ڈاکٹر محمد طاہر قریشی
۔۲۷ نومبرباباے صحافت مولانا ظفر علی خان(۱۸۷۳ء ۔۔۱۹۵۶ء ) کا یوم وفات ہے ۔جنھوںنے بیسویں صدی کے نصف اول میں برعظیم پاک و ہند کی ادبی، سیاسی اور صحافتی تاریخ پر اپنی زور دار ملّی شاعری اور بے باک صحافت سے انمٹ نقوش مرتب کیے ہیں۔ مسلمانانِ ہند کی جدوجہد آزادی میں مولاناکے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ انھوں نے نہ صرف عملی طور سے سیاست میں حصہ لیا بلکہ اپنے والد کے جاری کردہ اخبار ’’زمیندار‘‘ کے ذریعے مسلمانوں کی سیاسی تربیت کا فریضہ بھی بخوبی سر انجام دیا۔ان کی قومی اور ملّی شاعری کا مقصد مسلمانوںمیں صحیح معنوں میں مسلمان ہونے کا احساس بیدار کرنا تھا۔ ان کی دلیری، بے خوفی اور انگریزوں اور ہندوئوں سے بیک وقت لڑنے کی صلاحیت بے پناہ تھی۔ بالخصوص انگریزوں سے نفرت ان کے مزاج میں ایسی رچی بسی تھی کہ وہ کبھی سرکاری ملازمت کے پیچھے نہیں بھاگے۔ علی گڑھ کالج کی تعلیم بھی انھیں انگریزوں کے ساتھ ہمدردانہ اور مصالحانہ رویّہ اختیار کرنے پر مجبور نہ کرسکی۔ متعدد بار ’’زمیندار‘‘ کی ضمانت ضبط ہوئی اور انھیں جیل کی ہوا کھانی پڑی لیکن مولانا ظفر علی خان نے اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ انھیں اسلام، قرآن اور سرکار دو عالم ﷺ سے بے حد عقیدت تھی۔ ان کی دینی اور ملّی حمیّت کو مولانا الطاف حسین حالیؔ نے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا:
اے دین کے امتحاں میں جاں باز
اے نصرت حق میں تیغ عریاں
اے صدق و صفا کی زندہ تصویر
اے شیر دل اے ظفر علی خاں
زندہ ہے وہ ملک اور ملّت
ہوں زندہ دل جس میںایسے انساں
ویسے تو ظفر علی خان کی شاعری پر اقبال اور اکبر الہٰ آبادی کے اثرات بھی ملتے ہیں لیکن ’’ان کی شاعری پر صحیح چھاپ حالی کی ہے‘‘۔ البتہ ان کا لہجہ حالی سے کہیں زیادہ بلند آہنگ ہے کیوں کہ وہ ’’درمیانی راہ جانتے ہی نہیں تھے‘‘ ۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کے بقول مزاج کے اعتبار سے وہ شعلۂ جوّالہ تھے۔ ویسے بھی ’’ان کا اصل میدان رزم ہی ہے اور وہ تنہا اس میدان میں مبارز طلبی کے لیے نظر آتے ہیں‘‘۔ اسی لیے شدّھی، سنگھٹن اور قادیانیت کے فتنوں پر ان کا قلم تیغ عریاں بن گیا۔سچ تو یہ ہے کہ مولانا ظفر علی خان جیسے مجاہد ملّت ’’قدرت کسی قوم کو اس وقت ودیعت کرتی ہے جب اس کی تقدیر بدلنا مقصود ہو‘‘۔
مولانا ظفر علی خان جیسی کثیر جہتی شخصیت کے ہرہر پہلو پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔تاہم اس مختصر مضمون میں صرف ان کے قرآن پاک سے گہرے تعلق کو موضوع بنایا گیا ہے۔ قرآن کے معنوی استفادے سے قطع نظر جہاںتک لفظیات قرآنی کا تعلق ہے،ایک محتاط اندازے کے مطابق اردو کے قومی اور ملّی شعرا میں مولانا ظفر علی خان سے زیادہ کسی شاعر (بشمول اقبال) کے کلام میں قرآنی اقتباسات استعمال نہیں ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ یہاں ایسے الفاظ قرآنی مراد نہیںہیں جو ہزاروں کی تعداد میں اردو روزمرہ میںاستعمال ہوتے ہیں بلکہ ایسے الفاظ قرآنی مراد ہیں جو عموماًمستعمل نہیں ہیں۔ اس معاملے میں مولانا کا کوئی مد مقابل نہیں ہے ۔ان کے کلام میں قرآنی الفاظ کی بہتات ان کی دین سے گہرے شغف کی غمازی کرتی ہے۔ مثالیں ملاحظہ ہوں:
عقیدہ ٔ توحید
غیر از خدا کسی سے مدد مانگتے نہیں
مل کر پکارتے ہیں إِیَّاکَ نَسْتَعِیْن
نعت
خمستان وحدت سے ساقیٔ یثرب
ؐپلادے مجھے بادہ لَاتَقْنَطُوْا کا
دیکھ کر تجھ کو گرے لات و ہبل سر کے بل
آتے ہی تیرے فرو ہو گئی نار جَحِیْمَ
إِنْ ہُوَ إِلَّا وَحْیٌ یُوحیٰ جس کی شان میں آیا ہے
