اسلام آباد میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز (پکس) کے زیراہتمام ایک روزہ کانفرنس ہوئی، جس میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری، وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی، پریس کونسل آف پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر عطا اللہ مینگل، چیئرمین پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز میجر جنرل سعد خٹک، ڈائریکٹر جنرل لائسنسنگ پیمرا وکیل خان، اینکر پرسن نسیم زہرہ، احمد قریشی، منیجنگ ڈائریکٹر پکس عبداللہ خان، عامر ضیا، امیر عباس، امبر شمسی، کالم نگاروں میں شوکت پراچہ، پاکستان نیوی کے سابق ڈی جی پی آر سلطان محمود حالی، ڈاکٹر خالد، خالد جمیل اور دیگر نے خطاب کیا۔ بنیادی طور پر یہ سیمینار ملکی سلامتی اور اس خطے میں پاکستان کو درپیش حقیقی مسائل کے حل کی تلاش میں تجاویز اکٹھی کرنے کے لیے تھا۔ سیمینار سے وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے اپنے خطاب میں کہا کہ حکومت ایک ایسی پالیسی لارہی ہے جس میں میڈیا کو قومی ترقی اور ملکی مفادات کے تحفظ میں ایک بڑا کردارسونپا جارہا ہے اور حکومت توقع کر رہی ہے کہ ملکی میڈیا حکومت کی اس پالیسی میں بہتری لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے گا انہوں نے سیمینار سے خطاب میں واضح طور پر کہا کہ پیمرا، پریس کونسل آف پاکستان اور دیگر اداروں کو ختم کر کے ملک میں ایک ہی میڈیا ریگولیٹری باڈی کا قیام عمل میں لایا جائے گا ٹیکنالوجی اور شعبہ صحافت میں تیزی سے آنے والی تبدیلیوں سے مزید مسائل پیدا ہونے کا امکان ہے، تحریک انصاف جب سے حکومت میں آئی ہے ملکی میڈیا کے کارکن پریشان دکھائی دے رہے ہیں، اب تک ملک بھر سے کم و بیش ایک ہزار کارکن نوکریوں سے برطرف کیے جاچکے ہیں اور سینکڑوں ایسے ہیں جنہیں ریٹائرڈ کردیا گیا ہے وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ میڈیا کے اداروں کو حکومت اور سرکاری اشہارات میں کمی آئی ہے لہٰذا کارکنوں کی تنخواہیں اب مسئلہ بن گئی ہیں حکومت بھی اس صورت حال سے آگاہ ہے، اے پی این ایس، سی پی این ای اور پی بی اے کے ایک مشترکہ وفد کی گزشتہ ماہ وزیراعظم عمران خان اور حکومت کے دیگر اداروں کے سربراہوں سے ملاقاتیں ہوئی ہیں جس میں یہ معاملہ زیر بحث رہا اسی پس منظر میں وزیر اطلاعات فواد چودھری نے دو ٹوک کہا کہ حکومت کے پاس کوئی اشتہارات نہیں میڈیا کے ادارے خود اپنے وسائل پیدا کریں آج میڈیا کو سب سے بڑا خطرہ میڈیا مالکان کے کاروباری ماڈل کا ہے، وزیر اطلاعات نے دیگر امور پر بھی گفتگو کی اور کہا کہ ریٹنگ کے چکر سے نکل کر انتشار والے مواد سے اجتناب کرنا چاہیے ہم اپنی کمزوریوں کو دوسروں کے سامنے خود رکھتے ہیں پھر کوئی اعتبار کیسے کرے گا، ڈاکٹر عافیہ کے معاملے پر مغربی میڈیا خاموش، آسیہ بی بی کے بارے میں خبریں دنیا کے ہر کونے میں ملیں گی، یہ مغربی میڈیا کا دہرا کردار ہے صحافی بھی قومی سلامتی کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں این جی اوز کے ذریعے ہماری قومی روایات کو تباہ کیا گیا’ پاکستان کے علاوہ دنیا میں کہیں بھی میڈیا اور قومی سلامتی کے اداروں میں ٹکرائو کی کیفیت نہیں ہوتی، ذاتی اور کاروباری مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینے کے باعث اختلافات پیدا ہوتے ہیں میڈیا مینیجمنٹ بہتر کرنے کی ضرورت ہے اس کے لیے شارٹ ٹرم پالیسیوں سے کام نہیں چلے گا، قومی سلامتی میں میڈیا کا بنیادی کردار ہے پاکستا ن میں مئوثر میڈیا ریگولیشن سسٹم کی اشد ضرورت ہے ۔
