’’آئینِ پاکستان میں قادیانیوں سمیت تمام اقلیتوں کے حقوق کا واضح تعین کردیا گیا ہے، لیکن قادیانی خود کو غیر مسلم تسلیم کرنے کے بجائے آئینِ پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ آئین سے غداری کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ حکومتی وزیر اور مشیر قادیانیوں کی سرپرستی چھوڑ دیں اور آئین کی حفاظت کے حلف کی پاسداری کریں۔ غلامانِ مصطفےٰؐ کسی کو آئین سے کھلواڑ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ دستور قومی وحدت و یک جہتی کی علامت ہے، اس کی حفاظت کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ ختمِ نبوتؐ اور ناموسِ رسالتؐ کے تحفظ کے لیے پوری قوم یک زبان، متحد اور متفق ہے‘‘۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے جماعت اسلامی لاہور کے زیراہتمام ایوانِ اقبال میں خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
ربیع الاول کے ماہِ مبارک میں سیرت کانفرنسیں ہر سال کا معمول ہیں، تاہم گزشتہ کچھ عرصے سے مغربی دنیا اور پاکستان میں اُن کے آلۂ کار آئینِ پاکستان سے تحفظِ ناموسِ رسالتؐ کی ضمانت دفعہ 295 سی اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی ترمیمی دفعات کے خاتمے کے لیے سرگرم عمل ہیں، حتیٰ کہ خالصتاً تجارتی سرگرمیوں کو بھی ان دفعات پر عمل درآمد نہ کیے جانے سے مشروط کیا جارہا ہے۔ ان قوتوں کے اس طرزعمل نے پوری پاکستانی ملّت کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ ملّتِ پاکستان کے انہی جذبات کے پیش نظر جماعت اسلامی نے اِس سال تحفظِ ناموسِ رسالتؐ اور ختم نبوتؐ کے مسئلے کو ملک بھر میں ہونے والی سیرت کانفرنسوں کا خصوصی موضوع قرار دیا ہے۔ اسی سلسلے میں اتوار 25 نومبر کو جماعت اسلامی لاہور نے ’’خاتم الانبیاءؐ کانفرنس‘‘ کا اہتمام کیا جس میں مہمانِ خصوصی امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق تھے۔ جب کہ کانفرنس سے جماعت اسلامی لاہور کے امیر ذکر اللہ مجاہد، جسٹس ریٹائرڈ خلیل الرحمن خان، ڈاکٹر ارباب عالم، پروفیسر خالد متین، اوریا مقبول جان اور سیکریٹری جماعت اسلامی لاہور انجینئر اخلاق احمد نے بھی خطاب کیا۔
’’خاتم الانبیاء کانفرنس‘‘ سے اپنے کلیدی خطاب میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ قادیانی اسلام اور آئینِ پاکستان کے غدار ہیں، ان کی خواہش ہے کہ دستورِ پاکستان سے اسلامی دفعات، خاص طور پر قادیانیوں کو کافر قرار دینے اور 295 سی جیسی دفعات کا خاتمہ کرکے اسے مکمل سیکولر دستور بنادیا جائے، لیکن قوم ان سازشوں کو مزید برداشت نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہاکہ حکمرانوں کو بھی اپنا قبلہ درست اور قادیانیوں کی سرپرستی چھوڑ کر اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ قوم حکمرانوں کی ہر کوتاہی معاف کرسکتی ہے مگر قادیانیوں کے ساتھ حکومتی آفیشلز کا میل ملاپ اور انہیں سر پر بٹھانے کے اقدامات کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ آئینِ پاکستان اقلیتوں کے حقوق کی مکمل حفاظت کی ضمانت دیتا ہے، غیر مسلموں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ ہم پاکستان میں غیر مسلموں کے خلاف نہیں۔ قادیانی خود کو غیر مسلم تسلیم کریں تو اُن سے بھی کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہوگا۔ ناموسِ رسالتؐ کے معاملے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانے اور عالمی رائے عامہ کو اصل حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے امیر جماعت اسلامی نے جنیوا میں اس مسئلے پر عالمی کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان بھی کیا۔
