوم نہیں یہ خوشحالی قلتِ آبادی کا اعجاز ہے کہ انگریزی کا کمال۔
وسطی امریکہ کے96 فیصد لوگ عیسائی ہیں جن کی اکثریت کیتھولک فرقے سے تعلق رکھتی ہے۔ اب ان علاقوں میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے، بلکہ وسطی امریکہ کے مسلم مبلغین اشاعتِ اسلام کے لیے امریکہ کا دورہ بھی کرتے ہیں۔ امریکہ کے ہسپانوی مسلمانوں نے “Islam in Spanish”کے نام سے ایک بہت بڑا اشاعتی ادارہ قائم کررکھا ہے جہاں رسائل و کتب کے علاوہ دستاویزی فلمیں اور دلچسپ CDs بھی تیار کی جاتی ہیں۔
زلزلوں اور طوفانوں کے ساتھ سیاسی افراتفری، کرپشن، جرائم پیشہ مافیا، بے روزگاری اور مہنگائی نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ جسم فروشی ایک نفع بخش کاروبار ہے اور والدین گھر کا چولہا گرم رکھنے کے لیے اپنی نوخیز بچیوں کو چند ڈالروں کے عوض بردہ فروشوں کے حوالے کردیتے ہیں۔ اگر یہ کام برضا ورغبت نہ ہو تو ظالموں کے پاس جبر کا راستہ بھی موجود ہے کہ سرزمینِ بے آئین میں سب کچھ ممکن ہے۔
دنیا کے دوسرے علاقوں کی طرح وسطی امریکہ کے لوگ بھی خوشی اور خوشحالی کے لیے امریکہ جانے کے خواہش مند ہیں، اور یہاں سے اس ’جنتِ ارضی‘ کی مسافت بھی کچھ زیادہ نہیں۔ وسطی امریکہ کے ممالک اور میکسیکو کے درمیان سفر کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں اور لوگ بآسانی ایک ملک سے دوسرے ملک جاسکتے ہیں۔ امریکی ریاستیں ٹیکساس، نیو میکسیکو، ایریزونا اور کیلی فورنیا کی سرحدیں میکسیکو سے جڑی ہوئی ہیں۔ امریکہ و میکسیکو سرحد کی مجموعی لمبائی 1954میل ہے، اور روزانہ سینکڑوں افراد اپنے شیرخوار بچوں کے ساتھ سرحد عبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پیدل سڑک پار کرنے کے علاوہ مال و اسباب کے کنٹینروں میں چھپ کر، پیٹرول کے ٹینکروں میں بنے خفیہ خانوں، چارہ اور مویشی ڈھونے والی گاڑیوں میں سمٹ کر بھی سرحد عبور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان کوششوں میں درجنوں افراد اذیت ناک موت کا شکار ہوتے ہیں۔ لیکن بچوں کی اچھی زندگی کے لیے یہ بدحال لوگ اپنی جانوں کو دائو پر لگانے کو تیار ہیں۔ زمینی راستوں کے ساتھ خلیج میکسیکو سے ٹیکساس اور بحرالکاہل سے کیلی فورنیا تک رسائی دستیاب ہے، چنانچہ لانچوں کے ذریعے بھی خوابوں کی سرزمین کا سفر کیا جاتا ہے، اور بہت سے بلند حوصلہ دلاور اس شوق میں غرقابی کا خطرہ بھی مول لینے کو تیار ہیں۔
کچھ ماہ پہلے کوسٹاریکا سے ستائے ہوئے لوگوں کا ایک قافلہ امریکہ جانے کے لیے میکسیکو کی طرف روانہ ہوا۔ عورتوں اور بچوں سمیت یہ سینکڑوں لوگ پیدل چل رہے تھے۔ اس قافلے میں نکاراگوا، ہنڈوراس، السلواڈور اور گوئٹے مالا کے لوگ بھی شامل ہوگئے اور میکسیکو پہنچتے پہنچتے ان کی تعداد چھے ہزار سے زیادہ ہوگئی۔ ان میں سے اکثر لوگ ننگے پیر ہیں اور راستے کے ندی نالوں کو عبور کرتے اور پیدل چلتے اکثر لوگوں کے پیروں میں چھالے پڑگئے اور بوسیدہ کپڑے چیتھڑا بن چکے ہیں۔ کئی جگہ علاقے کے خدا ترس لوگوں نے ان کے لیے کھانے کا انتظام کیا اور انھیں پہننے کو کپڑے دیئے گئے۔ امریکہ کی طرف بڑھتے اس ہجوم میں نوزائیدہ بچوں سے لے کر 60 سال کے لوگ شامل ہیں۔ کئی ہزار میل پیدل سفر کی وجہ سے کمزور صحت کے ضعیف لوگ ابتدا ہی میں قافلے سے جدا ہوگئے اور صدر ٹرمپ کے الفاظ میں یہ قافلہ مضبوط و مسٹنڈے لوگوں پر مشتمل ہے۔