رحمت عالم ہو کے اک امّیؐ اس مکتوب کو لایا ہے
ختم نبوت
جب محمدؐ کو ملا پیغام أَکْمَلْتُ لَکُم
گل ہمیشہ کے لیے شمع نبوّت ہوگئی
واقعہ ٔ معراج کی عکاسی
ماہِ و انجم نے سر راہ بچھا دی آنکھیں
کیونکہ ہے ناقہ ٔ أَسْریٰ کا سفر آج کی رات
سواری رہ نورد منزل اَسْریٰ کی جب نکلی
تو جبریل امیں تھامے ہوئے اس کی لگام آیا
شب معراج وہ شب ہے کہ کھولے ربّ اکبر نے
رسول اللہؐ پر اسرار خلوت گاہِ أَوْ أَدْنٰی
آخرت کی یاد دہانی
محو ہوئے معاش میں بھول گئے مَعَادکو
پیشِ نظر نہ رکھ سکے حشر ثمود و عاد کو
ذکرعہد الست
یہ ادب کی شرط تھی بزم میں کہ وہ سر اٹھا کے گہِ صلا
جو کہے أَلَسْتُ بِرَبِّکُم تو میں سر جھکا کے کہوں بَلیٰ
فضیلت کس کے لیے
کسی کو گر کسی پر کچھ فضیلت ہے تو اتنی ہے
کہ عند اللّٰہ اکرم ہیں وہی جو ہم میں ہیں اتقیٰ
اَکْرَمَکُمْ پر غور کیا کر، ہے یہی رازِ فوزِ عظیم
بن گئیں اس نکتہ کو سمجھ کر جنّت کی خاتون، بتولؓ
تلقین اتحادو تبلیغ
تمھار ا عُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ہے وَاْعتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ
پھر اس رسّی کو یارو تھام لیتے کیوں نہیں تم ہو
تیرے آگے ہے رسول اللہؐ کا نقشِ قدم
امربالمعروف سے اور نہی منکر سے نہ رک
فضول خرچی کی ممانعت
ہے ازبر کُلُوا بھی تجھے وَاشْرَبُوا بھی
کبھی یاد آیا ہے لاَ تُسْرِفُوا بھی
پیغام امید
ہے لَا تَخَف کہیں تو ہے لاَ تَحْزَنُوا کہیں
قرآن خود جواب ہے میرے سوال کا
ترغیب محنت
لَیْْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعیٰ کو بھول کر
آرزو میری بھی ہے کیسی بلا کی آرزو
رعایت لفظی
پہلا سبق ملا ہے الٓمّ کا
پھر کیا ضرور ہے کہ میں شرح الم کروں
رد قادیان
قادیاں جب حجّتِ اَکْمَلْتُ کا منکر نہیں
پھر اسے انکار ہے ختم رسالت ہی سے کیوں
باپ لندن، شملہ بیٹا، قادیاں روح القدس
اے مسلمانو! یہی تفسیر ہے وَالْتِّیْن کی
کان والو اَنْکَرَ الْاَصْوَات ہے صَوْتُ الْحَمِیْر
گر، یہ ڈھینچوں ڈھینچوں سننی ہو تو جائو قادیاں
شدھی اور سنگھٹن کے خلاف مولانا کا قلمی جہاد ، نیز زبان پر عبور کہ کیسے کڈھب قافیے باندھے ہیں۔
خدا شرمائے ایسے حسن ظن کو
جو حَبْلُ اْللّٰہ سمجھے سنگھٹن کو
خَبِیْثِیْن اور خَبِیْثَات آج کل ہیں خوب زوروں پر
اگر ہے سنگھٹن سنڈا تو شدّھی بھی ہے مُسٹنڈی
اسی ضمن میںاکبر الہٰ آبادی کی سنگلاخ زمین:ع
پکالیں پیس کر دو روٹیاں تھوڑے سے جَو لانا
میں مولانا ظفر علی خان نے بھی شاعرانہ کمال دکھایا ہے۔ لفظ ’’
جو ‘‘ کا ہم قافیہ دیکھیے:
کہیں میں جَاھِدُوا کے نعرہ سے تم کو نہ لرزا دوں
مرا خوں گرم ہے پہلے ہی اور اس کو نہ کھو لانا
اس کمال کا نقطۂ عروج ان کے وہ اشعار ہیں جن میں انھوں نے قرآنی اقتباسات کو پورے پورے مصرعوںمیں بدل دیا ہے۔یہ ان کی زبان وبیان پر ماہرانہ اور خلاقانہ قدرت کی بدر جہ ٔ اتم عکاسی کرتا ہے۔
سن لو جبریل امیں کا یہ پیام
لَنْ تَنَالُوْ الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا
جس نے ہُوا لکل اس کو بتایا اس سے خدا بیزار ہوا
اِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنْکُم أَمْرُ اللّٰہِ ھو المفعول
چُپ ہوئے پاپا، چل دیے پطرس، گُم ہوئے مرقس، مٹ گئے لُوقا
جَائَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوقَا
مندرجہ بالا مثالیں ’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘ کے مصداق پیش کی گئی ہیں۔ورنہ مولانا ظفر علی خان کے کلام میں تقریباً ساڑھے تین سو اشعار ایسے ہیں جن میںقرآنی الفاظ سے راست استفادہ کیا گیاہے۔اس سے مولانا کی قرآن پاک سے گہری شیفتگی کا اظہار ہوتا ہے۔