وزیرا عظم عمران خان کا دورہ شمالی وزیرستان

وزیرا عظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان نے ایک مسلط شدہ جنگ میں بڑی قربانیاں دی ہیںجس سے ہمارا معاشی اور معاشرتی ڈھانچہ تباہ ہو کر رہ گیا ہے اور دنیا کے کسی بھی ملک یا فوج نے دہشت گردی کے خلاف اتنی بڑی قربانیاں نہیں دی ہیں جتنی پاکستان کے عوام اور مسلح افواج نے دی ہیں۔ ہم نے ایک ایسی جنگ اپنے خون اور پسینے سے لڑی جو ہماری جنگ تھی ہی نہیں اور آئندہ اپنی ملک کے اندرایسی کوئی جنگ نہیں لڑیںگے۔ یہ باتیں اُنہوں نے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میرانشاہ میں شمالی و جنوبی وزیرستان کے عمائدین پر مشتمل ایک مشترکہ قبائلی جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کیں ہیں۔واضح رہے کہ عمران خان کا وزارت عظمیٰ کامنصب سنبھالنے کے بعد قبائلی علاقوں کا یہ پہلادورہ تھا،اس موقعے پر ان کے ہمراہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے علاوہ وزیر دفاع پرویز خٹک، خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان، گورنر شاہ فرمان اور دیگر اعلیٰ سول و ملٹری حکام بھی موجودتھے۔ وزیرستان پہنچنے پر وزیراعظم کا استقبال قبائلی عمائدین اور مقامی انتظامیہ کے افسران نے کیا۔ وزیر اعظم نے آرمی چیف کے ہمراہ یادگارشہدا پر پھو ل چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی جس کے بعد انہیں آپریشن ضرب عضب، دوبارہ آبادکاری، متاثرین کی واپسی اور سماجی و معاشی ترقی کے جاری منصوبوں پربریفنگ دی گئی۔ بریفنگ میں وزیر اعظم کو پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کے بارے میں بھی تفصیل سے بتایا گیا۔
وزیراعظم عمران خان نے آرمی چیف کے ہمراہ پاک افغان سرحد کا دورہ بھی کیاجس سے واپسی پرانہوں نے یو نس خان اسٹیڈیم میرانشاہ میں ایک بڑے قبائلی جرگے سے بھی خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نے قبائلی عوام کی قربانیوں کی تعریف کی اور کہا کہ قبائلی عوام نے ہمیشہ مادروطن کی حفاظت کے لیے پاک فوج کے شانہ بشانہ جان و مال کی قربانیاں دی ہیں جس پر پوری قوم کو بجا طور پر فخر ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستان ایک پر امن ملک ہے اور ہم اپنی سرحدوں کے اندر اور اس کے باہر ہمیشہ امن کے حامی رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے واضح الفاظ میں اس بات کا اعلان کیا کہ پاکستان افغانستان میں امن کے لیے ہمیشہ اپنا کردار ادا کرتا رہے گا کیونکہ افغانستان میں امن پاکستان میں امن کے لیے انتہائی ضروری ہے۔انہوں نے پاک فوج کی کامیابیوں اور تمام دیگر سیکورٹی فورسز اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو دہشتگردوں کیخلاف کامیاب آپریشنز پر خراج تحسین پیش کیا۔ اُنہوں نے قبائلی عوام اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والے افراد اور اُن کے لواحقین کو بھی بھر پور خراج عقیدت پیش کیا۔ اس موقع پر عمران خان نے شمالی اور جنوبی وزیرستان کے لیے متعدد ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات بھی کیے جن میں شمالی وزیرستان میں یونیورسٹی اورآرمی کیڈٹ کالج کاقیام، قانون نافذ کرنے والے اداروں میں قبائلی نوجوانوں کو اسامیوں کی فراہمی، جنوبی وزیرستان میںمیڈیکل کالج اورٹیچنگ ہسپتال کی تعمیر، مساجد میں سولر سسٹم کی تنصیب، موبائل نیٹ ورک کی منظوری،قبائلی نوجوانوں کے لیے 25000پولیس کی نوکریاں، یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجوں میں قبائلی طلباء کا کوٹہ ڈبل کرنا، این ایف سی ایوارڈ میں قبائلی اضلاع کے لیے 3فیصد شیئر زمختص کرنا،خاصہ دار فورس اور لیوی کو پولیس میں ضم کرنے کے اعلانات شامل ہیں۔
