اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اِن دنوں پاکستان اور امریکہ کے درمیان شدید بداعتمادی موجود ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں دہشت گردی کی جنگ میںپاکستان کے کردار کے حوالے سے جو منفی باتیں کیں اُس سے پہلے سے موجود بداعتمادی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے لہجے میں جہاں تلخی اور تنقید تھی، وہیں اُن میں تکبر بھی نظر آیا۔ بنیادی طور پر امریکی صدر پاکستان کے دہشت گردی کے خاتمے کے کردار کو منفی انداز میں پیش کررہے ہیں۔ وہ اس جنگ اور کردار کو ڈالر کی سیاست سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں، جو یقینی طور پر ردعمل کی سیاست کو جنم دینے کا سبب بنا ہے۔امریکہ کا یہ طرزعمل نیا نہیں۔ ہمیشہ سے پاکستان پر دبائو رکھنا اور ڈومور کی پالیسی اُس کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ رہی ہے۔ امریکہ کے سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ میں سے ایک فریق اگر پاکستان کے کردار کو منفی انداز میں پیش کرتا ہے تو دوسرا فریق اس غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے پاکستان کے کردار کو بڑی اہمیت دیتا، اور کامیابی کے طور پر پیش کرتا ہے۔ تنقید اور تعریف کا یہ کھیل پہلے بھی موجود تھا اور اب بھی کئی سطحوں پر اس کی شکلیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اسی طرح ہمیں امریکہ کی سیاست اور اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو بھی مختلف انداز میں دیکھنا چاہیے، اور ضروری نہیں کہ جو کچھ امریکہ کا صدر کہہ رہا ہو وہی امریکی اسٹیبلشمنٹ کی بھی پالیسی ہو۔وزیراعظم عمران خان کا امریکی صدر کے خیالات پر جو ردعمل آیا وہ بھی خاصا سخت ہے۔ ان کے بقول امریکی صدر اپنا ریکارڈ درست کریں۔ پاکستان نے دہشت گردی کی اس جنگ میں اب تک 75000جانیں دی ہیں اور ہمارا 16482ارب روپے کانقصان ہوا ہے۔ اس لیے امریکہ کو سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کی اس جنگ میں ہم نے بھاری قیمت ادا کی ہے۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ امریکی صدر کے بیانات پاکستان کے زخموں پر نمک چھڑکنے اور اپنی ناکامیوں پر ہمیں عملاً قربانی کا بکرا بنانے کے مترادف ہیں۔ اس مسئلے پر حزبِ اختلاف کی جماعتیں بھی داخلی سیاست سے جڑے اپنے مسائل کو پس پشت ڈال کر حکومت کی حمایت میں کھڑی ہوگئیں۔
بنیادی طور پر امریکہ کو افغانستان کے تناظر میں جاری جنگ میں ایک بڑی ناکامی کا سامنا ہے۔ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کی تمام تر سیاسی، انتظامی اور طاقت کے استعمال کی حکمت عملی کے باوجود مطلوبہ نتائج نہیں مل سکے۔ امریکہ افغانستان میں اس بڑی ناکامی کو پاکستان کے ساتھ جوڑ کر دیکھتا ہے۔ پاکستان کے چین پر بڑھتے ہوئے انحصار اور سی پیک جیسے منصوبے پر بھی امریکہ کو تشویش ہے، اور وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان ایک متبادل حکمت عملی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ حالیہ وسط مدتی انتخابات میں بھی ٹرمپ کی جماعت کو خاصی مشکلات اور شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان منفی بیانات کی وجہ صدر ٹرمپ کی داخلی سیاست کی ناکامی بھی ہے۔ امریکہ ابھی تک افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان سمجھوتے کا کوئی راستہ نہیں نکال سکا۔ پاکستان پر ایک بڑا دبائو افغان طالبان کو راضی کرنے کا تھا۔ لیکن امریکہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ افغان طالبان پر ہمارا کنٹرول ایک حد تک ہے، وہ ہماری کٹھ پتلی نہیں۔ ماضی میں پاکستان کو باہر نکال کر امریکہ نے افغان حل کی جانب جو پیش رفت کی وہ بھی ناکامی سے دوچار ہوئی۔
امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کے پاس پاکستان کے اس دعوے کا کوئی جواب نہیں کہ جو کردار پاکستان نے ادا کیا اس کی مثال کسی اور ملک سے نہیں دی جاسکتی۔ اصولی طور پر تو پاکستان کی مکمل حمایت کرنی چاہیے تھی اور اس کے ساتھ دہشت گردی کی جنگ میں کھڑا ہونا چاہیے تھا۔ لیکن پاکستان کے کردار پر شکوک و شبہات، الزام تراشیوں اور ڈالر کھا جانے کے الزامات سے اعتماد کا ماحول کبھی پیدا نہیں ہوسکے گا۔ پاکستان نے دہشت گردی سے نمٹنے کے سلسلے میں جب بھی امریکہ سے بھارت کے رویّے اور طرزِعمل کی شکایات سمیت کچھ دستاویزی ثبوت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے حوالے سے پیش کیے تو اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہمیں افغانستان کے حوالے سے بھی رہا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کا سارا دبائو پاکستان پر ہے، اور بھارت سمیت افغانستان پر وہ ہمارے مفادات سے زیادہ بھارت کے مفادات کو تقویت دیتا ہے۔
