سید عشرت حسین
کینو پچھلی صدی کا پھل ہے۔ یہ1927ء میں کنگ اوروولف کی باہمی پیوندکاری اور انسانوں کی کوشش سے اللہ نے پیدا کیا۔ اس کی نباتاتی اصطلاحHesperidium ہے۔ اس کا تعلق ترش پھلوں کے خاندان سے ہے۔ اسے سنگترے ہی کی ایک قسم سمجھنا چاہیے۔
(ترجمہ) ’’اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں مگر وہ جس کی اس نے سعی (کوشش یا محنت)کی ہے، اور اس کی سعی عنقریب دیکھی جائے گی، پھر اس کی پوری جزا اسے دی جائے گی۔‘‘(سورۃ النجم:39۔40)
اللہ تعالیٰ نے سنگترے، مالٹے اور کینو میں غذائی اور شفائی اثرات سمو دیے ہیں۔ بیماری سے بچنے کے لیے، بیماری کے دوران یا اس کے بعد کی کمزوری دور کرنے کے لیے کینو کا تازہ رس بہترین ہے۔ بازاری پیک شدہ رس اور اس کے تازہ رس میں بہت فرق ہے۔ سردی کے موسم میں جسمانی نشوونما، سردی سے بچنے، ہاضمے کی درستی، گیس(ریاح)، اور خون کی صفائی کے لیے کینو لاجواب ہے۔ کینو کی پھانکوں پر لگا سفید ریشہ بھی کھانا چاہیے۔ یہ بہترین Fiber ہے جو آنتوں کی فعالیت اور قبض کے لیے اکسیر ہے۔
سفید زیرہ، کالا نمک، سونٹھ اور کالی مرچ پیس کر کینو کی پھانکوںپر لگاکر کھانے سے ہاضمہ درست اور بھوک میں اضافہ ہوتا ہے۔ منہ میں پانی آنے اور کھٹی ڈکاروں میں مفید ہے۔
نوٹ: بلڈ پریشر کے متاثرین یہ مسالہ استعمال نہ کریں۔
مغرب کے ماہرین کہتے ہیں کہ بخار کے مریضوں کے لیے کینو بہترین ثابت ہوتا ہے۔ اس کا رس پیاس کی شدت کو دور کرتا ہے اور جسم میں موجود زہریلے مادوں کو خارج کردیتا ہے جوکہ خون اور گوشت کو جلاتے ہیں۔ کینو کا رس ایک ایسا مقطر پانی ہے جس کا جواب نہیں ہے۔ جراثیم سے قطعی پاک ہونا اور اس میں کسی قسم کے غیر مادوں کا نہ پایا جانا اس کا امتیاز ہے۔
کینو کا رس محلل کاربوہائیڈریٹ (گلوکوز، فروکٹوز، سکروز)، نامیاتی تیزاب (بنیادی طور پر Citric Acid)، وٹامن بی کمپلکس، وٹامن سی، معدنی نمک اور دیگر غذائیات پر مشتمل ہوتا ہے۔ معدنیات میں فولاد، چونا اور فاسفورس موجود ہوتے ہیں۔ اس کی غذائیت اور خصوصیات پر غور کریں تو یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ یہ پھل نوعِ انسانی کے لیے قدرت کے اعلیٰ ترین تحائف میں سے ایک ہے۔
ایک شیریں کینو کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا رس معدے میں جاکر جذب ہوجاتا ہے اور معدے پر کوئی بوجھ نہیں ڈالتا۔ گویا اس کا رس ایک ہضم شدہ غذا ہے جسے انسان کا اپنے منہ کے ذریعے معدے میں ڈالنا ہی کافی ہوتا ہے۔
سو گرام کینو کے غذائی اجزاء
وٹامن سی۔۔31.75ملی گرام
فولاد۔۔0.40ملی گرام
کیلشیم۔۔40ملی گرام
پانی۔۔47.50فیصد
حل پذیر شکر۔۔3.75ملی گرام
ایسڈیٹی(تیزابیت)0.58ملی گرام
فاسفورس۔۔18ملی گرام
ٹی ایس ایس۔۔10.18ملی گرام
پی ایچ۔۔3.05ملی گرام
ناقابلِ حل شکر۔۔3.65ملی گرام
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک بڑے (شیریں)کینو کا رس ہمارے جسم کو اتنی قوت بہم پہنچاتا ہے جتنا ڈبل روٹی کا نصف ٹکڑا۔ فرق اتنا ہے کہ ڈبل روٹی کا ٹکڑا ہضم ہونے میں خاصا وقت لیتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں کینو کا رس فوری طور پر ہضم ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے کمزور مریضوں کو بیماری کے دوران استعمال کرایا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ کینو جس قدر شیریں (میٹھا) ہوگا اسی قدر اس میں توانائی اور قوت زیادہ ہوگی۔
جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ایک پائو دودھ کی مقدار سے جس قدر قوت حاصل ہوتی ہے اسی قدر قوت کینو کے ڈیڑھ پائو رس سے حاصل ہوتی ہے۔ جبکہ دودھ کو ہضم ہونے میں وقت لگتا ہے، مگر کینو کا رس فوری ہضم ہوجاتا ہے۔
معدنی نمکیات کے اجزاء خصوصاً چونا وغیرہ سے تیزابیت دور ہوجاتی ہے۔ آنتوں میں ناقص غذا سے جو سستی پیدا ہوجاتی ہے اسے یہ رفع کرتا ہے۔
جن بچوں کو ابتدا سے ہی ماں کا دودھ میسر نہ ہو اور ان کی پرورش ڈبے کے دودھ پر ہو، ان بچوں کو تازہ کینو کا رس پلانا نہایت مفید ہوتا ہے۔ اس طرح انہیں سوکھے کی بیماری لاحق نہیں ہوتی۔ چھوٹے بچوں کو روزانہ عمر کے تناسب سے دو سے چار چائے کے چمچے کینو کا رس پلانا مفید ہوگا۔ تحقیقات سے ثابت ہوچکا ہے کہ ایک سے دو سال کی عمر کے شیرخوار بچوں کو دو سے چھ چھٹانک کینو کا رس پلایا گیا تو ان کی صحت حیرت انگیز طور پر بہتر سے بہتر ہوگئی۔ کینو کھانے یا اس کا رس پینے کا اصل وقت خالی معدہ ہے۔
بخار کی وجہ سے اکثر مریض کی زبان پر میل جم جاتا ہے اور پھر اس کی ذائقے کی حس بری طرح سے متاثر ہوجاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اُسے کھانے سے رغبت نہیں رہتی، منہ کڑوا رہتا ہے، کچھ اچھا نہیں لگتا۔ کینو یا اس کا رس اِس کا بہترین علاج ہے۔
کینو کے رس میں پروٹین کی مقدار ایک فیصد یا اس کا نصف ہوتی ہے، اسی لیے بخار کے مریضوں کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے کیونکہ مریض کی قوتِ ہاضمہ کمزور ہوتی ہے اور لازم ہوتا ہے کہ اسے وہ غذا ملے جو کہ معدے پر بھاری نہ ہو۔ شدتِ بخار میں لعابِ دہن میں بھی کمی واقع ہوجاتی ہے، منہ خشک ہوجاتا ہے۔ کینو کا رس اس کمی کو بھی دور کرنے میں مدد دیتا ہے۔ میعادی بخار کے مریض کے لیے بھی شیریںکینو کا رس مفید ہے۔
کینو کا رس بھوک کھولنے، اور سردیوں میں منہ کے چھالوں میں مفید ہے۔ معدے کی گرمی کو اعتدال پر لانے اور پانی کی کمی کو مؤثر انداز میں پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
جب مسوڑھے پھول جائیں، دانتوں کی تکلیف یا خرابی کی وجہ سے خون یا پیپ آنے لگے تو ایسے میں آپ اس پھل کا کرشمہ دیکھیے۔ اللہ تعالیٰ نے اس شاندار پھل میں وٹامن سی کی وافر مقدار بھر دی ہے۔ ایسے مریضوں کو چاہیے کہ دن میں دو یا تین مرتبہ کینو یا اس کا تازہ رس پئیں۔ ان شاء اللہ شفاء ہوگی۔
جن خواتین کو تھوڑا سا بھی کام کرنے پر سانس پھولنے لگتی ہو، سیڑھیاں چڑھتے ہوئے برا حال ہوجاتا ہو، گھٹنے اور ٹانگیں جسم کا بوجھ اٹھاتے ہوئے دکھتی ہوں، جسمانی کمزوری اور تھکان محسوس ہوتی ہو، پیشاب کی رنگت زرد اور جلن ہو، اُن کے لیے کینو کا تازہ رس بہترین ٹانک ہے، یہ جگر کی گرمی اوراس کی فعالیت کے لیے بھی بہترین دوا ہے۔
کینو کی قاش شہد میں ڈبوڈبو کر کھانا مزید فوائد کا باعث بنتا ہے۔
جن لوگوں کو قبض کی تکلیف لاحق ہو، انہیں چاہیے کہ صبح ناشتے میں کم ازکم تین کینو اس مرض کے ختم ہونے تک متواتر کھایا کریں۔ کینو کے ریشہ (پھوک) کے ساتھ کھائیں، یہ انتڑیوں کی صفائی کرتے ہیں۔ یہ بہترین فائبر(Fiber) ہیں۔
مغرب کے باشندے اپنے ناشتے سے پہلے تازہ کینو کا رس پیتے ہیں، کیونکہ انہیں اس کی افادیت اور اپنی صحت کا خیال رہتا ہے۔
غرضیکہ مجموعی حیثیت میں کینو اور اس کا تازہ رس قدرت کا انمول تحفہ ہے۔
اسی کو کیا، کسی بھی پھل کو فریج میں نہ رکھیں۔ فریج میں رکھے ہوئے پھلوں کے استعمال سے گریز کریں۔