پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے سو دن مکمل کرلیے ہیں۔ روایتی طور پر کسی منتخب حکومت کے ابتدائی تین ماہ کو ہنی مون پیریڈ قرار دیا جاتا ہے، لیکن پاکستان ایک غیر معمولی صورتِ حال سے گزر رہا ہے۔ وہ داخلی بحران اور خارجی طوفانوں میں گھرا ہوا ہے۔ اس پس منظر میں پاکستان کی سیاست میں ’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ کافی عرصے سے لگا ہوا تھا۔ جنرل (ر) پرویزمشرف کی فوجی آمریت کے خاتمے کے بعد دو مقبولِ عوام سیاسی جماعتوں نے باری باری حکومت کی، لیکن دونوں جماعتیں اُس کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکیں جس کی عوام کو توقع تھی۔ کیوں کہ یہ خیال پاکستان کی سیاسی تاریخ نے پختہ کردیا ہے کہ پاکستان کے سیاسی بحران اور ملکی مصائب کے اسباب میں سب سے اوّلین سبب فوجی حکمرانی ہے۔ ملک میں انتخابات کے نتیجے میں حکومت کے قائم ہونے پر قومی اتفاقِ رائے موجود ہے، غیر جمہوری اور آمرانہ حکومتوں کو قبول کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ اس اتفاقِ رائے کے باوجود پاکستان کے امور پر نظر رکھنے والے ہر دل و دماغ میں اضطراب موجود ہے۔ گزشتہ تین عشروں کے تجربات نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان طویل عرصے سے بہتر طرزِ حکمرانی کے بحران کا شکار ہے۔ حالات اتنے ابتر اور کشیدہ ہوچکے ہیں کہ نئی حکومت اپنے ابتدائی ایام میں بھی سکون سے حکومت نہیں کر پارہی ہے۔ حزبِ اختلاف پہلے تین ماہ میں نئی حکومت کی ناکامی کا تاثر پختہ کرچکی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کم از کم گزشتہ 20 برسوں میں قائم رہنے والی حکومتیں بھی قومی اور ملّی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ گزشتہ 20 برسوں میں 10 برس فوجی آمریت کے گزرے۔ جنرل (ر) پرویزمشرف نے فوجی حکمرانی کے سائے میں کنگز پارٹیبناکر ’’حقیقی جمہوریت‘‘ کا دعویٰ کیا، لیکن اس حکومت کی ناکامی کے بطن سے این آر او کی اصطلاح برآمد ہوئی جس نے سیاسی امور اور حکومتوں کے بننے اور بگڑنے میں امریکہ اور عالمی طاقتوں کی مداخلت کو عریاں کردیا۔ اسی مداخلت کے نتیجے میں سابق سیاسی وزرائے اعظم یعنی بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف کی جبری جلاوطنی ختم ہوئی۔ اسباب جو بھی ہوں، عملاً تینوں حکومتیں پاکستان کے عوام کے حالات بہتر کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ مسئلہ صرف طرزِ حکمرانی کی ناکامی کا نہیں ہے بلکہ پاکستان کی آزادی اور خودمختاری بھی پامال ہوئی ہے، ادارے تباہ ہوئے ہیں۔ ہر سطح پر مایوسی کی وجہ سے تبدیلی کی لہر پیدا ہوئی۔ اس سیاسی خلا کو عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف نے پُر کیا ہے۔ لیکن کیا اس تبدیلی نے عوام کی آنکھوں میں اُمید کی کرن روشن کی ہے؟ پروپیگنڈے اور جوابی پروپیگنڈے کے شور میں بھی اس سوال کا جواب نفی میں مل رہا ہے۔ حکمران موجودہ ہوں یا سابق، ان کے رویّے سے اس بات کا اظہار کہیں بھی نہیں ہورہا کہ وہ ملک و قوم کو درپیش خطرات اور اس کے علاج کا ادراک رکھتے ہیں۔ ہم بڑے افسوس اور دُکھ سے اس بات کا اظہار کرنے پر مجبور ہیں کہ صرف سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت ہی نہیں بلکہ پاکستانی معاشرے اور سیاست کے دیگر عناصر اور ادارے بھی انحطاط کا شکار ہیں۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ حالات کی ابتری نے تبدیلی کی پیاس پیدا کردی تھی، عوام تبدیلی چاہتے تھے اور تبدیلی چاہتے ہیں، لیکن تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں کے پاس بھی حالات کی ابتری اور اصلاحِ احوال کا کوئی تجزیہ موجود نہیں تھا۔ اس پس منظر میں حکمرانوں کی بدعنوانی، کرپشن اور قومی وسائل کی خیانت کو سب سے بڑا مسئلہ بناکر پیش کیا گیا، جبکہ کرپشن بیماری کی علامت تھی۔ جسدِ قومی کو جن وائرسوں نے بیمار کیا ہے اُن کا ذکر نہیں تھا۔ اسی کے ساتھ یہ سوال بھی موجود تھا جس کا جواب دینے کی کوشش نہیں کی گئی کہ ’’پہلا پتھر کون مارے گا‘‘ جو خود پاک دامن ہو۔ یہ وہ سبب ہے جس کی وجہ سے نئی حکومت اور ریاستی ادارے کرپشن کے خلاف مہم چلانے کے باوجود ابھی تک کرپشن کے خاتمے اور کرپٹ افراد کو سزا دینے میں کامیابی حاصل نہیں کرسکے۔ اصلاحِ احوال کے نام پر کیے جانے والے اقدامات نئے بحران اور مسائل پیدا کررہے ہیں۔ عالمی مداخلت ہر معاملے میں عیاں ہے، لیکن سابق حکومتوں کے مقابلے میں کوئی بہتر کارکردگی نظر نہیں آرہی ہے۔ اس کی صرف ایک مثال ہے کہ موجودہ حکومت نے توہینِ رسالت اور ختمِ نبوت جیسے حساس مسئلے کو سابق حکومتوں کے مقابلے میں زیادہ بدتر طریقے سے ہینڈل کیا ہے، اور ابتدائی چند دنوں میں ہی ظاہر کردیا ہے کہ موجودہ حکومت بھی سابق حکومتوں کی طرح عالمی قوتوں کے اسلام دشمن ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے لائی گئی ہے، اور ’’مدینہ کی اسلامی ریاست‘‘ کا نعرہ لگاکر پاکستان کے نظریاتی ارتداد کی طرف پیش قدمی کرکے ملک کو لبرل اور سیکولر بنانے کی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے۔ پاکستان کو داخلی اور خارجی سطح پر جو خطرات درپیش ہیں اُن کا مقابلہ کرنے میں سیاسی قوتوں کی ناکامی قومی المیہ بن رہی ہے۔ مسئلہ صرف سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کی ناکامی کا نہیں ہے بلکہ ہر سطح پر انحطاط اور زوال کا منظر ہے۔ ریاست کے تمام ستون عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ اپنی اہلیت بھی کھو چکے ہیں۔ ریاستی ستونوں کی نااہلی کا سب سے تلخ پھل قومی امور و مسائل میں اتفاقِ رائے کا فقدان ہے۔ اہلیت اور کارکردگی کا راست تعلق اخلاقی کردار سے ہے۔ چوں کہ منافقت قومی زندگی کا سکۂ رائج الوقت بن گئی ہے، اس لیے طاقت کے حصول کے لیے ہر قسم کی بے اصولی ہی سب سے بڑا اصول ہے۔ اس عمل نے سفید وخاکی افسر شاہی میں ایسا اخلاقی انحطاط پیدا کردیا ہے جس نے پورے معاشرے کو انارکی میں مبتلا کردیا ہے۔ اس کی وجہ غلامانہ ذہنیت ہے۔ اخلاقی تربیت کا ذریعہ صرف اور صرف دینِ اسلام ہے، لیکن اسلام کا نام لے کر غیر اسلامی زندگی بسر کرنے والے نہ دیانت کے تقاضوں پر پورا اتر سکتے ہیں اور نہ ہی اہلیت حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ قومی بحران کی اصل جڑ ہے۔