یہ لوگ گیت گاتے اچھی زندگی کے خواب سجائے امریکہ کی جانب گامزن ہیں، جو سابق امریکی صدر فورڈ کے الفاظ میں مواقع اور امکانات کی سرزمین (Land of Opportunities)ہے۔ کئی ہزار میل پیدل چل کر اب یہ لوگ میکسیکو اور امریکہ کی سرحد پر پہنچ چکے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ انھیں امریکہ میں سیاسی پناہ دے دی جائے۔
رنگ دار غیر ملکی تارکینِ وطن کے نام سے الرجک صدر ٹرمپ اس تصور ہی سے آگ بگولا ہیں۔ وہ ایک عرصے سے اہلِ قافلہ کے بارے میں آگ اگل رہے ہیں۔ وسط مدتی انتخابی مہم کے دوران پناہ گزینوں کا قافلہ ان کا ہدف رہا۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ کو ان پناہ گزینوں کی طرف سے حملے اور جارحیت کا سامنا ہے جس سے ملک کی سلامتی خطرے میں پڑگئی ہے۔ انھوں نے میکسیکو کی حکومت سے کہا کہ وہ ان لوگو ں کو امریکہ کی سرحد عبور کرنے سے روکے۔ لیکن میکسیکو کی حکومت نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ غیر ملکیوں کو باہر جانے کے لیے اپنی سرحد عبور کرنے سے منع نہیں کرسکتی۔
ایک ماہ پہلے انھوں نے امیگریشن پولیس اور سرحدی رینجرز کے ساتھ مسلح افواج کے 800 سپاہیوں کو سرحدوں کی نگرانی کے لیے بھیج دیا۔ کوچ کے حکم میں سخن گسترانہ بات یہ آن پڑی کہ عام حالات میں امریکی فوج شہری معاملات کو نمٹانے کا اختیار نہیں رکھتی، یعنی وہ سرحدوں پر باڑھ لگا سکتی ہے، چوکی قائم کرسکتی ہے، لیکن غیر قانونی تارکین وطن کو گرفتار کرنا اس کے دائرۂ اختیار سے باہر ہے۔ امریکی فوج کسی ملکی یا غیر ملکی شہری المعروف بلڈی سویلین (Bloody Civilian)کو گرفتار کرنے کا اختیار نہیں رکھتی اِلاّ یہ کہ ہنگامی حالات نافذ کرکے شہری حکومت کے کچھ اختیارات فوج کو تفویض کردیئے جائیں۔
ٹیکساس کی سرحد پر تعینات ہونے والے دستے کے کمانڈر نے بہت صاف صاف کہا کہ سرحد عبور کرنے والے غیر مسلح افراد کو گرفتار کرنا یا پیچھے دھکیلنا امیگریشن پولیس کا کام ہے۔ وہاں آنے والے وزیردفاع جنرل (ریٹائرڈ) جیمز میٹس کو بھی فوجی کمانڈروں نے یہی بتایا کہ آئین کے تحت امریکی فوج غیر مسلح پناہ گزینوں کے خلاف طاقت استعمال نہیں کرسکتی۔ ہاں اگر مسلح افراد نے سرحد عبور کرنے کی کوشش کی تو امریکی سپاہی اپنا فرض ادا کریں گے۔
گزشتہ ہفتے امریکی فوج کے کمانڈر انچیف ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی حکم کے ذریعے امریکی مسلح افواج کو ان نہتے پناہ گزینوں کے خلاف ہلاکت خیز قوت یا Lethal Force استعمال کرنے کا اختیار بلکہ حکم دے دیا۔ امریکی صدر نے اس غیر انسانی رویّے کے حق میں عذرِ لنگ یہ تراشا کہ پناہ گزینوں کے قافلوں میں سینکڑوں دہشت گرد اور جرائم پیشہ افراد بھی شامل ہیں جس کی وجہ سے امریکہ کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
اتوار 25 نومبر کی دوپہر 500 پناہ گزینوں کا ہراول دستہ کیلی فورنیا کے سرحدی شہر سان ڈیاگو (San Diego) اور میکسیکو کے شہر Tijuanaکے مقام پر سرحدی باڑھ تک پہنچ گیا۔ امریکہ اور ہنڈوراس کے پرچم اٹھائے یہ لوگ جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی، قومی ترانے اور یک جہتی کے گیت گارہے تھے۔ باڑھ کے دوسری طرف مسلح امریکی سپاہیوں کی طرف ہاتھ ہلاتے ہوئے ان لوگوں نے نعرے لگائے کہ ہم نہ دہشت گرد ہیں اور نہ مجرم۔ ہم تو رزقِ حلال کمانے والے محنت کش ہیں۔ ہمیں امریکہ آنے دو، ہم اس ملک کو اپنی محنت سے گل و گلزار بنادیں گے۔ نغموں، گیتوں اور نعرون کے دوران کچھ لوگوں نے آہنی باڑھ کو کاٹ کر اندر داخل ہونے کی کوشش کی، جس پر امیگریشن پولیس نے خواتین اور بچوں کی طرف آنسو گیس کے گولے پھینکے۔ ایک اطلاع کے مطابق ربر کی گولیاں بھی استعمال کی گئیں۔ تاہم پولیس نے اس کی تردید کی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ایک دومقامات پر آہنی باڑھ میں سوراخ کرکے کچھ پناہ گزین اندر گھس آئے اور وہاں موجود پولیس کے سپاہیوں سے ہاتھا پائی کی، چنانچہ اپنی حفاظت کے لیے ایجنٹوں نے آنسو گیس کا استعمال کیا۔ بھگدڑ میں کچھ بچے کچلے گئے، لیکن کسی جانی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں۔ ابھی تک امریکہ کی امیگریشن پولیس نے کسی گرفتاری کی تصدیق نہیں کی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پناہ گزینوں کی امریکہ میں داخلے کی کوشش ناکام بنادی گئی۔
اس جسارت پر صدر ٹرمپ سخت برہم ہیں اور ان کے حکم پر میکسیکو اور امریکہ کی سرحد مکمل طور پر بند کردی گئی ہے، یعنی اب آدمی اور اسباب دونوں کی نقل و حرکت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اپنے مخصوص متکبرانہ لہجے میں انھوں نے کہا ’’سڑک سے آئو یا فضا سے، اب تم امریکہ میں داخل ہی نہیں ہوسکتے، کہ ہم نے سرحد کو بالکل بند کردیا ہے‘‘۔ امریکہ و میکسیکو کے راستے ایک ارب 68 کروڑ ڈالر یومیہ کی تجارت ہوتی ہے۔ اس پابندی سے میکسیکو بری طرح متاثر ہوگا جہاں سے شراب، سبزی، پھل، کاروں کے پرزہ جات اور گاڑیاں امریکہ درآمد کی جاتی ہیں۔ امریکہ میکسیکن مصنوعات کی سب سے بڑی منڈی ہے، اور پیٹ پر پڑنے والی لات خاصی مؤثر ثابت ہورہی ہے۔ میکسیکو کی وزارتِ داخلہ نے اپنے ایک اعلامیے میں کہا ہے کہ سرحد عبور کرنے کی کوشش کرنے والے تمام کے تمام 500 افراد کو گرفتار کرکے واپس ہنڈوراس بھیجنے کے انتظامات کیے جارہے ہیں۔ یعنی ان بیچاروں کی مہینوں کی مشقت بے سود ثابت ہوئی۔
نیویارک کے ساحل پر ایک عظیم الشان مجسمہ آزادی نصب ہے جسے امریکی، آزادی اور حریتِ فکر و نظر کی علامت سمجھتے ہیں۔ یہ مجسمہ فرانس نے تحفے کے طور پر دیا تھا۔ یہ دراصل رومن دیوی Libertyکی شبیہ ہے۔ چمکتے ہوئے تانبے سے ڈھالی اس دیوی کے فضا میں بلند سیدھے ہاتھ میں لوگوں کو راستہ دکھانے کے لیے مشعل روشن ہے۔ دیوی جی نے بائیں ہاتھ میں ایک کتبہ اٹھا رکھا ہے جس پر 4 جولائی 1776ء کندہ ہے جس دن امریکیوں نے اعلانِِ آزادی پر دستخط کیے تھے۔ لبرٹی دیوی کے قدموں میں ٹوٹی ہوئی زنجیریں ہیں جو غلامی کے خاتمے کی علامت ہیں۔
اسی مجسمے پر امریکی شاعرہ اور دانشور ایما لزارس (Emma Lazarus)کے یہ الفاظ بھی ثبت ہیں:
’’اے اقوام عالم! مجھے اپنے خراب حال دے دو۔ آزادی کی سانس کے لیے ترستے، ڈرے، سہمے، رنجیدہ و غمگین، بے گھر، ٹھکرائے و چوٹ کھائے اور مسترد کیے گئے لو گ یہاں آجائیں۔ دیکھو میں نے (تمہاری رہنمائی کے لیے آزادی کے) سنہرے دروازے پر مشعل روشن کردی ہے‘‘۔
ایما لزارس کے یہ الفاظ امریکی ریاست کاکلیدی بیانیہ ہے۔ غریب ہسپانویوں کو شاید یہ نہیں معلوم کہ زمینی حقائق تبدیل ہوچکے ہیں اور امریکہ کے بانیوں نے سرحد پر جو مشعلِِ آزادی روشن کی تھی، وہ اب روشنی کے بجائے غریب حالوں پر آنسو گیس کے گولے اور گولیاں اگلتی ہے۔