ایک سیاسی کارکن کی یاداشتیں

زندگی کے چند خوشگوار لمحات جو مچھ جیل کی نذر ہوگئے!

گزشتہ سے پیوستہ
جس بیرک میں مجھے رکھا گیا تھا اس کی کچھ تفصیل بتانا چاہتا ہوں۔ اس احاطہ میں 9 کمرے تھے۔ جیل کی دیواریں پتھر کی بنی ہوئی تھیں، اور انہیں اس طرح بنایا گیا تھا کہ ان پر سورج کی روشنی پڑے تو تمام کمروں میں اس کی تپش محسوس ہو۔ اس کا مقصد قیدی کو تکلیف دینا تھا۔ جیل کے احاطے میں پہلے کمرے میں ایک بڑی سی چکی لگی ہوئی تھی جس پر میں نے جیل کے جمعدار آدم خان سے پوچھا کہ یہاں چکی کیوں لگائی گئی ہے؟ اس نے بتایا کہ جو قیدی جیل میں شوخی کرتا یا جیل کے قوانین کی پابندی نہیں کرتا، یا بڑا بدمعاش ہوتا ہے اُس کو ایک من گندم دیتے ہیں جو وہ سزا کے طور پر پیستا ہے۔ انگریزوں کے دور میں قیدیوں سے گندم پسوائی جاتی، اس طرح ان کو مصروف رکھا جاتا تھا۔ اس کمرے میں چکی کو دیکھا، یہ سرخ رنگ کے پتھر کی بنی ہوئی تھی، اس کا ایک پاٹ شاید 40 کلو کا ہوگا۔ کبھی کبھی موڈ ہوتا تو اس کو گھماتا۔ جب اس کو پہلی دفعہ گھمایا تو اندازہ ہوگیا کہ یہ کام بہت تکلیف دہ ہوتا ہوگا۔ میں باڈی بلڈنگ کرتا رہا ہوں، اس لیے جب تک اس بیرک میں رہا، کچھ دیر اس کو گھماتا تھا۔ یہاں نہ کسی سے بات چیت کا موقع تھا نہ کوئی کتاب تھی جس کا مطالعہ کرتا۔ یہ دن بہت تکلیف دہ تھے۔ بس دیوار کے قریب آکر ساتھ والی بیرک کے ساتھیوں سے بات چیت کرتا تھا۔ آدم خان سے دوستی ہوگئی تھی۔ اس سے بعض دفعہ اس کی زندگی کے بارے میں پوچھتا۔ وہ بھی جب احاطہ میں داخل ہوتا تو مختلف موضوعات پر بات کرتا تھا۔ اس کی آواز بڑی گونجدار تھی۔ جیل میں داخل ہوتے ہی زور سے آواز لگاتا۔ اس آواز کے ساتھ ہی قیدی اپنے معاملات درست کرلیتے تھے۔ جب اس احاطے سے میرا تبادلہ ساتھ والے احاطہ میں ہوگیا تو قیدی دوستوں کے ساتھ خوب اچھا وقت گزرتا۔ کھانا مچھ کے ساتھی پہنچاتے۔ جب اس بیرک میں تبادلہ ہوا تو عالیجاہ غوث بخش نے قیدی دوستوں کا اجلاس بلایا۔ میرے کمرے کے سامنے سب سمٹے ہوئے تھے اور وہ براہوی زبان میں گفتگو کررہے تھے۔ میں یہ زبان سمجھ لیتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’شادیزئی کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے اور یہ ہماری خاطر جیل میں آیا ہے، ہم جیل کا کھانا کھائیں گے اور جو کھانا ہمارے لیے آتا ہے وہ اس کو دیں گے‘‘۔ یوں اُن کا اجلاس ختم ہوگیا اور مجھے اس محفل کا فیصلہ سنایا گیا۔ میں ان کے قریب گیا اور کہا کہ آپ لوگ تکلیف نہ کریں، میں وہی کھانا کھائوں گا جو قیدیوں کے لیے آتا ہے۔ لیکن ان کا اصرار تھا کہ سب مل کر کھائیں گے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں نے تو ایک حق بات کہی کہ آپ کی حکومت کے ساتھ بھٹو نے ظلم کیا اور آپ کی منتخب حکومت کو ختم کیا، یہ ایک ظلم تھا اور میں نے اس کے خلاف سچ کی آواز بلند کی، جس پر مجھے گرفتار کرلیاگیا اور بغاوت کا مقدمہ قائم کردیا گیا۔ میں حق کی خاطر جیل آیا ہوں۔ وہ خوش ہوگئے۔ بہرحال جو کھانا باہر سے آتا مَیں اُس میں عالیجاہ غوث بخش اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ شریک ہوتا۔ جب جیل آیا تو اُس وقت نہ جماعت میں تھا اور نہ اسلامی جمعیت طلبہ میں۔ لا کالج کا طالب علم تھا، اس ’’جرم‘‘ میں میرا کالج سے تعلق ختم ہوگیا تھا۔ اور جب رہا ہوا تو مجھ پر لا کالج میں داخلے پر پابندی تھی۔ چند سال کے بعد پھر داخلہ لے لیا اور ڈگری حاصل کرلی۔ اس احاطہ میں بعض ساتھی تو واقف تھے، ان میں حمید کرد (مرحوم)، مراد کرد جو حمید کرد کے بھائی تھے، نیپ سے تعلق تھا، گل بلوچ، ان کا تعلق بی ایس او سے تھا۔ میری بیرک میں جتنے قیدی تھے وہ سب کے سب بلوچ تھے، ان میں ایک نوجوان ہندو لڑکا بھی تھا، اس کا تعلق بھی BSO سے تھا۔ اس کی آواز بڑی خوبصورت تھی اور وہ انڈین گانے سناتا تھا۔ یہ بات میرے قیدی دوستوں نے بتائی تھی۔ جیل کے ان دوستوں کے ساتھ وقت اچھا گزر رہا تھا۔ جب اس حصہ میں تبادلہ ہوگیا تو ان دوستوں کو معلوم تھا اور وہ میری خطابت سے واقف تھے۔ ایک اجلاس ہوا جس میں طے پایا کہ شادیزئی ہم سب قیدیوں کی باری باری حاضری لے گا۔ یہ کام کرنے پر تالے لگانے کا سلسلہ شروع ہوتا تھا۔ اور دوسرا منصوبہ یہ تھا کہ اپنے کمرے میں ایک تقریر شروع کروں گا۔ یہ جیل کے دوستوں کی عدالت کا فیصلہ تھا۔ بس دن ختم ہوتا اور پھر جیل کے کمروں میں محفل جمتی۔ 9 کمرے تھے، باری باری سب کا نام پکارتا، مثلاً میں پوچھتا عبدالحمید کرد حاضر ہے؟ جواب آتا حاضر ہوں۔ اس طرح سب اپنے نام کی پکار پر جواب دیتے۔ اس کے بعد میری تقریر شروع ہوتی اور کمروں میں بلند آواز سے نعرے لگتے۔ اس کے بعد وہ سب باری باری تقریر کرتے اور میں سنتا تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ انہیں تقریر کا فن سکھائوں۔ وہ سب تقریر کرتے اور صبح پوچھتے کہ کس کی تقریر اچھی تھی۔ ہندو لڑکے کا نام ستارے رام یا دیوت رام تھا۔ وہ رات کو اپنی آواز کا جادو جگاتا تھا۔ کاش اُن دنوں جو ڈائری لکھنا شروع کی تھی اسے لکھتا رہتا تو ایک تاریخ ہوتی۔ پھر جیل کی داستان اگر جیل سے نکلنے کے بعد شروع کرتا تو بہت سی باتیں جو اب یاد نہیں رہیں، وہ محفوظ ہوتیں۔ اس طرح بہت سے واقعات فراموش ہوگئے۔ لکھنے کا سلسلہ جنوری 1973ء میں شروع کیا۔ ہفت روزہ زندگی میں مسلم قریشی لکھتے تھے، انہوں نے لکھنا چھوڑ دیا تو عبدالماجد فوز (مرحوم) نے جو ممتاز صحافی مختار حسن کے کزن تھے، مجھ سے کہا آپ ’’زندگی‘‘ میں لکھیں۔ یوں لکھنے کا آغاز ہوا۔ 1980ء تک لکھنے کی مشق ہوگئی تھی۔ 1980ء میں جیل سے متعلق چند قسطیں ہفت روزہ آزادی میں لکھی تھیں، اب اُن کی تلاش ہے۔ کچھ واقعات اس میں موجود ہیں۔ بہرحال جیل کے بعض رفقا کے اہم واقعات ذہن میں کل کی طرح تازہ ہیں، ان کو قلمبند کرنا چاہتا ہوں، ان شاء اللہ قارئین تک پہنچادوں گا۔
کوئی 10، 12 دن اس احاطہ میں گزر گئے اور میرے دوست ضیا الدین ضیائی (مرحوم) نے ڈی سی کوئٹہ کو درخواست دی کہ شادیزئی تعلیم یافتہ نوجوان ہے اور پوسٹ گریجویٹ ہے، اس کو بی کلاس دی جائے۔ اس دوران میرے دوست اور ساتھی جیل میں ملنے آتے تھے۔ ضیاء الدین ضیائی (مرحوم)، عبدالحمید مرحوم جو بعد میں جماعت اسلامی بلوچستان کے صوبائی امیر بنے، خلیفہ عبدالرحیم، والد مرحوم، چھوٹی بہن جو اس وقت 6 سال کی تھی وہ بھی والد مرحوم کے ساتھ آتی۔ مچھ جیل شہر سے خاصی دور بنائی گئی تھی اور قیدیوں سے ملنے کے لیے نہ ٹرانسپورٹ کا انتظام تھا، نہ پختہ سڑک تھی تاکہ لوگ آنا جانا شروع نہ کردیں۔ اور احاطہ کے قریب کوئی ہوٹل بھی نہ تھا تاکہ آنے والے جلدی چلے جائیں۔ صرف چند منٹ کی ملاقات کا وقت دیا جاتا۔
(جاری ہے)