عمران خان کا حالیہ دورہ شمالی وزیرستان ویسے تو کئی حوالوں سے اہمیت اور توجہ کا حامل ہے لیکن چونکہ وزیر اعظم بننے کے بعد ان کا قبائلی علاقوں کا یہ پہلا دورہ تھا اس لیے قبائل کے نقطہ نظر کے ساتھ ساتھ پاک افغان تعلقات کے تناظر میں بھی اس دورے کو انتہائی دوررس اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہاہے جب کہ اس دورے کی ایک اہمیت قبائلی علاقوں کا خیبر پختونخوامیں آئینی لحاظ سے ضم ہونے کے تناظر میں بھی ایک خاص اہمیت ہے جس کا اندازہ اس دورے میں وزیر اعظم کے ہمراہ کسی وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا کی پہلی مرتبہ سرکاری طور پر موجودگی تھی جب کہ اس دورے میں چونکہ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی موجود تھے لہٰذا ان کی موجودگی کی وجہ سے بھی سیاسی مبصرین اس دورے کو خاصی اہمیت دے رہے ہیں۔
یہاں اس امر کی نشاندہی بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ عمران خان نے بحیثیت وزیر اعظم قبائلی علاقوں کا اپنا دورہ ایک ایسے قبائلی علاقے کا کیا ہے جو ماضی میں دہشت گردی کے ہاتھوں سب سے زیادہ متاثر رہا ہے اور جہاں کے باسی پہلے طالبان کے ہاتھوں کئی سال تک یرغمال بنے ہوئے تھے اور یہ علاقے ایک موقع پر سرکاری حکام،بااثر سیاسی شخصیات اور سرکاری حمایت یافتہ ملکان تک کے لیے نوگوایریاز بن گئے تھے وہاں بعد ازاں فوجی آپریشن کے نتیجے میں بھی لاکھوں لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر بے سروسامانی کی حالت میں دربدر ہونا پڑا تھا جس کا غم اور درد اب بھی تازہ ہے۔اسی طرح شمالی وزیرستان وہ بد قسمت قبائلی علاقہ ہے جہاں دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ میں سب سے زیادہ ڈرون حملے ہوئے جن کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ اور معصوم قبائلی زمین کا رزق بنے۔عمران خان کے دورہ شمالی وزیرستان کو قبائلی علاقوںمیں سابقہ حکومت کے فاٹا اصلاحات پیکج کی روشنی میں یہاں بلدیاتی اداروں کے قیام اور اس ضمن میں یہاں تاریخ میں پہلی دفعہ بلدیاتی انتخابات کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلی کے انتخابات اور قبائلی علاقوں کے بندوبستی علاقوں میں مکمل اور عملی طور پر انضمام کے حوالے سے بھی ایک بڑے چیلنج کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔اسی طرح شمالی اور جنوبی وزیرستان سے اٹھنے والی پختون قوم پرست تحریک پختون تحفظ موومنٹ کے ان علاقوں سمیت پورے پختون بیلٹ میں پھیلتے ہوئے اثرات اور اس تحریک کو حاصل ہونے والی افغان حکومت کی کھلی پشتیبانی کوبھی طالبان کے بعد حکومت اور بالخصوص ریاستی اداروں کے لیے ایک بڑے اور سنجیدہ چیلنج کے طور پر دیکھا اور محسوس کیا جا رہا ہے۔اسی طرح عمران خان نے اپنے دورے کے موقع پر شمالی اور جنوبی وزیرستان میں جو خوشنما وعدے اور اعالانات کیے ہیںانہیں بھی ملک کے کمزور معاشی حالات کے تناظر میں موجودہ حکومت کے لیے لوہے کے چنے چبانے کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے۔
حرف آخر یہ کہ عمران خان جن سے پوری قوم سمیت قبائل نے میں بہت سی امیدیں اور توقعات وابستہ کر رکھی ہیںدیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے وعدوں پر کتنا عمل کرتے ہیں۔