آئیے، آج پہلے اپنا جائزہ لیں۔ منگل 27نومبر کے جسارت کے ادارتی صفحے کے ایک مضمون کی سرخی ہے ’’گندہ ہے پر دھندہ ہے یہ‘‘۔ ’گندہ‘ اور ’دھندہ‘ دونوں الفاظ ہندی کے ہیں اور ان کے آخر میں ’ہ‘ (ہائے ہوز) نہیں بلکہ الف ہے، یعنی ’گندا‘ اور ’دھندا‘۔ اس کی پہچان ذرا مشکل ہے کہ کہاں ’ہ‘ آنی چاہیے اور کہاں ’ا‘۔ ہندی الفاظ میں عموماً یہ گول ’ہ‘ نہیں آتی، لیکن یہ کیسے معلوم ہو کہ لفظ ہندی کا ہے یا کسی اور زبان کا؟ یہ تو سکہ بند ادیبوں کو پڑھنے یا لغت دیکھنے ہی سے معلوم ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ ’’سکہ بند‘‘ کی ترکیب کیا ہے؟ خود سکے بھی اب معدوم ہوتے جارہے ہیں اور ان کی جگہ کاغذ نے لے لی ہے۔ 5 روپے کا سکہ ماضی کی ایک پائی کے برابر ہوگیا جو فقیر بھی منہ بناکر قبول کرتے ہیں۔ خود ’پائی‘ بھی محاروں، کہاوتوں میں پائی جاتی ہے۔ مثلاً ’’پائی پائی کا حساب‘‘۔ تاہم سکے نے اپنا سکہ جما رکھا ہے، مثلاً ’’دنیا میں ڈالر کا سکہ چلتا ہے‘‘ یا ’’فلاں نے اپنا سکہ جما رکھا ہے‘‘۔ لیکن یہ ہے کیا؟
’سکّہ‘ فارسی کا لفظ اور مذکر ہے۔ اردو میں اسے ٹھپا کہہ سکتے ہیں، لیکن محاورے میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں ادیب نے ادب میں اپنا ٹھپا جما رکھا ہے۔ اس کا مطلب ہے وہ منقش لوہا جس سے روپے، اشرفی، پیسے وغیرہ پر مہر کرتے ہیں۔ ڈھلا ہوا زر جو ملک میں چلے۔ علاوہ ازیں روش، قاعدہ، دستورالعمل، مہرِ شاہی جو اب نوادرات میں نظر آتی ہے۔ اردو میں اس کا مطلب حکم، حکومت، تحکم، رعب داب وغیرہ۔ بحرؔ کا ایک شعر ہے:
ہمارے داغ کا سکہ ہے ہفت کشور میں
گڑا ہے عرش پہ جھنڈا ہمارے نالوں کا
سکہ بٹھایا جاتا ہے یعنی حکومت جمانا، رعب داب قائم کرنا۔ اس پر دو شعر مزید برداشت کریں:
سکہ بٹھلائیں گے بازارِ قباحت میں ضرور
درہم داغ محبت کا بھنانے والے
اور
ہم سا نکلا نہ کوئی کوئے وفاداری میں
سکے بٹھلا دیے ہیں نقشِ کفِ پا ہو کر
اس سکے کے اور بھی کئی رُخ ہیں۔ دکن میں ریاست نظام کے سکے کو ’’سکۂ حالی‘‘ کہتے تھے لیکن بے حالی ہوگئی۔ امید ہے کہ قارئین پر سکّہ جم گیا ہوگا۔
اسی دن کے جسارت میں بہت سینئر صحافی آصف جیلانی کے مضمون کی سرخی ہے ’’عجلت کے فیصلے جنہوں نے ہمیں راندہ زمانہ کیا‘‘۔ عام طور پر راندۂ درگاہ کی ترکیب استعمال کی جاتی ہے لیکن راندۂ زمانہ اس سے زیادہ وسیع ہے۔ راندہ کا مطلب ہے رد کیا ہوا، مردود، نکالا ہوا، ذلیل کیا جانا۔ فارسی کا لفظ ہے۔ شاعروں نے راندا بھی استعمال کیا ہے۔ جلالی کا شعر ہے:
دونوں آنکھیں تھیں گنہگارِ محبت دل نہ تھا
مفت میں راندا گیا ہے ایک بے تقصیر بھی
راندۂ زمانہ کا مطلب ہوا: جس کو زمانے نے مسترد کردیا ہو۔ سحرؔ نے اسے گول ’ہ‘ کے ساتھ استعمال کیا ہے:
ناصح بکا کرے، نہیں دینے کے ہم جواب
کیا بات کیجیے راندۂ درگاہِ عشق سے
محترم مفتی منیب الرحمن نے اپنے مضمون میں کسی عاصمہ حدید کی بروقت پکڑ کی ہے۔ اس مضمون کی سرخی ہے ’’عاصمہ حدید کی ہفوات‘‘۔ اب یہ ہفوات کا لفظ بھی ایسا نامانوس ہوگیا کہ ہمارے کچھ ساتھیوں نے اس کا مطلب پوچھا ہے۔ مضمون کے متن میں ’’خرافات و ہفوات‘‘ سے مطلب اور بھی واضح ہوچکا ہے، تاہم لغت کے مطابق ہفوات کا مطلب ہے: بے ہودہ باتیں۔ یہ عربی کا لفظ ہے۔
کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے کے بعد ایک خاتون پولیس افسرکا ذرائع ابلاغ میں بڑا چرچا ہوا جو کہ آپریشن ختم ہونے کے بعد پہنچی تھیں۔ یہ الگ معاملہ ہے۔ تاہم ان خاتون کا نام اخبارات میں مختلف طریقوں سے لکھا گیا۔ کسی نے سہائی عزیز اور کسی نے سہائے عزیز لکھا۔ ان کے نام کا درست املا کیا ہے یہ تو وہی بتا سکتی ہیں، لیکن ہمارا خیال ہے کہ ان کے نام کا بنیادی جز ’سہا‘ ہے، اور سہائے عزیز کا مطلب ہوا عزیز کی سہا۔ انگریزی میں اگر یہ Eکے ساتھ آیا ہوگا تو وہ سہائی ہوگئیں۔ یہ یائے نسبتی ہے۔ سہا پیارا نام ہے اور فارسی کا لفظ ہے۔ اس کا مطلب ہے: ایک چھوٹا ستارہ جو بنات النعش کے تین ستاروں میں سے دوسرے ستارے کے ساتھ ہے۔ یہ مذکر ہے لیکن کوئی خاتون بھی یہ نام رکھ سکتی ہیں، اور پولیس میں ہوں تو ضرور رکھیں۔ گویا سہا عزیز کا مطلب ہوا: عزیز کا ستارہ۔ عزیز ممکن ہے والد کا نام ہو۔ جہاں تک ’’سُہائے‘‘ کا تعلق ہے تو یہ سنسکرت کا لفظ ہے اور ہندو کائستھوں کے نام کا جزو ہوتا ہے۔ جیسے گنگا سہائے، رام سہائے، دیوی سہائے۔ لیکن سہا عزیز کا تعلق مسلمانوں سے ہے چنانچہ بہتر ہوگا کہ انہیں ’’سہائے‘‘ نہ لکھا جائے۔
سنڈے میگزین (18تا24نومبر) میں پھولوں کی دنیا میں ایک کہانی ’’تیمور کا مقصد حیات‘‘ ہے۔ اس میں ایک بڑا دلچسپ جملہ ہے ’’کئی سو مربوں کا اکلوتا وارث‘‘۔ لیکن یہ وضاحت نہیں ہے کہ مربے کس چیز کے ہیں؟ سیب کے، امرود کے، ہڑ یا آنولے کے؟ اور مربے بھی کئی سو! کیا حکیم کی اولاد تھا یا پنساری؟ لیکن ان کے پاس بھی کئی سو مربے نہیں ہوتے۔ یہ غالباً ’’مربعے‘‘ ہیں۔ ہم نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ بچوں کے لیے شائع ہونے والی تحریروں کی ایڈیٹنگ اور پروف ریڈنگ بہت احتیاط سے کرنی چاہیے، ورنہ بچے لکھے ہوئے ہی کو درست سمجھ لیںگے۔ لیکن شاید پروف ریڈنگ کا شعبہ ہر اخبار میں خالی ہوگیا ہے۔ اسی کہانی میں ’’پھوپھیاں، ماسیاں‘‘ اور’’ ٹس سے مس نا ہوا‘‘ بھی ہے۔ بے شک ماسی پنجابی میں خالہ کو اور ہندی میں موسی کہتے ہیں، لیکن اب یہ لفظ گھروں میں کام کرنے والیوں کے لیے مخصوص ہوگیا ہے۔ چنانچہ جب پھوپھیاں ہیں تو خالائیں لکھنے میں کیا ہرج تھا! اسی طرح ’’ٹس سے مس نا ہوا‘‘میں ’نا‘ کی جگہ ’نہ‘ ہونا چاہیے، لیکن پھولوں کی دنیا بغیر مالی کے ہے۔ مدیحہ صدیقی کی نظم بھی اصلاح طلب ہے، مثلاً ’’نظریں چرائی‘‘۔ نظریں جمع ہے، اس لیے ’چرائیں‘ آنا چاہیے تھا۔ مگر چھوڑیے، بچوں کی کیا پکڑ کرنا۔ ٹی وی کے اینکرز جس طرح زبان کا حشر کررہے ہیں وہ کیا کم ہے! سما ٹی وی پر جرم و سزا سے متعلق ایک ڈراما آتا ہے جس میں پسِ پردہ تبصرہ کرنے والے صاحب عَمد کو عُمد (بروزن بُرد) کہتے ہیں، اور شاید عمداً کہتے ہیں۔ ہمیں حیرت ہے کہ چینل کے کسی ذمے دار نے تصحیح نہیں کی۔ اردو میں عمد بالفتح اوّل و دوم ہے، یعنی ’ع‘ اور ’م‘ دونوں پر زبر ہے۔ عربی میں ’م‘ ساکن ہے۔ مطلب ہے قصد، ارادہ۔ قتلِ عمد کی اصطلاح عام ہے۔ یعنی کسی کو جان بوجھ کر قتل کرنا۔ اس کی دوسری قسم ’’قتلِ خطا‘‘ ہے یعنی بلا ارادہ، اتفاقاً یا سہواً قتل کردینا۔ عمداً پر میر تقی میرؔ کا شعر ہے:
میرؔ عمداً بھی کوئی مرتا ہے
جان ہے تو جہان ہے پیارے
اس شعر کا دوسرا مصرع ضرب المثل بن گیا اور پہلا مصرع دھند میں چھپ گیا ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ دیگر اخبارات میں بھی اصلاحِ زبان پر مضامین آرہے ہیں جن سے ہم بھی استفادہ کررہے ہیں۔ جناب رضا علی عابدی بھی اس موضوع پر گاہے گاہے لکھتے رہتے ہیں۔ یہ جب بی بی سی لندن سے ایک پروگرام کیا کرتے تھے تو ہم اپنے تلفظ کی غلطیاں درست کرلیتے تھے۔ وہ بھی ٹی وی چینلوں پر کانوں میں انڈیلی جانے والی غلط بلکہ برخود غلط اردو اور مسخ شدہ تلفظ کے شاکی ہیں۔ ٹی وی اینکر ہی کیا، ٹی وی پروگراموں میں آنے والے بہت پڑھے لکھے لوگ بھی ’’مسخ‘‘ کا صحیح تلفظ اَدا نہیں کرتے اور ’’م۔سخ‘‘ کہتے ہیں، جبکہ اس کا تلفظ بروزن ’رفت‘ ہے۔ عربی کا لفظ ہے اور’س‘ پر جزم ہے (مَسْخ)، مطلب ہے اچھی صورت سے بری صورت ہونا۔ اس کا وزن ’رقص‘ ہوسکتا ہے، اور امید ہے کہ رقص کو کوئی ر۔قص نہی