ملک کے سیاسی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ حکومت کو یوٹرن لینے اور یوٹرن کے جواز پیدا کرنے کے بجائے رائٹ ٹرن لے کر اپنے وعدوں کی تکمیل کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ حکومت کے سو دن پورے ہونے کو ہیں مگر اب تک اُس کے پاس اپنے منشور، وعدوں اور دعووں پر عمل درآمد کے حوالے سے کوئی ایک مثال بھی نہیں۔ عوام ریلیف چاہتے ہیں۔ غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور بدامنی سے نجات چاہتے ہیں۔ عوام کو دعووں اور نعروں سے زیادہ دیر بہلایا نہیں جاسکتا۔ مختلف شہروں میں مذہبی رہنماؤں کی گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہوئے سینیٹر سراج الحق نے مؤقف اختیار کیا کہ راتوں کو اپنے مخالفین کو گھروں سے اٹھانا مناسب نہیں، ان سے مذاکرات کریں۔ ہم ایک فلاحی اسلامی ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔ لڑائی جھگڑوں اور سیاسی دہشت گردی کی بنیاد پر حکومتیں نہیں چلتیں۔ جو کام حکومتیں آخری برسوں میں کرتی ہیں، موجودہ حکومت نے پہلے تین ماہ میں ہی شروع کردیئے۔ سیاسی جماعتوں میں سخت تناؤ ہے، ایک دوسرے کے خلاف سخت زبان استعمال کرتے ہیں۔ یوٹرن کی اصطلاح آج کل عام ہے، مگر نعرے اور دعوے کچھ دیر ہی کام کرتے ہیں۔ حکومت کے 100 دن پورے ہونے والے ہیں۔ وہ خود جان لیں مخلوقِ خدا کیا کہتی ہے۔ تمام واقعات اس بات کی علامت ہیں کہ قالین کے نیچے کچھ اور ہے۔ انہوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے حکومتی رکن قومی اسمبلی کے بات کرنے کو ڈیل آف دی سنچری قرار دیا، اور کہا کہ آسیہ کی رہائی بین الاقوامی ایجنڈا ہے۔ انہوں نے کراچی میں چینی قونصلیٹ، ہنگو میں مدرسے پر حملے اور مولانا سمیع الحق کے قتل کی مذمت کی اور کہا کہ دہشت گردی کے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ سب کچھ اچھا نہیں۔ حکومت اپنی اداؤں پر غور کرے، نان ایشوز کو ایشو بنایا جا رہا ہے۔ لاٹھی گولی کے ساتھ حکومتیں نہیں چلتیں۔ بے گناہ لوگوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ اگر کسی پر تشدد، افراتفری اور لاقانونیت پھیلانے کا الزام ہے تو حکومتی مشینری بھی غیر قانونی طرزعمل اپنانے کے بجائے ان لوگوں کو قانون کے مطابق عدالتوں میں پیش کرکے اپنے الزامات ثابت کرے اور عدالتوں کے فیصلوں پر عمل کیا جائے۔
ربیع الاول کے ماہِ مبارک میں سیرت کانفرنسیں ہر سال کا معمول ہیں، تاہم گزشتہ کچھ عرصے سے مغربی دنیا اور پاکستان میں اُن کے آلۂ کار آئینِ پاکستان سے تحفظِ ناموسِ رسالتؐ کی ضمانت دفعہ 295 سی اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی ترمیمی دفعات کے خاتمے کے لیے سرگرم عمل ہیں، حتیٰ کہ خالصتاً تجارتی سرگرمیوں کو بھی ان دفعات پر عمل درآمد نہ کیے جانے سے مشروط کیا جارہا ہے۔ ان قوتوں کے اس طرزعمل نے پوری پاکستانی ملّت کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ ملّتِ پاکستان کے انہی جذبات کے پیش نظر جماعت اسلامی نے اِس سال تحفظِ ناموسِ رسالتؐ اور ختم نبوتؐ کے مسئلے کو ملک بھر میں ہونے والی سیرت کانفرنسوں کا خصوصی موضوع قرار دیا ہے۔ اسی سلسلے میں اتوار 25 نومبر کو جماعت اسلامی لاہور نے ’’خاتم الانبیاءؐ کانفرنس‘‘ کا اہتمام کیا جس میں مہمانِ خصوصی امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق تھے۔ جب کہ کانفرنس سے جماعت اسلامی لاہور کے امیر ذکر اللہ مجاہد، جسٹس ریٹائرڈ خلیل الرحمن خان، ڈاکٹر ارباب عالم، پروفیسر خالد متین، اوریا مقبول جان اور سیکریٹری جماعت اسلامی لاہور انجینئر اخلاق احمد نے بھی خطاب کیا۔