میڈیا مالکان کو حکومت پر انحصار کم کر کے اپنا بزنس ماڈل پیش کرنا چاہیے انہوں نے کہا کہ ماضی کی حکومت نے جعلی طور پر ایڈورٹائزنگ مارکیٹ کو توسیع دی اور اسے 12 ارب روپے سے بڑھا کر 35 سے 40 ارب روپے تک لے جایا گیا تاہم موجودہ حکومت نے ضرورت کے مطابق اشتہارات جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے آئندہ چند سال میں انفارمیشن ٹیکنالوجی میں انقلاب سے ماس میڈیا میں بڑی تبدیلیاں آئیں گی اور یہ نیا انقلاب میڈیا کی موجودہ صورتحال کو بالکل بدل کر رکھ دے گا انہوں نے کہا کہ حکومت پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کی اکیڈمیوں کو ضم کر کے پاکستان میڈیا یونیورسٹی قائم کرنا چاہتی ہے، اس سے تخلیقی اور انجینئرنگ سے وابستہ لوگوں کو فائدہ ہو گاحکومت ریڈیو انجینئرنگ کی بحالی اور ملکی سطح پر ریڈیو ٹرانسمٹر تیار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جس سے غیر ملکی زرمبادلہ کی بچت ہو گی انہوں نے کہا کہ وزیراعظم خود ذاتی طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں، وہ ایسی میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی چاہتے ہیں جو 21 ویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔
وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں ہمیں روایتی سوچ سے بڑھ کر کچھ کرنا ہے، پہلے پاکستان ہے اور پھر کچھ اور ماضی میں قومی سلامتی کے معاملے کو نظر انداز کیا گیا، ہماری سماجی اقدار اور قومی سلامتی کا تحفظ، ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے مغربی میڈیا میں ڈاکٹر عافیہ کے معاملہ پر پہلو تہی کی جاتی ہے جبکہ آسیہ بی بی کے معاملے کو اچھالا جاتا ہے ہمیں اپنے نوجوانوں میں شعور اجاگر کرنا چاہیے کہ ہمیں کس طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے جاتا پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے مثال قربانیاں پیش کی ہیں، عالمی برادری کو ہماری قربانیوں کا اعتراف کرنا چاہیے، سیمینار کے منتظم اور چیئر مین پکس میجر جنرل (ر) محمد سعد خٹک نے کہا کہ میڈیا میں کام کرنے والے لوگ بھی اتنے ہی محب وطن ہیںجتنا کوئی دوسرا ہو سکتا ہے، لیکن اس وقت ہمیں جو چیلنجز درپیش ہیں اس کے لیے ہمیں مل جل کر کام کرنا پڑے گا، انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی اور میڈیا ایک دوسرے سے جدا نہیں کیے جا سکتے ان کے چولی دامن کا ساتھ ہے سیمینار سے پریس کونسل آف پاکستان کے چیئر مین ڈاکٹر صلاح الدین مینگل نے بھی خطاب کیا کہ ہم نے قومی صحافت میں ممنوعہ تنظیموں اور دہشت گردوں کے مواد کی اشاعت کا خاتمہ یقینی بنایا ہے جو کہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز کے مینیجنگ ڈائریکٹر عبداللہ خان نے کہا کہ پاکستان کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ مخالف یا اسٹیبلشمنٹ نواز میڈیا کا کوئی تصور نہیں، کلبھوشن یادیو ، کشمیر سنگھ یا سربجیت سنگھ جیسے دہشت گردوں کے خلاف بھارتی میڈیا میں کوئی آواز نہیں اٹھاتا، عمر خالد خراسانی ، منگل باغ اور دوسرے دہشت گرد کمانڈر افغانستان میں بیٹھے ہیں لیکن پورے افغان میڈیا میں ان کے خلاف ایک لفظ دیکھنے کو نہیں ملتا یہ صرف پاکستان میں ہے کہ میڈیا آزاد ہے اور جیسے چاہے رپورٹنگ کرے، انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کے اداروں اور میڈیا کے درمیان گہری ہم آہنگی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔معروف صحافی نسیم زہرہ نے کہا کہ کئی اہم قومی معاملات پر ہمارے میڈیا نے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا، کشمیر ، ایٹمی پروگرام اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں میڈیا اور تمام متعقلہ فریقوں کے درمیان مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے، لیکن بعض اوقات سوالات اٹھائے جاتے ہیں لیکن ان سوالوں کو منفی انداز میں نہیں لینا چاہیے، ایک اہم معاشرے میں اس طرح کے سوالات اٹھانا بہت ضروری ہوتا ہے اینکر پرسن امبر شمسی ، احمد قریشی، ڈی جی پیمرا وکیل خان، ایس ایم حالی، خالد جمیل اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