ناروے کے سابق وزیراعظم کجیل میگنے بانڈویک نے سری نگر اور دہلی کے بعد اسلام آباد اور مظفرآباد کا دورہ کیا۔ دہلی اور اسلام آباد میں انہوں نے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں۔ اسلام آباد میں ان کی ملاقات وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ہوئی۔ دہلی میں ہونے والی ملاقات البتہ خفیہ رہی، شاید کسی سیاسی مصلحت کے باعث بھارتی حکام نے اس معاملے میں احتیاط برتنے کو ہی ترجیح دی۔ مظفر آباد اور سری نگر میں انہوں نے زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ افراد سے ملاقاتیں کیں۔ نارویجین لیڈر نے سری نگر میں اچانک سید علی گیلانی کی رہائش گاہ کا دورہ کیا جہاں انہوں نے مشترکہ مزاحمتی قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق اور یاسین ملک سے مشترکہ ملاقات کی۔ بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق اس ملاقات کے لیے سہولت کاری کا کام بھارتی ہندو مذہبی راہنما روی شنکر کی ’’آرٹ آف لیونگ‘‘ نامی تنظیم نے کیا تھا۔ نارویجین لیڈر نے کشمیری مزاحمت کی سیاسی قیادت کو اپنی کشمیر آمد کے دومقاصد بیان کیے:
(1) کشمیر کی زمینی صورتِ حال کا جائز ہ لینا۔
(2) کشمیری قیادت کے خیالات جاننا۔
میر واعظ عمر فاروق نے ملاقات کے بعد کہا کہ انہیں یہ اندازہ تو نہیں کہ اس دورے کا نتیجہ کیا برآمد ہوگا، مگر یہ امید ضرور ہے کہ یہ دورہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر پر بامعنی بات چیت کا آغاز ثابت ہوگا۔
نارویجین لیڈر کا دورۂ سری نگر کرتار پورہ سرحد کھولنے کے اعلان کے دوسرے روز ہوا۔ نارویجین لیڈر کے دورۂ کشمیر اور سری نگر میں مزاحمتی قیادت کے ساتھ ملاقات میں بھارتی حکومت کی رضامندی ہونا لازمی امر ہے۔ بھارت کی اجازت کے بغیر وہ نہ تو کشمیر میں داخل ہوسکتے تھے اور نہ ہی گھروں میں نظربندی جیسی صورتِ حال سے گزرنے والے کشمیری قائدین سے ملاقات کرسکتے تھے۔ شاید یہی وہ نکتہ ہے جس کے بارے میں کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے سوال اُٹھایا ہے کہ کیا سشما سوراج اور اجیت دوول یہ وضاحت کرنا پسند کریں گے کہ نارویجین لیڈر کشمیر میں کیا لینے آئے تھے، یا ہمیں اس معاملے میں افواہوں پر ہی گزارا کرنا پڑے گا؟ موجودہ حالات میں بھارت کا ناروے کے سابق وزیراعظم کو حریت پسند قیادت سے ملنے کی اجازت دینا اُس دبائو کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے جو اِس وقت عالمی برادری کی طرف سے بھارت پر موجود ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ انسانی حقوق کی بدترین صورتِ حال کا ایک تازہ ثبوت سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی 19 ماہ کی معصوم بچی حبہ کی وہ تصویر ہے جس میں بچی کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے۔ بچی کی آنکھ چند دن قبل اپنے گھر میں لگنے والی پیلٹ گن کی گولی سے زخمی ہوئی ہے۔ اس تشدد کا بھارت کے پاس کوئی جواز اور دلیل نہیں ہوتی۔ اس دبائو میں اقوام متحدہ کی حقوقِ انسانی کونسل کی رپورٹ نے مزید اضافہ کیا ہے جس میں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کی تحقیقات کے لیے بین الاقوامی کمیشن کے قیام کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ اس طرح نارویجین لیڈر کے دورۂ کشمیر کو کرتار پورہ سرحد کھولنے کے فیصلے کے نتیجے میں قائم ہونے والی مجموعی فضا اور امید افزا حالات کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس دورے کی ایک اور اہمیت نارویجین لیڈر کا سری نگر اور دہلی سے ہوتے ہوئے اسلام آباد اور مظفرآباد آنا ہے، جہاں انہوں نے صدرِ آزادکشمیر سردار مسعود خان سمیت حریت کانفرنس کی آزادکشمیر شاخ کے نمائندوں کے ساتھ ملاقات کی۔ سری نگر اور مظفرآباد کے درمیان سفر کا یہ شٹل ڈپلومیسی کا انداز 1990ء کی دہائی کے اوائل میں اُس وقت اپنایا گیا تھا جب کشمیر میں تحریکِ مزاحمت ایک نئے انداز سے شروع ہوئی تھی، اور اس کے نتیجے میں کنٹرول لائن اور بین الاقوامی سرحد پر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگیا تھا۔ اُس وقت امریکہ، برطانیہ، اقوام متحدہ اور مختلف یورپی ملکوں کے نمائندے سری نگر اور مظفرآباد کے حالات کا بچشم خود جائزہ لینے کے لیے بیک وقت دورہ کرتے تھے۔ اس سے مسئلے کے حل کی سفارتی کوششوں کے حوالے سے امید کے تار جڑے رہتے تھے اور کشمیری نوجوانوں کا بین الاقوامی نظام پر اعتماد بحال چلا آرہا تھا۔ جب تک یہ امید قائم رہی، کشمیری نوجوانوں اور نئی نسل کا احتجاج کچھ حدود میں رہا، مگر امید ختم ہوئی تو پھر یہ پیمانہ کچھ ایسا چھلکا کہ اب معاملات بھارت کے قابو سے باہر ہوکر رہ گئے ہیں۔
نائن الیون کے بعد حالات نے اُلٹی زقند لی اور عالمی دہشت گردی کے نام پر اُڑائی جانے والی گرد نے یہ سب سلسلے متروک بنا دئیے۔ مغربی لیڈر یا سفارت کار یا تو بھارت کے دورے کرتے رہے یا پاکستان کے۔کشمیر کے دونوں حصوں میں آکر مضروب اور مجروح پارٹی یعنی کشمیریوں کی کتھا سننے کا رواج ختم ہوگیا۔ اب نارویجین لیڈر اور سابق وزیراعظم کا پرانے اسٹائل میں خطے کا دورہ کرنا اس بات کا پتا دے رہا ہے کہ عالمی برادری کو مسئلہ کشمیر کے باعث خطے کی نازک صورتِ حال کا احساس ہونے لگا ہے۔ اس سے پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر پر متروک اورمنجمد ڈپلومیسی بحال ہونے کے آثار بھی پیدا ہوگئے ہیں۔ ناروے دنیا کے کئی تنازعات میں پسِ پردہ ثالثی کے لیے مشہور رہا ہے، جس کی ایک مثال 1993ء میں فلسطینی قیادت اور اسرائیل کے درمیان ہونے والا معاہدۂ اوسلو ہے۔ اس معاہدے کے پیچھے اصل دبائو تو امریکہ کا تھا مگر کئی برس تک پی ایل او اور اسرائیلی نمائندوں کے درمیان مذاکرات ناروے کے تھنک ٹینک کے زیراہتمام جاری رہے، جس کا حتمی نتیجہ اوسلو معاہدے کی صورت میں برآمد ہوا تھا۔ اوسلو معاہدے کے بعد ہی امریکی صدر بل کلنٹن نے مشرق وسطیٰ کے بعد جنوبی ایشیا کے معاملات کی طرف توجہ دیتے ہوئے کشمیر پر بھی ایک اوسلو طرز کے معاہدے کے لیے کام شروع کیا تھا۔ ناروے کے سابق وزیراعظم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 2001ء سے کشمیر کے معاملات میں ذاتی دلچسپی رکھتے ہیں، اور اس حوالے سے کئی سیمینار منعقد کرچکے ہیں۔ بھارت چونکہ مسئلہ کشمیر کے حل میں تیسرے فریق کے کردار اور ثالث کی اصطلاح سے بدک جاتا ہے، اس لیے ثالث کی اصطلاح استعمال کیے بغیر ناروے مسئلہ کشمیر پر پاک بھارت تعلقات کی برف پگھلانے اور ٹوٹے ہوئے تار جوڑنے کے لیے ثالث کا کردار ادا کرسکتا ہے۔