کتاب : علامہ اقبال کا تصورِ اجتہاد
(مجموعہ مقالات)
مرتبین : ڈاکٹر ایوب صابر، محمد عمر سہیل
صفحات : 282 قیمت 500روپے(12امریکی ڈالر)
ناشر محمد بخش سانگی، ناظم اقبال اکادمی پاکستان۔ایوانِ اقبال، لاہور/محلِ فروخت: 116میکلوڈ روڈ، لاہور
فون : 042-3735214
فکرِ اقبال کے سینکڑوں پہلو ہیں جن کو موضوعِ بحث بنایا جاتا ہے۔ ان کی توضیح، تفہیم، تشریح اور تحقیق کی جاتی ہے۔ علامہ کی فکر میں علم و آگہی کا ایسا وفور ہے کہ قاری جوش و جذبے سے لے کر مستقبل کی دھندلی سی تصویر تک دیکھ سکتا ہے۔ آغاشورش کاشمیری مرحوم تحریر فرماتے ہیں:
’’جس قسم کی دماغی ویرانیاں ہمارے ہاں عام ہورہی ہیں، اقبالؔ ان کے خلاف حوصلے، یقین اور جہد کا پیغام ہے۔ سال بہ سال اس کا تذکرہ نئے دماغوں کو روشنی اور پرانے دماغوں کو تازگی بخشتا ہے، جس سے قوم کی معنوی زندگی نشوونما پاتی ہے۔
اقبالؔ اپنی تعلیمات کے باعث ملّت کے ذہن میں اس طرح راسخ ہوگیا ہے کہ کوئی فکری راہزن اس کے اعتقادات کی عصبیتوں پر نہ شب خون مار سکتا ہے اور نہ نئی پود ہی کو بہ آسانی سپر انداز ہونے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔
اقبالؔ اپنے افکار و نظریات کی رو سے عالمِ انسانی کی اجتماعی میراث ہے۔ لیکن ہمارے دائرۂ کار و افکار میں اس کا وجود ملکی سیاسیات کے مختلف ادوار میں بٹ کر رہ گیا ہے۔ بے شک وہ ہمارا قومی شاعر ہے، لیکن محض قومی شاعر نہیں بلکہ وہ مشرق کی نشاۃِ ثانیہ کا داعی ہے اور یورپ کے دانش کدوں کا نقاد بھی، جس نے بلاشبہ یورپی افکار کی برتری کو چیلنج کیا ہے۔
اقبالؔ کے شاعرانہ محاسن پر خامہ فرسائی کرنا، نقد و نظر کی ایک مستحسن کوشش ہے۔ اور ادبی نقاد اس فریضے سے بڑی حد تک حسن و خوبی کے ساتھ عہدہ برآ ہوئے ہیں۔ لیکن اقبالؔ ایک عصری شاعر ہونے کے باوجود محض شاعر ہی نہیں تھا، لازماً وہ ایک عہد کا شاعر تھا اور اس کا دور بھی عظیم دور ہے، لیکن وہ اپنی روح کے لحاظ سے مفکر تھا۔ چنانچہ اس کی فکر ایک اثباتی نصب العین کی مصور بھی ہے اور معلّم بھی۔
اس کا اصل پیام توحید و رسالت کی اساس پر مسلمان اقوام اور ان کی وساطت سے ملّتِ اسلامیہ کی انفرادی اور اجتماعی اَنا یعنی خودی کی تکمیل ہے جس کے معنی اظہارِ ذات کے علاوہ انسان کی اجتماعی تعمیر اور معاشرہ کی بکلی تطہیر ہے۔‘‘
زیر نظر کتاب میں سہ روزہ قومی سیمینار ’’اقبال کا تصورِ اجتہاد‘‘ میں پیش کیے گئے مقالات جمع کردیے گئے ہیں، مرتبین تحریر فرماتے ہیں:
علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کے شعبۂ اقبالیات کے مقاصد میں فکرِ اقبال کے فروغ کے لیے سیمیناروں اور کانفرنسوں کا انعقاد بھی شامل ہے۔ فکرِ اقبال کے فروغ و اشاعت کے باب میں اقبال اکادمی پاکستان کی خدمات بھی اقبال شناسی کی روایت کا اہم باب ہیں۔ اشاعتی، تحقیقی اور سیمیناروں سے متعلقہ سرگرمیوں کے ذیل میں اکادمی کا کردار قابلِ تحسین ہے۔ چنانچہ مقاصد کے اسی اشتراک کے باعث علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی اور اقبال اکادمی پاکستان کے زیراہتمام ایک سہ روزہ قومی سیمینار ، 28 تا 30 اکتوبر 2007ء کو منعقد ہوا۔ سیمینار کا موضوع ’’اقبال کا تصورِِ اجتہاد‘‘ تھا۔ زیر نظر مجموعہ ان مقالات پر مشتمل ہے جو اس سیمینار میں پیش کیے گئے۔ افتتاحی اور اختتامی اجلاسوں کے علاوہ سیمینار کی چھے نشستیں ہوئیں۔ افتتاحی اجلاس میں ڈاکٹر خالد مسعود نے اپنا مقالہ پیش کیا۔ یہ عالمانہ مقالہ مجموعے میں شامل ہے۔ باقی صاحبانِ علم نے زبانی خطاب کیا۔
سیمینار میں ڈاکٹر ظفر اسحق انصاری نے افتتاحی خطبہ دیا، انھوں نے کہا:
’’میرے لیے یہ عزت و افتخار کی بات ہے کہ اتنے وقیع علمی اجتماع سے خطاب کررہا ہوں، اور ایک ایسی شخصیت کے خیالات کے بارے میں جس کا اسلام سے اور پاکستا ن سے بڑا بنیادی واسطہ ہے یعنی علامہ اقبال۔ ہم نے آنکھیں اس طرح کھولیں کہ اقبال کی محبت اور اقبال سے عقیدت کم و بیش جزوِ ایمان تھی، اور جیسے جیسے شعور میں ترقی ہوئی اور اقبال کے کلام اور ان کی تحریروں کے مطالعے کی توفیق ہوئی تو اس ابتدائی عقیدت و محبت میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ ہم اقبال کے خیالات کو سمجھنے اور ان کے اُٹھائے ہوئے مسائل پر غور و فکر کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ علامہ اقبال کے خطبات میں ایک اہم خطبہ اجتہاد کے موضوع پر ہے۔ اس میں انھوں نے اجتہاد کے اُصول کو حرکت و نمو کا اُصول قرار دیا اور اس پر زور دیا کہ ہمیں اپنے پورے فقہ پر اور اس کی تشکیلِ نو پر غور کرنا ہے۔ اجتہاد کے دروازے کو کھلنا چاہیے، اجتہاد کرنا چاہیے تاکہ اسلامی قانون ایک زندہ اور متحرک حیثیت سے سامنے آسکے، زندگی کے مسائل سے نبردآزما ہوسکے اور زندگی کی رہ نمائی کرسکے، اس گاڑی کو آگے لے جاسکے۔
ہمیں اقبال کے اس خطبے کو غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اجتہاد کے موضوع پر دوسری تحریروں اور مختلف جگہوں پر بکھرے ہوئے اشعار کو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے عالمانِ کم نظر کے اجتہاد سے ائمہ کی تقلید کو محفوظ تر قرار دیا ہے۔ وہ کسی بے قید اور ہمہ آزاد تغیر کے حق میں نہیں تھے۔ وہ اسلام کے دیے ہوئے پیرامیٹر کے اندر رہتے ہوئے، تغیر کے عمل کو، جو کہ رک گیا تھا، ازسرِنو جاری کرنا چاہتے تھے۔ دراصل کوئی معاشرہ، کوئی ملت، کوئی تہذیب ہو، اُس کے لیے اس سے مفر نہیں کہ وہ ثبات اور تغیر، ان دونوں عناصر کو اپنے ساتھ توازن اور اعتدال کے ساتھ لے کر چلے۔ کسی ایک طرف جھکائو سے اختلال آجائے گا۔ اقبال نے خطبۂ اجتہاد کے آغاز ہی پر اس کی وضاحت کی ہے۔ چونکہ انھیں محسوس ہورہا تھا کہ پلڑا جمود کی طرف جھکا ہوا ہے اس لیے انھوں نے حرکت و تغیر پر زیادہ زور دیا، تاہم وہ ثبات پر بھی زور دیتے ہیں۔ یہ اقبال کا اصل تناظر ہے۔ ایسے تناظرات کو نظرانداز کرنے سے غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ چنانچہ میرے نزدیک اجتہاد اور تقلید میں بھی کوئی تناقض، کوئی تضاد نہیں ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ اگر تقلید کرنے والا نہ ہو تو مجتہد کس کے لیے اجتہاد کرے گا! امت کے سارے افراد تو اجتہاد نہیں کرسکتے۔ اجتہاد جس سطح پر ہوتا ہے اس سطح پر اسے کبھی رُکنا نہیں چاہیے۔ دوسری طرف مجھ جیسے کم علم آدمی کے اندر یہ خودشناسی ہونی چاہیے کہ میرا مقام تقلید کا مقام ہے۔ میرا مقام یہ ہے کہ جو لوگ اجتہاد کے اہل ہیں ان کی بات کو سنوں اور اس پر عمل کروں۔‘‘
کتاب میں جو مقالات شامل کیے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
علامہ اقبال کے اصولِ اجتہاد محمد خالد مسعود
اقبال، اجماعِ امت اور قیام پاکستان پروفیسر فتح محمد ملک
اقبال کا تصورِ اجتہاد اور دورِ حاضر کے اجتہادی ادارے پروفیسر عبدالجبار شاکر
جدید سیاسی نظام اور اجتہاد ابو عمار زاہد الراشدی
علامہ اقبال اور حدیث ڈاکٹر خالد علوی
عمل ِاجتہاد میں آزادیِ فکر کا کردار عبداللہ
شریعت، مقاصدِ شریعت اور اجتہاد محمد عمار خان ناصر
اقبال کے تصورِ اجتہاد پر اعتراضات کا جائزہ ڈاکٹر ایوب صابر
اقبال، اجتہاد اور اسلامی جمہوری ریاست ڈاکٹر شاہد اقبال کامران
’’…زنجیر پڑی دروازے میں…!‘‘ محمد سہیل عمر
دورِ جدید کی تہذیبی ساخت، اسلام اور اقبال ڈاکٹر نجیبہ عارف
وقت کے اجتہادی مسائل میں مولانا احمد رضا خان ا ور علامہ اقبال کا مؤقف ڈاکٹر تنظیم الفردوس
کتاب سفید کاغذ پر عمدہ طبع کی گئی ہے، مجلّد ہے۔ سادہ سرورق سے آراستہ ہے۔ یہ اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن ہے۔ پہلا ایڈیشن 2008ء میں، دوسرا 2011ء میں اور یہ تیسرا 2018ء میں طبع کیا گیا ہے۔