عالمی اُردو کانفرنس، کراچی میں آرٹس کونسل کی نمایاں تقریب ہے جس کی تیاری کئی ماہ قبل شروع ہوجاتی ہے۔ گیارہویں عالمی اردو کانفرنس میں 28 اجلاس منعقد ہوئے، جبکہ 12 کتابوں کی رونمائی بھی ہوئی۔ افتتاحی اجلاس میں پیرزادہ قاسم رضا صدیقی، زاہدہ حنا، امینہ سید، افتخار عارف کے ساتھ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ’’کراچی محبتیں بکھیرنے والا شہر ہے۔ یہاں کے شہری امن کی بحالی کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار رہتے ہیں۔ کراچی اردو بولنے والوں کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اردو زبان ہم سب کے لیے محبت اور آپس میں جوڑنے والے رشتے کا نام ہے۔ قومیں اپنے ادیبوں اور شاعروں کی وجہ سے پہچانی جاتی ہیں۔ میرے لیے یہ بڑا اعزاز ہے کہ میں آج یہاں دنیا بھر سے اور پاکستان کے دوردراز علاقوں سے آئے ہوئے دانش وروں، ادیبوں، شاعروں اور قلم کاروں کے درمیان موجود ہوں۔ ہماری حکومت نے امن اور ثقافتی سرگرمیوں کی بحالی میں ہمیشہ اپنا مثبت کردار ادا کیا ہے اور آئندہ بھی ہم آرٹس کونسل کے ساتھ بھرپور تعاون جاری رکھیں گے۔ ہمارے ادیبوں، دانش وروں، شاعروں کا فرض ہے کہ وہ تمام صوبائی، لسانی تعصبات سے پاک ہوکر دلوں کو جوڑنے کا فرض انجام دیتے رہیں۔ انہوں نے آرٹس کونسل کے صدر محمد احمد شاہ اور اراکین کو کانفرنس کے انعقاد پر مبارک باد دی۔ اس موقع پر ’’رودادِ سفر‘‘ کے عنوان سے نویں اور دسویں کانفرنس سے متعلق دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی۔
دوسرے اجلاس میں جون ایلیا کے فن اور شخصیت پر پیرزادہ قاسم، شکیل عادل زادہ، اقبال حیدر اور وسعت اللہ خان نے گفتگو کی۔ نظامت انیق احمد نے کی، جبکہ یوسف بشیر قریشی نے جون ایلیا کا کلام سنایا۔
انور مقصود کی دلچسپ گفتگو کے بعد عشائیہ دیا گیا۔
اردو شاعری: نئی پرانی تخلیقی جہات
یاسمین حمید نے ’’شعری تخلیق میں نئی پرانی جہات کا تصور‘‘، صبا اکرام نے ’’پاکستان میں جدید نظم کے چند اہم نام‘‘، ڈاکٹر شاداب احسانی نے ’’شاعری اور ہمارا معاشرہ‘‘، ضیاء الحسن نے ’’جدید غزل پر غالب کے اثرات‘‘، نجمہ رحمانی نے ’’معاصر اردو شعری منظرنامہ‘‘، تنویر انجم نے ’’جدید شاعری اور لسانی شعور‘‘ کے حوالے سے گفتگو کی۔ زہرا نگاہ، امداد حسینی، کشور ناہید، افتخار عارف، جاذب قریشی، افضال احمد سید مجلسِ صدارت میں شامل رہے، جبکہ نظامت کے فرائض راشد نور نے انجام دیے۔
’’اردو فکشن: ماضی، حال اور مستقبل‘‘ کے مذاکرے میں مرزا حامد بیگ، اسلم جمشید پوری، محمد حمید شاہد، آصف فرخی، خالد محمود سنجرانی، اخلاق احمد، زیب اذکار حسین، دینل جوزف نے حصہ لیا۔ نظامت پروفیسر اوجِ کمال نے کی۔