’’خاتم الانبیاء کانفرنس‘‘ سے اپنے کلیدی خطاب میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ قادیانی اسلام اور آئینِ پاکستان کے غدار ہیں، ان کی خواہش ہے کہ دستورِ پاکستان سے اسلامی دفعات، خاص طور پر قادیانیوں کو کافر قرار دینے اور 295 سی جیسی دفعات کا خاتمہ کرکے اسے مکمل سیکولر دستور بنادیا جائے، لیکن قوم ان سازشوں کو مزید برداشت نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہاکہ حکمرانوں کو بھی اپنا قبلہ درست اور قادیانیوں کی سرپرستی چھوڑ کر اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ قوم حکمرانوں کی ہر کوتاہی معاف کرسکتی ہے مگر قادیانیوں کے ساتھ حکومتی آفیشلز کا میل ملاپ اور انہیں سر پر بٹھانے کے اقدامات کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ آئینِ پاکستان اقلیتوں کے حقوق کی مکمل حفاظت کی ضمانت دیتا ہے، غیر مسلموں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ ہم پاکستان میں غیر مسلموں کے خلاف نہیں۔ قادیانی خود کو غیر مسلم تسلیم کریں تو اُن سے بھی کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہوگا۔ ناموسِ رسالتؐ کے معاملے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانے اور عالمی رائے عامہ کو اصل حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے امیر جماعت اسلامی نے جنیوا میں اس مسئلے پر عالمی کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان بھی کیا۔
ملک کے سیاسی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ حکومت کو یوٹرن لینے اور یوٹرن کے جواز پیدا کرنے کے بجائے رائٹ ٹرن لے کر اپنے وعدوں کی تکمیل کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ حکومت کے سو دن پورے ہونے کو ہیں مگر اب تک اُس کے پاس اپنے منشور، وعدوں اور دعووں پر عمل درآمد کے حوالے سے کوئی ایک مثال بھی نہیں۔ عوام ریلیف چاہتے ہیں۔ غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور بدامنی سے نجات چاہتے ہیں۔ عوام کو دعووں اور نعروں سے زیادہ دیر بہلایا نہیں جاسکتا۔ مختلف شہروں میں مذہبی رہنماؤں کی گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہوئے سینیٹر سراج الحق نے مؤقف اختیار کیا کہ راتوں کو اپنے مخالفین کو گھروں سے اٹھانا مناسب نہیں، ان سے مذاکرات کریں۔ ہم ایک فلاحی اسلامی ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔ لڑائی جھگڑوں اور سیاسی دہشت گردی کی بنیاد پر حکومتیں نہیں چلتیں۔ جو کام حکومتیں آخری برسوں میں کرتی ہیں، موجودہ حکومت نے پہلے تین ماہ میں ہی شروع کردیئے۔ سیاسی جماعتوں میں سخت تناؤ ہے، ایک دوسرے کے خلاف سخت زبان استعمال کرتے ہیں۔ یوٹرن کی اصطلاح آج کل عام ہے، مگر نعرے اور دعوے کچھ دیر ہی کام کرتے ہیں۔ حکومت کے 100 دن پورے ہونے والے ہیں۔ وہ خود جان لیں مخلوقِ خدا کیا کہتی ہے۔ تمام واقعات اس بات کی علامت ہیں کہ قالین کے نیچے کچھ اور ہے۔ انہوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے حکومتی رکن قومی اسمبلی کے بات کرنے کو ڈیل آف دی سنچری قرار دیا، اور کہا کہ آسیہ کی رہائی بین الاقوامی ایجنڈا ہے۔ انہوں نے کراچی میں چینی قونصلیٹ، ہنگو میں مدرسے پر حملے اور مولانا سمیع الحق کے قتل کی مذمت کی اور کہا کہ دہشت گردی کے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ سب کچھ اچھا نہیں۔ حکومت اپنی اداؤں پر غور کرے، نان ایشوز کو ایشو بنایا جا رہا ہے۔ لاٹھی گولی کے ساتھ حکومتیں نہیں چلتیں۔ بے گناہ لوگوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ اگر کسی پر تشدد، افراتفری اور لاقانونیت پھیلانے کا الزام ہے تو حکومتی مشینری بھی غیر قانونی طرزعمل اپنانے کے بجائے ان لوگوں کو قانون کے مطابق عدالتوں میں پیش کرکے اپنے الزامات ثابت کرے اور عدالتوں کے فیصلوں پر عمل کیا جائے۔