امریکہ اس بات کو بھی سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ پاکستان میں پہلے سے امریکہ مخالف جذبات موجود ہیں۔ ہم اگر امریکہ کے اتحادی بنے ہیں تو اس پر داخلی سطح پر ہمیں خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں جب امریکہ ہم پر لفظوں کی گولہ باری کرتا ہے تو پہلے سے موجود امریکہ مخالف فریقین کے اس مطالبے کو مزید طاقت ملتی ہے کہ ہمیں امریکہ سے جان چھڑانی چاہیے۔ بدقسمتی سے امریکی صدر نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر ملکوں کے تناظر میں سفارتی آداب اور سفارتی لب و لہجے کو بھی بھول جاتے ہیں۔ ان کے بہت سے بیانات پہلے سے موجود تلخیوں میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ یہ بات بجا کہ بہت سے معاملات پر امریکہ کے تحفظات میں جان بھی ہوتی ہوگی، مگر ان مسائل سے نمٹنے کی حکمت عملی میں فہم و فراست کم اور غصے یا نفرت کا پہلو زیادہ ہے۔
امریکہ کو یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے۔ ریاست میں غیر ریاستی عناصر کا کنٹرول بھی موجود ہے۔ بھارت اور افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا پاکستان مخالف گٹھ جوڑ بھی ہمیں غیر مستحکم کررہا ہے۔ ایسے میں امریکہ کی جانب سے دہشت گردوں کے مقابلے میں خود پاکستان کی ریاست، حکومت یا اداروں کو شک کی نگاہ سے دیکھنا عملی طور پر انتہا پسند اور دہشت گرد عناصر کو طاقت فراہم کرتا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بجا فرمایا کہ ہماری پالیسی امریکہ سے ٹکرائو یا الجھنے کی نہیں، بلکہ ہم مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کے بقول جو ردعمل وزیراعظم عمران خان نے دیا ہے وہ ریکارڈ کی درستی سے جڑا ہوا سوال ہے اور اسے اسی تناظر میں دیکھا جائے۔ وزیراعظم کے جوابی بیان نے یقینی طور پر امریکہ میں بھی تشویش پیدا کی اور انہیں ضرورت محسوس ہوئی کہ پاکستان کے سخت ردعمل کو ٹھنڈا کرنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ پینٹاگون اور امریکی اسٹیبلشمنٹ نے دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کی قربانیوں سمیت دیگر اقدامات کو سراہا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ سمجھتا ہے کہ پاکستان اس کی ضرورت ہے اور وہ اِس وقت اسے کسی بھی طور پر تنہا نہیں کرنا چاہتا۔
ایک عمومی تصور یہ ہے کہ اِس وقت پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت میں خاصی ہم آہنگی موجود ہے۔ اس وقت داخلی اور خارجی محاذ پر ہمیں جو چیلنجز درپیش ہیں ان کا مقابلہ مشترکہ حکمت عملی اور ایک فکر کے ساتھ ہی کیا جاسکتا ہے۔ ماضی میں سیاسی اور فوجی خیال کی تقسیم یا ٹکرائو نے ہمیں نقصان اور ہمارے دشمنوں کو فائدہ پہنچایا ہے۔ اچھی بات ہوگی کہ حالیہ بحران پر وزیراعظم امریکہ کی پالیسی اور حالیہ دبائو کی سیاست پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر اس اہم ادارے کو اعتماد میں لیں اور دوٹوک مؤقف اختیار کیا جائے۔ یہ مؤقف جذبات اور جنگی جنون سے زیادہ تدبر پر مبنی ہونا چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے مجموعی کردار کو اجاگر کرنے کے لیے سفارتی محاذ پر ایک بڑی جنگ کی تیاری کریں جو عالمی برادری میں ہمارے مقدمہ اور قربانیوں کو مثبت انداز میں اجاگر کرسکے۔ کیونکہ ہمارا مسئلہ بنیادی طور پر سفارت کاری اور ڈپلومیسی کے محاذ پر ناکامی کا بھی ہے۔ ہمیں جس جرأت اور بہتر و مؤثر حکمت عملی کے ساتھ سفارت کاری کے محاذ پر جنگ لڑنی چاہیے تھی اس میں ہم مسلسل ناکام ہیں۔ ایک مسئلہ سول ملٹری تعلقات میں بہتری پیدا کرکے آگے بڑھنے کا ہے۔ ماضی کی حکومت کے مقابلے میں اِس وقت صورت حال قدرے بہتر ہے اور حکومت اور فوج ایک صفحے پر نظر آتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ ہم ایک آواز ہوکر داخلی اور خارجی محاذ پر اپنا مقدمہ لڑیں۔کیونکہ بعض اوقات ہماری اپنی داخلی کمزوریاں دوسروں کی طاقت بن جاتی ہیں اور ہمیں اس کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔
اسی طرح پاکستان کو امریکہ کے مقابلے میں ایک متبادل حکمت عملی پر بھی سوچ بچار کرنی چاہیے۔ کیونکہ ایک ملک پر حد سے زیادہ انحصار ہمیں زیادہ مشکلات میں ڈالتا ہے۔ اصل مسئلہ داخلی سیاسی اور معاشی استحکام کا ہے۔ اس پر اگر ہم مؤثر حکمت عملی اور عمل درآمد کے نظام کو بہتر بناسکے تو خارجی دبائو سے نمٹنا کچھ آسان ہوسکتا ہے۔کیونکہ اس وقت پاکستان واقعی کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا کررہا ہے اور اس کی کوشش ہے کہ داخلی اور خارجی سطح پر جو مسائل ہیں اُن سے فوری طور پر نمٹ کر بہتری کی طرف پیش قدمی کرسکے۔ لیکن اس کے لیے اسے اپنی داخلی اور خارجی پالیسیوں کو نئے سرے سے دیکھنا ہوگا اور خود بھی سمجھنا ہوگا کہ اس کی اپنی غلطیاں کیا ہیں اورکیسے ان کو درست کیا جاسکتا ہے۔کیونکہ اپنی داخلی کمزوریوں سے نکلے بغیر ہم خارجی مسائل سے بھی بہتر طور پر نمٹ نہیں سکیں گے۔