جمیل الدین عالی کی تیسری برسی کے موقع پر ’’طویل نظمیں اور جمیل الدین عالی کی نظم انسان (تجزیاتی مطالعہ)‘‘ کا اجرا کیا گیا۔
اس موقع پر پیرزادہ قاسم، فاطمہ حسن، ذوالقرنین جمیل اور رخسانہ صبا نے گفتگو کی۔ نظامت کے فرائض شہناز نصیر نے انجام دیے۔
مستنصر حسین تارڑ سے گفتگو میں شمیم حنفی اور ضیا الحسن نے گفتگو کی۔ نظامت کے فرائض اقبال خورشید نے انجام دیے۔
بیاد مشتاق احمد یوسفی میں دستاویزی فلم دکھائی گئی۔ جبکہ افتخار عارف، فاطمہ حسن، آصف فرخی، محمد احمد شاہ، شہزاد شرجیل نے گفتگو کی۔ معروف آرٹسٹ شاہد رسام نے نظامت کی۔
کتابوں کی رونمائی… ’’تعبیر غالب‘‘ نیر مسعود کی کتاب پر شمیم حنفی نے گفتگوکی، ’’مٹی کا درخت‘‘ نجم الحسن رضوی کی کتاب پر مرزا حامد بیگ، ’’رودادِ چمن‘‘ شاہ بانو علوی کی کتاب پر عامر حسین، ’’مجھے یاد کرنا‘‘ تہمینہ رائو کی کتاب پر باصر کاظمی، ’’ہم دو زمانوں میں پیدا ہوئے‘‘ یاسمین حمید کی کتاب پر مبین مرزا نے اظہارِ خیال کیا۔ نظامت ناصرہ زبیری نے کی۔ محفلِ موسیقی میں اقبال اور فیض کا کلام گلوکارہ ٹینا ثانی نے پیش کیا۔
حمد و نعت: عقیدت سے تخلیق تک کا سفر
فراست رضوی نے نعت کے تخلیقی و جمالیاتی پہلو، انصار الحق گہر اعظمی نے ’’اردو شاعری میں سیرتِ نبویؐ‘‘ کے موضوع پر اظہارِ خیال کیا۔ نظامت کے فرائض معروف خوش الحان نعت خواں عزیزالدین خاکیؔ نے انجام دیے۔ اس موقع پر مجلسِ صدارت پر فائز ممتاز شاعر، دانش ور افتخار عارف نے کہا کہ ’’سچے جذبوں کے بغیر نعت کی تخلیق ناممکن ہے۔‘‘ معروف نعت گو شاعر اعجاز رحمانی نے کہا کہ اردو میں نعتیہ شاعری میں روز بروز خوشگوار اضافہ ہورہا ہے۔
’’بچوں کا ادب‘‘ میں صدارتی خطاب کرتے ہوئے معروف دانش ور، براڈ کاسٹر رضا علی عابدی نے کہا کہ ’’میری نگاہ میں بچوں کا ادب تخلیق کرنا عبادت ہے۔ جو ادیب بچوں کی کہانیاں سن کر انہیں بیان کردے، وہی بچوں کا ادب ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے والے کو فرشتہ صفت ہونا چاہیے کیونکہ اس کے لکھے ہوئے کو پڑھنے والے بچے فرشتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے بڑوں کے لیے 19 اور بچوں کے لیے 20 کتابیں لکھی ہیں۔ سلیم مغل نے کہا کہ کہانیوں میں بچوں کا اسلوب اور ان کا لہجہ بھی ہونا چاہیے، کیونکہ کہانیاں پڑھ کر بچوں میں نئی قوت پیدا ہوتی ہے۔ اس موقع پر امینہ سید، فرزانہ روحی اور ابنِ آس نے بھی اظہارِ خیال کیا۔ نظامت رضوان زیدی نے کی۔
کتابوں کی رونمائی کے دوسرے مرحلے میں ’’ایلس بنام فیض‘‘ سید مظہر جمیل کی کتاب پر انوار احمد، ’’بھیڑ میں‘‘ عذرا عباس کی کتاب پر افضال احمد سید، ’’انارکلی‘‘ مرزا حامد بیگ کی کتاب پر ضیا الحسن، اور ’’کلیات احمد نوید‘‘ پر محمد احمد شاہ نے گفتگو کی۔ نظامت ڈاکٹر نزہت عباسی نے کی۔
