پروفیسر ڈاکٹر امتیاز احمد
کتاب : باتیں کچھ سائنس کی!
تالیف : پروفیسربدر الدجیٰ خان
ترتیب : اراکین بزم سائنسی ادب
ناشر : بزم سائنسی ادب (رجسٹرڈ) کراچی
قیمت : 300 روپے
ملنے کا پتا : غضنفر اکیڈمی،70، سرسید اردو بازار، ناظم آباد، کراچی
پروفیسر بدرالدجیٰ خان بھی ہم سب کی طرح جناب عظمت صاحب کی بزم سائنس کی شمع کے پروانے رہے ہیں، اور تقریباً بچپن سے ہی سائنس کے مشکل مضمون کو اردو کے لطیف اور آسان فہم لباس میں قارئین کے سامنے پیش کرتے رہے ہیں۔ اس طرح انہوں نے نہ صرف سائنس کی ترویج کا کام دلچسپ انداز میں پیش کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے، بلکہ اردو زبان کی وسعتِ دامانی کا علَم بھی بلند کررکھا ہے۔اپنی کتاب کا عنوان ’’باتیں کچھ سائنس کی‘‘ مقرر فرماکر آپ نے کچھ زیادہ ہی انکسار کا اظہار کیا ہے۔آپ نہ صرف ایک قابل اور تجربہ کار استاد رہے ہیں بلکہ ایک جید اور جانے اور پہچانے جانے والے ماہر طبیعات بھی، جنہوں نے اپنے مضمون کے انتہائی مشکل مسائل کو اپنے بہت سے مضامین میں آسان اور سلیس اردو زبان میں بیان بھی فرمایا ہے۔ اس طرح نہ صرف یہ کہ ہماری زبان اردو کا دامن مزید وسیع فرمایا ہے بلکہ بہت سے لوگوں کے نزدیک طبیعات جیسے مشکل اور اس قدر خشک مضمون کو عام لوگوں کے لیے دلچسپ بھی بنادیا ہے۔ تجسس سے بھرپور اور عام فہم انداز میں اپنے بہت سے بیان کیے ہوئے کئی ادق مسائل اور موضوعات کو بھی عام لوگوں کے لیے انتہائی رغبت کا باعث بنادیا ہے، اور وہ انتہائی انہماک اور غور و فکر کے ساتھ انہیں پڑھنے اور ان سے فیضیاب ہونے پر خود کو مائل پاتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اتنے بہت سے مضامین کو ایک کتابی صورت میں جمع فرماکر آپ نے نہ صرف طبیعات، بلکہ اردو کی بھی خدمت فرمائی ہے۔پروفیسر بدر الدجیٰ خان صاحب کی طبیعات بھی عام سی طبیعات سے انتہائی مختلف طبی طبیعات کا ایک مخصوص شعبہ ہے، جس کی اطلاقی افادیت بھی مسلّم ہے۔ ’طب اور طبیعات کا ملاپ‘، ’طبی طبیعات‘، ’سنگل ایٹم لیزر سستا اور طاقت ور‘، ’زیریں سرخ انفراریڈ شعاعیں‘، ’سرطا ن(کینسر)‘، ’صنعتی ترقی سے ماحول کا بگاڑ‘ وغیرہ ایسے مضامین ہیں جن کے ذریعے طبیعات کے اس قدر نئے اور افادیت سے پُر شعبے سے آگاہی حاصل ہوگی۔
اس کے علاوہ ’کالا باغ ڈیم کا ٹیکنیکل تجزیہ (کس کا کتنا فائدہ، کتنا نقصان)‘، ’مادام کیوری‘ ،’بے قیمت پانی‘، ’ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم! کیا ہیں اور کیسے پھٹتے ہیں؟‘، ’ایٹم بم کیا ہوتا ہے اور کیسے پھٹتا ہے؟‘ ’کونیات (Cosmology) دورِحسی طریقے اور ارضی معلومات‘ انتہائی متجسس کرنے والے اور دلچسپ موضوعات ہیں جنہیں ہرکوئی نہ صرف جاننا چاہتا ہے بلکہ ایک دفعہ شروع کرکے ختم کرکے ہی دم لیتا ہے۔ آپ یقینا یہ سوال کرنا چاہ رہے ہوں گے کہ آخر ’’دوسروں کے غضنفر صاحب اور اماں‘‘ جیسے عنوان کے لیے اس ’’باتیں کچھ سائنس کی‘‘ میں کیسے گنجائس نکالی گئی؟ تو جناب پروفیسر بدر الدجیٰ صاحب کو آدرش، مخصوص ماحول اور ابتدائی تربیت تو ایسی ہستیوں نے دی ہوگی۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ مضامین اس کتاب کے لیے نہ صرف بہت ضروری تھے بلکہ شاید لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے تھے، اور زیادہ تر لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے ہر دل عزیز استاد اور صاحبِ کتاب کو اس مقام تک کن حالات اور واقعات نے پہنچایا۔
’سائنسی ادب: کیا اور کیوں!‘، ’اصنافِ سائنسی ادب‘، ’اردو میں سائنس اور موضوعاتی شاعری‘، ’اقبال کی شاعری میں سائنسی شعور و فکر‘ وغیرہ اردو زبان میں سائنس کی ترویج اور اس کی افادیت پر بھرپور روشنی ڈال کر صاحبِ کتاب نے اردو کی اس صنف کو بھی نہ صرف قارئین میں اچھی طرح روشناس کردیا ہے بلکہ سرسید احمد خان، بابائے اردو، پروفیسر افضال حسن قادری، ہم سب کے ہردل عزیز میجر صاحب (آفتاب حسن) اور عظمت صاحب جیسی ہستیوں کو خراجِ تحسین اور خراجِ عقیدت بھی پیش کیا ہے۔
اور پھر آخر میں ’’وہ کون ہے جو اس کائنات کا عظیم منصوبہ ساز ہے‘‘ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ان تمام مضامین کا حاصل اور لامحالہ نقطۂ آخر یہی منزل ہے جہاں ہم بہ آسانی پہنچ جاتے ہیں۔ واقعی اردو کا دامن وسیع کرنے میں پروفیسر بدر الدجیٰ اور ان جیسے بہت سے لوگوں کا ایک جمگھٹا، ایک کارواں شامل ہے۔ راقم امید رکھتا ہے کہ کتاب کے اگلے ایڈیشن میں املا کی بعض معمولی غلطیاں ضرور دور کی جائیں گی۔ اور اللہ کرے زورِ قلم اورزیادہ۔
کتاب کے مضامین کو سراہنے والے ایک قاری کا کہنا تھا کہ اچھا ہوتا کہ کتاب کا عنوان ’’کچھ باتیں سائنس کی‘‘ ہوتا۔