’’معیاری تعلیم سب کے لیے‘‘ کے زیر عنوان مذاکرے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے پروفیسر اعجاز احمد فاروقی نے کہا کہ قومی ترجیحات میں تعلیم ساتویں نمبر پر ہے۔ سندھ میں ساڑھے 12 ہزار اسکول گھوسٹ ہیں۔ کراچی میں 136 سرکاری اور 180 پرائیویٹ کالج ہیں۔ ہمارے ہاں تعلیم سیاسی معاملہ ہے۔ اس کا فیصلہ بڑے ایوانوں میں ہوتا ہے۔ تعلیم کو اوپر لے کر جانا ہے یا نیچے، اب ضرورت فیصلہ کرنے کی ہے۔ اگر اوپری سطح پر فیصلہ کرلیا جائے کہ تعلیم کے شعبے کو آگے لے کر جانا ہے تو پھر تعلیم کے شعبے کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔شیخ الجامعہ کراچی ڈاکٹر اجمل خان نے کہا کہ چین میں 1975ء میں یہ فیصلہ ہوا کہ تعلیم کو آگے بڑھانا ہے، لہٰذا اس فیصلے پر عمل درآمد ہوا اور چین میں تعلیم سب سے اوپر کی سطح پر آگئی۔ پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے کہا کہ ملائشیا میں تعلیم کا شعبہ ماضی میں بہت ابتری کا شکار تھا مگر جب مہاتیر محمد نے طے کیا کہ تعلیم پر سب سے زیادہ توجہ دی جائے گی تو آج ملائشیا بھی تعلیم کے شعبے میں آگے نکل گیا ہے۔ امینہ سید نے کہا کہ ہمارے سرکاری اسکولوں میں اساتذہ جس طرح بچوں کو پڑھا رہے ہیں اس طرح وہ تعلیم سے قریب نہیں بلکہ دور ہوتے جارہے ہیں۔ پروفیسر ہارون رشید نے کہا کہ سندھ میں 7 تعلیمی بورڈ ہیں، اب آٹھویں کو بھی اجازت دی جارہی ہے، اور جنہیں اجازت دی جارہی ہے وہ صاحب خود کرپشن میں ملوث ہیں۔ ان حالات میں بھلا کس طرح معیاری تعلیم کی بات کی جاسکتی ہے! غازی صلاح الدین نے کہا کہ ملک میں اصل مسئلہ عدم برداشت کا ہے۔ اگر اس سے چھٹکارا نہ پایا گیا تو تعلیم کا شعبہ کبھی آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ ہمیں ایسے ماحول کے لیے کام کرنا ہوگا جہاں عدم برداشت اور بات کہنے کی آزادی ہو۔ گفتگو میں عشرت حسین، انوار احمد، قاسم بگھیو، معین الدین عقیل، صادقہ صلاح الدین نے بھی حصہ لیا۔ نظامت کے فرائض سید جعفر احمد نے انجام دیے۔
’’تراجم اور دنیا سے رابطے‘‘ میں راشد فاروق کی کتاب ’’کالے والا‘‘ پر ڈاکٹر انوار احمد، خلیل طوقار نے ’’عہدِ عثمانیہ سے آج تک ترکی میں اردو تعلیم و تدریس‘‘، نصر ملک نے ’’ڈینش اور اردو کے روابط‘‘، ارشد فاروق نے ’’فن لینڈ میں اردو سرگرمیاں‘‘، سعید نقوی نے ’’امریکہ میں اردو گلشن کی صورت حال‘‘، وفایزدان منش نے ’’ایران میں اردو کی روایت اور عصری تقاضے‘‘ اور بشریٰ اقبال نے ’’یورپ میں اردو زبان کا مستقبل‘‘ کے موضوعات پر اظہارِ خیال کیا۔ خلیل طوقار نے کہا کہ اردو سے ترکی زبان میں زیادہ ترجمے نہیں ہورہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ترکی میں جو پاکستانی یا اردو بولنے والے رہتے ہیں وہ ترکی کے کلچر سے واقف نہیں ہیں۔ انہیں وہاں کے کلچر کو سمجھنا ہوگا۔ سعید نقوی نے کہا کہ امریکہ میں اردو کے حوالے سے ترجمے کا کام ہو تو رہا ہے مگر اتنا نہیں جتنا ہونا چاہیے تھا۔ تہران یونیورسٹی میں اردو پڑھانے والی وفایزدان منش نے بتایا کہ میں انتظار حسین کے ناول ’’بستی‘‘ اور علامہ اقبالؒ کی کئی کتابیں اردو سے فارسی میں منتقل کرچکی ہوں، مگر میں چاہوں گی کہ دونوں حکومتیں مل کر اس حوالے سے سنجیدہ کوششیں کریں۔ بشریٰ اقبال نے کہا کہ جرمنی میں علامہ اقبال ؒ، فیض، فراز، کشور ناہید اور افتخار عارف کی تحریروں کے ترجمے ہوئے ہیں۔ جرمنی میں گوئٹے انسٹی ٹیوٹ اس سلسلے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ رضا علی عابدی نے کہا کہ مجھے صرف ایک ہی تجربہ ہے اور میں نے 25 سال تک مارک ٹیلی کی خبروں کا ترجمہ کیا ہے۔
مشاعرہ
مشاعرے کی صدارت افتخار عارف نے کی، جبکہ صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ مہمانِ خصوصی تھے۔ انہوں نے کہا کہ آرٹس کونسل شہر کی ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے۔ مشاعرے میں انور مسعود، پیرزادہ قاسم رضا صدیقی، انور شعور، امداد حسینی، عارف نقوی، صابر ظفر، ایوب خاور، یاسمین حمید، فاطمہ حسن، باصر کاظمی، لیاقت علی عاصم، عباس تابش، فرید احمد فواد، فاروق ساغر، وفایزدان منش، ریحانہ روحی، باسط جلیلی، احمد عطا اللہ، ناصرہ زبیری، شہزاد شرجیلہ و دیگر نے کلام پیش کیا۔
اختتامی اجلاس
ضیاء محی الدین نے اپنے مخصوص لب و لہجے میں اقبال، فیض، راشد، میراجی کا کلام سنایا۔ اس موقع پر قراردادیں بھی پیش کی گئیں۔ ایک قرارداد میں سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا گیا کہ اردو کو سرکاری زبان بنائے جانے کے فیصلے پر عمل درآمد کرایا جائے۔ تقریب میں صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی نے بطور میزبان شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ سیاست دانوں کو ادب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ ضیاء محی الدین نے کہا کہ ٹی وی چینلز پر اردو کو احترام کے ساتھ بولا جائے۔
کانفرنس کے تمام اجلاس آڈیٹوریم میں ہوئے جس میں محدود نشستوں کی وجہ سے حاضرین سیڑھیوں پر بھی بیٹھے۔ کثیر تعداد میں حاضرین نے باہر نصب اسکرین پر کارروائی دیکھی۔ لوگوں کی تعداد کی وجہ سے جگہ تنگی کا شکار رہی۔ شہر کے معروف پبلشرز نے کتابوں کے اسٹال لگائے۔ آئندہ کانفرنس کے لیے اس سے کئی گنا بڑی جگہ کا انتخاب کرنا ہوگا۔